"اُمید"اورساون کے اندھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار 23 جنوری 2022
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی تلاش میں بھیجا تو اس وقت جو نصیحتیں انہوں نے فرمائیں ان میں ایک نصیحت یہ بھی تھی جسے قرآن میں نقل کیا گیا ”اے بیٹو جاوٴ اور یوسف اور ان کے بھائی کی تلاش کرو“ یعنی اس فکر و تدبیر کی جستجو کرو جس سے یوسف کا نشان ملے اور بنیامین کو رہائی ہو ”اور اللہ تعالی کی رحمت سے“ ناامید مت ہو بیشک اللہ کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں (سورہ یوسف، آیت: 87) اللہ کا فرمان ہے : وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (يوسف:87) ترجمہ:اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقینا رب کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔
(جاری ہے)
اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : الكبائرُ : الشِّركُ باللهِ ، والإْياسُ من رَوْحِ اللهِ ، و القُنوطُ من رَحمةِ اللهِ(صحيح الجامع:4603) ترجمہ:اللہ کے ساتھ شریک کرنا اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا کبیرہ گناہ ہے ۔ یعنی اللہ کی رحمت سے مایوسی صریح گمراہی ہے ، یہ راستہ گمراہ اور کافر ہی اختیار کرتا ہے ، اگر کوئی مسلم مایوسی کا شکار ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اسے توبہ کرنا لازم ہے۔ قر آ ن حکیم کا ورق ورق اور سطر سطر بندوں کے لئے راحت کا سامان ہے ، ہے کوئی جو قرآن پڑھکر اور سمجھ کر دیکھے ؟ ہے کوئی جو اپنی بیماریوں کا علاج اس کتاب میں تلاش کرے ؟ تاریخ گواہ ہے جس نے بھی قرآن کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا اس کے حصے میں کامیابی ہی کامیابی آئی ۔ آپ بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کتاب اللہ کو اپنا ساتھی بنائیں، اسے غوروفکر سے پڑھیں ، اس پر عمل کریں اور اس کی طرف قوم مسلم وغیرمسلم کو بلائیں ۔
یہ قول حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی طرف بھی منسوب ہے مگر سندا یہ اقوال ثابت نہیں ہیں۔ جب ہم مذکورہ آیت کی شان نزول تلاش کرتے ہیں تو صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی یہ روایت ملتی ہے کہ :
أنَّ نَاسًا، مِن أهْلِ الشِّرْكِ كَانُوا قدْ قَتَلُوا وأَكْثَرُوا، وزَنَوْا وأَكْثَرُوا، فأتَوْا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَقالوا: إنَّ الذي تَقُولُ وتَدْعُو إلَيْهِ لَحَسَنٌ، لو تُخْبِرُنَا أنَّ لِما عَمِلْنَا كَفَّارَةً فَنَزَلَ: {وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مع اللَّهِ إلَهًا آخَرَ، ولَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتي حَرَّمَ اللَّهُ إلَّا بالحَقِّ، ولَا يَزْنُونَ} ونَزَلَتْ {قُلْ يا عِبَادِيَ الَّذِينَ أسْرَفُوا علَى أنْفُسِهِمْ، لا تَقْنَطُوا مِن رَحْمَةِ اللَّهِ}(صحيح البخاري:4810)
ترجمہ: مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے بہت خون ناحق بہائے تھے اور بکثرت زنا کرتے رہے تھے، وہ حضرت محمد ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں وہ یقینا اچھی چیز ہے لیکن اگر آپ ہمیں اس بات سے آگاہ کر دیں کہ اب تک ہم نے جو گناہ کیے ہیں کیا وہ معافی کے قابل ہیں، تو اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: "وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی جان کو ناحق قتل بھی نہیں کرتے، جس کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔" اور یہ آیت بھی نازل ہوئی: "کہہ دیجیے! اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔"
گوکہ شان نزول میں خطاب مشرکین مکہ کو ہے مگر اس آیت کا حکم عام ہے ، اس میں مشرکین وکفار اور ہرقسم کے گنہگار شامل ہیں جنہوں نے خوب خوب گناہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کئے ہوں ۔حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے متعلق لکھا ہے کہ یہ آیت تمام نافرمانوں خواہ کافر ہوں یا دوسرے توبہ اور انابت کی طرف دعوت دینے والی ہے ،اور خبر دینے والی ہے کہ اللہ توبہ کرنے والے اور اس کی طرف رجوع کرنے والوں کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے ۔ گناہ کتنے بھی ہوں اور سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوجائیں ۔اور اس آیت کو توبہ پرمحمول نہ کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ شرک توبہ کے بغیر معاف نہیں کیا جاتا ہے۔ {تفسیر ابن کثیر}
اس آیت کو توبہ پر محمول کرنا ضرور ی ہے جیساکہ حافظ رحمہ اللہ نے کہا ہے تاکہ قرآن کی اس آیت سے ٹکراو نہ ہوجس میں کہا گیا ہے کہ اللہ سارے گناہ معاف کرسکتا ہے سوائے شرک کے ۔ اللہ کا فرمان ہے : ﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ﴾ (النساء: 48) ترجمہ: یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔.
آئیے دیکھتے ہیں ، اللہ تعالی گنہگار بندوں کو کس طرح امید دلاتا ہے ؟
• سب سے پہلے اللہ اپنے پیغمبر کو خطاب کرتا ہے کہ وہ اپنی امتی کو خبر کرے پھر یا عبادی کے ذریعہ بندوں کو شفقت ومحبت بھرے نرالے انداز میں یاد کرتا ہے ۔ تمہیں ڈرنے اور خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے ، تم نے گناہ کرلئے تو کیا ہوا؟ بندے تو میرے ہی ہو۔میں ہی تمہارا خالق ومالک ہوں ۔ اور تو کوئی نہیں جس سے تمہیں گھبرانے کی ضرورت ہے۔
• جب اللہ اپنے بندوں کو پیار بھرے لہجے میں پکار کر ان کا احترام واکرام کرتاہے پھر معصیت ونافرمانی کی کثرت یاد دلاتا ہے کہ تم نے حد سے زیادہ معصیت کرلی ، گناہوں کی حد پار کردی، نافرمانی پہ نافرمانی کرتے رہے۔
نافرمانیوں کی کثرت یاد دلانے کے بعد اب گنہگاروں کی ڈھارس بندھاتا ہے ، ناامیدی سے روکتا ہے اور صاف لفظوں میں گنہگاروں سے کہتا ہے کہ گناہوں کی کثرت ہوجانے کی باوجود بھی تمہیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا ہے ۔ اوپر آپ نے قرآن کی چند آیات بھی پڑھیں جن میں مایوسی گمراہ وکافر کی صفت قرار دی گئی ہے۔ مومن کو کسی بھی طور اور کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ ایسے موقع پر اللہ پر توکل بہت کام آتا ہے اور ایمان ویقین میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔
اب سبحانہ وتعالی تاکید ی جملے کے ساتھ وہ کلام کرتا ہے جس سے گنہگاروں کی امید بلاشبہ جاگ جاتی ہے اور رحمت الہی سے دامن بھر جاتا ہے ۔اللہ فرماتا ہے کہ تمہیں تمہارا گناہ یاد ہے ، مجھے میری رحمت ومغفرت یاد ہے ،جاؤ تمہارے سارے گناہ معاف کردئے۔ سن لو!ایک دو گناہ نہیں ، سارے گناہ بخش دئے ۔ رب تعالی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آگے تاکید کے ساتھ یہ بھی خبردیدی کہ بے شک میں ہی تو سب سے زیادہ معاف کرنے والا اور سب سے زیادہ مہربانی کرنے والا ہوں ، تم میرے علاو ہ کس کو اس قدر معاف کرنے والا پاتے ہو؟ سبحان اللہ ، اللہ واقعی بڑا معاف کرنے والا ہے ۔
اب ذرا بات کر لیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ جب دنیا کے آسرے اور امیدیں کسی انسان سے لگا لیں تو اور بات ہے مگر کسی عہدے یا سیٹ پر آپ کو کوئی سیاست کے آغاز سے ہی بٹھاتا رہا ہو تو پھر اللہ کی رضا اور انسان کا چناؤ ایک طرف انسان اسی فیڈر والے کے بارے خیال کرتا ہے ۔ میاں نواز شریف سب سے پہلے مئی 1980 میں، غلام جیلانی خان، اس وقت صوبہ پنجاب کے فوجی گورنر اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل، نئے شہری رہنماؤں کی تلاش میں تھے۔ اس نے فوری طور پر نواز شریف کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ 1981 میں، نواز شریف ، غلام جیلانی خان کی زیر قیادت پنجاب ایڈوائزری کونسل میں شامل ہوئے۔ اور 1980 کی دہائی کے دوران، نواز شریف نے جنرل محمد ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے حامی کے طور پر اثر و رسوخ حاصل کیا۔ اور فوجی قیادت کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آ گئے۔جرنل ضیاالحق کی موت پر اس کی اپنی اولاد پریشان نہ تھی جتنی نواز شریف اور اس کی فیملی تھی پھر 1985 میں ،غلام جیلانی خان نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی خواہش کے خلاف، نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا۔ فوج کی حمایت سے نواز نے 1985 کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اپنی مقبولیت کی وجہ سے انہیں "پنجاب کا شیر" کا لقب ملا۔نواز شریف نے ان سینئر فوجی جرنیلوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے جنہوں نے ان کی حکومت کی سرپرستی کی۔ انہوں نے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل رحیم الدین خان کے ساتھ اتحاد برقرار رکھا۔ نواز شریف کے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) حمید گل کے ساتھ بھی قریبی تعلقات تھے۔ اس طرح راستے فوج بناتی گئی اور نواز شریف ترقی کرتا گیا۔ اور 1988 میں جنرل ضیاء نے جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ تاہم، ضیاء نے نوازشریف کو صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر برقرار رکھا، اور اپنی موت تک نواز شریف کی حمایت جاری رکھی۔ اور پھر آئی ۔جے ۔آئی جس کو فوج کا آسرا تھا نوازشریف نے غلام مصطفی جتوئی اور بے نظیر کی مخالفت کی۔ انتخابات میں آئی جے آئی نے پنجاب میں خاطر خواہ اکثریت حاصل کی اور نواز شریف دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔یہ بھی سب فوج کے سہارے سے ملا۔1990 سے 1993 میں پہلی بار نواز شریف آرمی کے آشیر باد سے وزیراعظم بنے ۔1993 میں بے نظیر کی حکومت بنی اور پھر 1996 میں بے نظیر کو چلتا کیا ۔ 1997 میں دوبارہ فوجی آسرا لے کر وزیر اعظم بن گئے۔ نواز کی مقبولیت مئی 1998میں بھارت کے تجربات کے جواب میں ملک کے پہلے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے کے بعد عروج پر پہنچ گئی۔ جب مغربی ممالک نے غیر ملکی امداد روک دی تو نواز نے ملک کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو منجمد کر دیا اور معاشی حالات مزید خراب ہو گئے۔ ملک دو سرحدوں پر تنازعات میں الجھ گیا اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نواز کے دیرینہ تعلقات ٹوٹ گئے، نواز شریف نے جرنل جہانگیر کرامت کی جگہ جنرل پرویز مشرف کو ترقی دی اورجرنل پرویز مشرف کو ان کی سنیارٹی کی کمی کے باوجود جوائنٹ چیفس کا چیئرمین بنا دیا یہاں پر نواز شریف کے تعلقات کا توازن خراب ہو گیا۔ مسلح افواج کے ساتھ مسلسل بگڑتے تعلقات کے بعد، نواز کو مشرف نے معزول کر دیا اور ملک بھر میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔
2007 میں نواز شریف کی واپسی ہوئی اور مگر پھر اسی فلائٹ سے جدہ چلے گئے اور پھر 2007 میں فوج کی تھپکی سے واپسی ہوئی۔اور 2013 کے الیکشن میں پھر حکومت بنائی مگر عمران خان نے سیاسی حالات خراب رکھے اور نواز شریف کے آرمی کے ساتھ بھی وہ تعلقات نہ رہے کیونکہ جرنل راحیل نے فوج کو غیر سیاسی کر دیا اور پھر آج تک نواز شریف اینڈ کمپنی کا آسرا نہ بنا ۔ مگر اب تک وہ اس امید سے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ اقتدار میں آ جائے مگر فوج کا آسرا اور آشیرآباد نہیں رہا ۔ نواز شریف کی سیاست کا آغاز فوجی نے کیا اور وہ سمجھتا ہے کہ ہر کوئی سیاست میں سیلیکٹڈ ہوتا ہے مگر اب ایسی بات نہیں اور میاں صاحب کو تو وہی نظر آئے گا جیسا اُن کے ساتھ ہو تا رہا ہے اسی لیے ایلیکٹڈ کی بجائے سیلیکٹڈ کا لفظ دن رات نظروں کے سامنے گھومتا ہے
اور اب آرمی اور عدلیہ کو پوری طرح گندہ کرنے کے چکر میں ہیں کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ہمیشہ وہ فوج کے آسرے سے حکمران بنا ہے تو دوسرے بھی ایسے ہی بنے ہوں گے کیونکہ " ساون کے اندھے کو ہرا ہرا ہی سوجھتا ہے"۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
آصف رسول میتلا کے کالمز
-
وزیر ،میراثی اور بادشاہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعرات 10 فروری 2022
-
"اُمید"اورساون کے اندھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار 23 جنوری 2022
-
عاجزی ،انکساری اور اگلاامیدوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعرات 13 جنوری 2022
-
عدل و انصاف اور بندر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منگل 28 دسمبر 2021
-
جئیں تو کسی کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر 20 دسمبر 2021
-
جھوٹ اور گڈریا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھ 1 دسمبر 2021
-
میراثی اور ضدی چوھدری۔۔۔۔۔۔
بدھ 3 نومبر 2021
آصف رسول میتلا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.