وزیر ،میراثی اور بادشاہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات 10 فروری 2022

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

کہتے  ہیں کسی ملک کا بادشاہ  اچانک مر گیا اور نئے بادشاہ کی ضرورت تھی تا کہ  نظام  سلطنت چلتا رہے  مگر مرنے والے بادشاہ کی کوئی اولاد         نہ تھی اس لیے مورثی بادشاہت کا باب ختم ہو گیا ۔آخر بادشاہ چننے  کے  مختلف پہلوؤں پر غور کیا جانے لگا ۔ پہلا کسی سینئر وزیر کو بادشاہ کی سیٹ پر بٹھا دیا جائے  لیکن سب کے سب وزیر  سینئر تھےاور ہر کوئی بادشاہت کا امیدوار تھا  اور  ملکی تجربہ بھی تھا ۔

پھر دوسرے طریقے  میں کہا گیا کہ  سب لوگوں کو میدان میں  اکٹھا کیا جائے اور "ہما "پرندہ  چھوڑا جائے    وہ جس کے  سر پر بیٹھے گا اس  کو بادشاہ بنا دیا جائے گا مگر کسی  وجہ سے اس پر بھی اتفاق نہ ہو سکا  ۔ آخر کار اس بات پر  اتفاق ہو گیا کہ باہمی مشورے سے  کسی ایک دن کو منتخب کیا جائے گا اور پورے شہر کے ایک دروازہ چھوڑ کر  سب دروازے بند کر دیے جائیں اور ایک دروازہ کھلا رکھا جائے ۔

(جاری ہے)

رات کے پچھلے پہر  جو بھی پہلا مرد داخل ہو گا اس کو  بادشاہت کا تاج پہنایا جائے گا ۔
ایک شخص جو غربت کا مارا کئی دنوں سے بھوکا تھا ۔ اور ذات کا میراثی-  کام دھندا کرنے کی عادت نہیں تھی جو کچھ  مل جاتا کھا لیتا ۔ لیکن کچھ دنوں سے  کھانے کو کچھ نا ملا ۔ آخر فیصلہ کیا کہ  صبح صبح شہر میں جائے اور کسی کے گھر کے باہر بچا ہوا کھانا اٹھا کر کھا لےاور پیٹ کی آگ ٹھنڈی  کر لے ۔

اور اس کی غربت اور عزت  کا بھرم رہ جائے گا۔ مگر  اللہ کریم کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔اور کچھ  انتظام نااہل  وزیروں نے  بھی کر رکھا تھا ۔ جب میراثی شہر کے  بڑے داخلی دروازے سے داخل ہوا تو اس کو وہاں پر معمور پہرے داروں نے آن لیا اور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا ۔ میراثی ایک غریب  ،دوسرا بھوکا اور تیسرا  دل کا کمزور  اور اوپر سے پہرے داروں  کا طریقہ واردات   دیکھ کر بہت پریشان ہوا اور اس سے پہلے کہ بے ہوش ہو جاتا  ۔

ایک پہرے دار کی آواز آئی کہ جناب پریشان نہ ہوں آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ ہمیں تو کہا گیا تھا کہ جو بھی آج  رات پچھلے پہر  سب سے پہلے آئے اس کو گرفتار کر لو  اس لیے آپ کو دن نکلتے ہی  مرحوم بادشاہ کے دربار میں پیش کیا جائے گا ۔  
آخر کار وقت آن پہنچا  اور دربار شروع ہوتے ہی میراثی کو وزیروں  کی فوج کے سامنے پیش کیا گیا ۔ جب میراثی  سب کے درمیان آیا تو  سب نے بادشاہ سلامت  کی بلند آواز میں  استقبال کیا گیا ۔

اور میراثی پریشان ہو گیا ۔ ڈرتے ڈرتے میراثی نے پوچھا کیا واقعی میں بادشاہ۔۔۔۔۔ تو  پورے  دربار سے  ایک ہی آواز آ ئی جی بادشاہ سلامت ۔ میراثی کو پوشاک پہنائی گئی اور بادشاہت کی کرسی پر  بیٹھا دیکھ کر ایک وزیر نے کہا کیا حکم ہے میرے آقا ۔تو بادشاہ (میراثی) جو کافی دنوں سے بھوکا بھی تھا اور دل میں خیال آیا کہ ہمیشہ پوری زندگی  حلوا نہیں کھایا اور آرزو ہی رہی ہے ۔

دھیمی سی آواز میں بولا کہ حلوا بناؤ اور ناشتے میں حلوا  پیش کیا جائے ۔حکم کی تعمیل ہوئی اور فوراَ  ناشتے میں پیش کر  دیا   گیا ۔اب میراثی بادشاہ تو بن گیا اس کی جانے بلا سے کہ بادشاہت کیا ہوتی ہے ۔ اس کو جب بھی کوئی کام کہا جاتا اس کا ایک ہی جواب ہوتا "حلوا "بناؤخود بھی کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ۔ آخر وقت گزرتا گیا اور بادشاہت کے ساتھ حلوا  سب لوگ کھاتے رہے ۔

ساتھ والے پڑوسی ملک کے بادشاہ کو   جب خبر ملی کہ بادشاہ ایسا ہے تو اس نے اس پر حملہ کرنے کی تیاری کے لیے حکم دے دیا ۔ میراثی بادشاہ کو جب  بتایا گیا کہ بادشاہ سلامت پڑوسی ملک نے حملے کی تیاری شروع کر دی ہے ۔ میراثی بادشاہ نے کہا کوئی مسلئہ نہیں ہے  حلوا  بناؤ آپ بھی کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ۔ پڑوسی بادشاہ نے حملہ کر دیا  پھر  میراثی  بادشاہ کو بتایا گیا  اس نے کہا حلو ابناؤ آپ بھی کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ۔

آخر پڑوسی ملک نے میراثی بادشاہ  کے ملک پر قبضہ کر لیا  ۔ اور میراثی نے اپنا لباس اتارا اور اپنی پرانی چادر پکڑی اور چل دیا ۔ تو  نئے حاکم بادشاہ نے اس کو گرفتار کر لیا اور پوچھا کہ تم کیسے  بادشاہ تھے حملے کا جواب نہیں دیا  اور حلوا  ہی کھاتے رہے  ۔ تو میراثی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ مجھے کیا پتا کہ بادشاہ اور بادشاہت  کیا ہوتی ہے اور اس کے کیا کام ہوتے ہیں ۔

میں تو حلوے کا بھوکا تھا اور وہ کھاتا رہا ۔ اب بادشاہت ختم  ہم بھی اپنے  گھر  جانے لگے تو آپ نے  روک لیا ۔
آج کل یہی حال پاکستان کے اداروں کا ہے  کہ نااہل   لوگ جب حکمران بن جائیں تو ایسے ہی فیصلے صادر فرماتے ہیں  اور ملک اور ادارے اسی طرح دلدل کی طرف چلے جاتے ہیں ۔ ہمارے ملک کی افسر شاہی بھی اداروں کو لے ڈوبتی ہے ایک دوسرے کی کمزوریوں کو ڈھال بنا کر غلط کام کرواتے ہیں اور خاص طور پر رشتے داروں کو نوازا جانا تو عام سی بات ہے ۔

ملکی ترقی اور اداروں کی بربادی میں ان ہی  نااہل لوگوں کا ہاتھ ہے ۔ اور ان کو پتا بھی ہوتا ہے کہ  ان کے بارے لوگ کیا رائے رکھتے ہیں مگر اگر اپنی عزت یا ملک اور ادارے کی عزت کی فکر ہوتی تو آج پاکستان اس پوزیشن پر نہ ہوتا ۔ ہمارے حکمرانوں نے جس میں  مسلم لیگ (ن )  میں  نواز شریف کے 56 رشتے دار   اور زرداری کے 52 رشتے دار  حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے ۔ پھر لوگ کہتے ہیں ملک کو تباہ کر دیا ۔   یہاں پر لوگ صرف میراثی کی طرح حلوا کھاتے ہیں اور کپڑے جھاڑ کر  چلتے بنتے ہیں ۔ ملک کا جو نقصان ہوتا ہے ساتھ ساتھ آنے والے نسلوں کی تباہی کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :