جھوٹ اور گڈریا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ 17 دسمبر 2021

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

 جھوٹ کسی شخص یا گروپ کا کسی دوسرے شخص یا گروپ کے متعلق قصداً کسی بات کو حقیقت  کے خلاف بیان کرنا ہے  جھوٹ کئی وجوہات کی  بنا پر کوئی فائدہ پانے  یا نقصان سے بچنے کے لیے بولا جاتا ہے کسی بھی معاشرے میں  اس کو عام طور پر  ایک ایک برا فعل سمجھا جاتا ہے  اور اس سے بچنے کے لیے کہا جاتا ہے
دنیا میں جھوٹ کا آغاز کب اور کیوں ہوا  اور کون سا پہلا انسان تھا جس نےجھوٹ بولا اس سلسلے میں تاریخ بلکل کوئی گواہی نہیں دیتی مگر بعض لوگوں کا نظریہ ہے  کہ جب شیطان نے حضرت آدم ؑ اور اماں حوا  کو ورغلایا تھا کہ تم فلاں درخت کا پھل کھا لو گے تو تمھاری آنکھیں روشن ہو جائیں گی۔

اور تم سب چیزوں کو دیکھ سکو گےتو شیطان کا بس حضرت آدم ؑپر تو نہ چلا لیکن اس نے اماں حوا کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ  اس درخت  (جس کے پاس جانے سے اللہ نے منع کیا تھا )کے پھل  کو کھانے سے کچھ نہیں ہو گا۔

(جاری ہے)

بلکہ تمھاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم سب کچھ دیکھ سکو گے۔ شیطان کی یہ بات سن کر اماں حوا نے حضرت آدم ؑسے کہا کہ اس درخت کے پھل کھانے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہہماری آنکھں کھل جائیں گی اور ہم سب کچھ دیکھ سکیں گے۔

۔ در اصل اماں حوا نے اللہ تعالی  کے اس حکم کو نظر انداز کر دیا کہ درخت کے قریب نہ جانا اور اس کا پھل نہ کھانا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اماں حوا نے  حضرت آدم ؑسے غلط بیانی کیاور ان کے خیال میں یہ بات جھوٹ میں شمار ہوتی ہےلیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے مختلف ہے۔ان کی رائے کے مطابق اماں حوا اس وقت اللہ کے حکم کو بھول گئیں اور انہوں نے شیطان کی بات کو سچا  سمجھا۔

اور اس کی بات حضرت آدم ؑکو بیان کر دی  ان افراد کی رائے کے مطابق  یہ جھوٹ نہیں تھا بلکہ یہ ترک اولی  تھا  اور یہ ترک اولی  تھا یعنی غلطی تھی اور حضرت آدم ؑ نے اللہ سے معافی مانگی اور اللہ نے معاف کر دیا ۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ [16-النحل:105] ترجمہ : ”جھوٹ افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے۔

اور وہی جھوٹے ہیں.“اور حدیث میں آتا ہے عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ‏‏‏‏ ”آية المنافق ثلاث : ‏‏‏‏ إذا حدث كذب وإذا وعد اخلف وإذا اؤتمن خان. [صحيح بخاري حديث 6095]
ترجمہ : ”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔

“  
بچپن سے ایک کہانی سنتے آئےہیں کہ ایک بچہ اپنی بھیڑ بکریاں چرانے کے لیے  جنگل کی طرف لے جاتا تھا اور یہ اس کا معمول تھا اور شام کو واپسی ہوتی ۔ ایک دن اس کو شرارت سوجھی اور پہاڑی پر کھڑے ہو کر چلانا شروع کر دیا  کہ شیر آگیا شیر آ گیا  ۔ گاؤں کے بہت سے لوگ   بچے کی بکریوں کو بچانے کے لیے بھاگے مگر جب وہ وہاں پہنچے  تو بچے نے ہنس کر دکھا دیا  اور ساتھ کہا کہ میں تو مذاق کر رہا تھا  تھوڑے دنوں کے  بعد پھر  اس گڈریے نے دوبارہ ایسا ہی کیاپھر لوگ  بھاگے مگر جب وہاں پہنچے تو پھر کوئی شیر نہ تھا ۔

بچے نے کہا کہ وہ تو مذاق کر رہا تھا ۔ جب تیسری بار   اس نے شور مچایا تو  کوئی بندہ  بھی آواز سن کر نہ گیا سب نے سمجھا کہ بچہ مذاق کے موڈ میں ہے ۔ مگر اس دفعہ شیر حقیقت میں آگیا ۔اس نے بہت نقصان پہنچایا ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مذاق حقیقت میں بدل جاتا ہے  اور پھر کوئی سننے والا نہیں آتا ۔
ایسا ہی کچھ اٹھائیس سال  حکومت میں رہنے والے نواز شریف کا بھی ہو رہا ہے جو کہ بانگ دغل کہتا ہے کہ میں تین بار وزیراعظم  ہوں اور  ہر بات پر اتنا کچھ کہتے ہیں کہ اب تو یقین کرنا مشکل ہے  کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ۔

شاید  شریف گروپ کا استا د انڈین میڈیا ہے بات  کو اتنی بار کرو کہ جس  پر یہ الزام لگے وہ بھی مان جائے کہ ہو سکتا ہے مجھ سے یہ کام ہو گیا ہو ۔ اور اب تو ایک قوم سے ہمارے سبھی سیاستدانوں نے اتنے جھوٹ بولے  ہیں کہفیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کیا کریں ان جھوٹوں کا اور ہماری عوام الا ماشااللہ جیسی وہ خود ہے ایسے ہی حکمران مل رہے ہیں ۔ جھوٹ کی دو اقسام ہوتی ہیں  پہلی تو  خالصتاً جھوٹ ہوتا ہے اس کا ہمیشہ  نقصان ہوتا   دوسری قسم کا جھوٹ بھی جھوٹ  ہوتا ہے  مگر اس سے فائدہ ہوتا ہے مثلاً دو دوستوں میں لڑائی ہو جاتی ہے مگر  تیسرا دوست صٌلح کر وانے کے لیے کسی جھوٹ کا سہارا لیتا ہے تو اس کو اصلاحی جھوٹ کہا جائے گا  اور یہ کسی حد تک برداشت ہو جاتا ہے ۔


کوئی بھی بزرگ اور خدا شناس کسی بھی طفل مکتب کو پہلا سبق یہی دیتا ہے کہ سچ کے علم کو تھامے رکھنا اور جھوٹ کا درخت جہاں بھی ہو اس کے سایہ تلے نہ بیٹھنا۔ سچ کی مٹھاس زبان پر رکھنا اور جھوٹ بولنے سے منہ سے بدبو آتی ہے بول کر اپنے دہن کو خراب نہ کرنا۔ سچ کے راستے پر چلنا، اس پر قائم رہنا، اسی پر یقین اور اعتبار کرنا۔ ہم یہ سبق بھول گئے ہیں۔

موجودہ زمانے میں سچ بولنا مشکل اور جھوٹ بولنا سہل اور آسان ہے۔ جس کا ضمیر زندہ ہو اس کو جھوٹ بولنے پر کوئی مجبور نہیں کر سکتا اور نہ ہی جھوٹ کی اطاعت پر اسے کوئی رضامند کر سکتا ہے۔ کامیاب ترین انسان سچ کی اطاعت کرتے ہیں اور اس راہ پر لوگوں کو چلنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ سچ کے صاف ستھرے اور پاک راستے پر چلے اور جھوٹ کے خاردار اور کھردرے راستے سے پرہیز برتے اسی میں انسان کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :