عدل و انصاف اور بندر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل 28 دسمبر 2021

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

عدل کا مفہوم '' کسی چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا''، حق دار کو اس کا پورا حق دینا اور انفرادی و اجتماعی معاملات میں اعتدال کو اپنا کر افراط و تفریط سے بچنا ہے۔ ... ''عدل'' کا دوسرا نام '' انصاف'' ہے اور انصاف کا لغوی معنیٰ ''دوٹکڑے کرنا''، ''کسی چیز کا نصف''، ''فیصلہ کرنا'' ،''حق دینا'' اور ''عدل کرنا'' ہے۔خلیفہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے کسی حاکم نے اپنے شہر کی ویرانی کا شکایت نامہ بھیجا اور امیرالمؤمنین سے اس کو آباد کرنے کے لئے مال طلب کیا۔

امیر المؤمنین نے اس کو جواب میں لکھا:
’’ جب تم میرا خط پڑھو تو اپنے شہر کو عدل و انصاف کے ذریعے سے محفوظ کر دواور شہر کے راستوں سے ظلم و زیادتی دور کر دوکیونکہ ظلم و زیادتی ہی شہر کی ویرانی کا باعث ہے۔

(جاری ہے)

‘‘
    سورہ المائدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 ’’ کسی قوم (یا فرد) کی عداوت تمہیں بے انصافی پر نہ ابھارے، تم عدل کرتے رہو (کیونکہ) وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔

‘‘
اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مقصود یہ ہے کہ: زندگی کے ہر شعبے میں انصاف ہو، امیر و غریب، شاہ و گدا، اعلیٰ و ادنیٰ، آقا و غلام اور حاکم و محکوم میں کوئی فرق نہ رکھا جائے۔    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے قول اور فعل سے مساوات کی بہترین مثالیں قائم فرمائیں اور اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی کہ عدل و انصاف کا ترازو اس قدر مضبوط اور برابر ہو کہ سخت ترین نفرت اور شدید ترین محبت بھی اس ترازو کے کسی پلڑے کو جھکا نہ سکے۔

عدل کے بارے میںقرآن مجید میں ارشاد هوتا ھے إِنَّ اللّٰہَ یَاٴمَرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ بے شک خداوند عالم انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور احسان کا حکم کرتا ھے۔" ایک  اور آیت میں اللہ کریم فرماتا ہے کہ" اِعْدِلُوْا هو اٴَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ ۔ ترجمہ "تم (ہر حال میں) انصاف کرویہی پرہیز گاری سے بہت  قریب ہے اللہ کریم کے صفاتی ناموں میں  "عادل " نام ہے اور حضور  اکرم ﷺ کے ناموں میں بھی "عادل " آیا ہے اور اس کی اہمیت  کا اندازہ  ہو سکتا ہے ۔


ایک واقعہ یہ ہے کہ دو ساتھیوں میں انبیاء کرام کے متعلق کچھ اس طرح گفتگو ہو رہی تھی کہ فلاں موقع پر حضرت یونسؑ تھے اس لیے ایسا ہوا اگر ہمارے پیغمبر ہوتے تو معاملہ یوں نہ ہوتا بلکہ مختلف ہوتا۔ حضورؐ کو یہ بات پتہ چلی تو آپؐ ناراض ہوئے اور فرمایا ’’لا تفضلونی علی یونس ابن متیٰ‘‘ کہ مجھے یونس علیہ السلام پر فضیلت مت دو۔ یعنی آپؐ نے فرمایا کہ مجھے انبیاء پر اس طرح تقابل کر کے فضیلت مت دو کہ یہ بات فلاں نبی میں نہیں تھی لیکن رسول اللہؐ میں ہے۔

ایک ہے ترجیح کہ حضورؐ کا درجہ سب انبیاء سے افضل ہے لیکن ایک ہے تقابل کہ آمنے سامنے رکھ کر موازنہ کیا جائے کہ یہ بات فلاں نبی میں نہیں تھی جبکہ فلاں نبی میں تھی۔کیونکہ جس نبی کے بارے میں یہ بات کہیں گے کہ اس میں فلاں صفت نہیں تھی، اس سے اہانت کا پہلو سامنے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کسی نبیؑ کے بارے میں اہانت کا کوئی پہلو بھی ہو اس سے ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔


دوسرا واقعہ حضرت موسٰیؑ کے حوالے سے  مسلم شریف میں ہے۔ ایک زمانے میں مدینہ منورہ میں یہودی بھی رہتے تھے اور مسلمان بھی۔ ایک یہودی اور مسلمان بازار میں آپس میں جھگڑ پڑے، دونوں آپس میں کوئی سودا کر رہے تھے کہ یہودی نے یہ کہہ کر قسم اٹھائی ’’والذی فضل موسٰی علی الانبیاء‘‘ کہ اس پروردگار کی قسم جس نے حضرت موسٰیؑ کو سارے انبیاء پر فضیلت دی۔

مسلمان کو اس بات پر غصہ آیا کہ اس یہودی نے حضرت موسٰیؑ کو ہمارے پیغمبر رسول اللہؐ سے افضل کہا ہے، اس نے یہودی کو تھپڑ مار دیا ۔ مسلمان نے کہا کہ انبیاء پر فضیلت تو جناب نبی کریمؐ کو ہے۔ اس پر یہودی استغاثہ لے کر حضورؐ کی خدمت میں آیا اور کہا یا محمد! آپ کے ساتھی نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیوں تھپڑ مارا ہے؟ اس نے معاملہ بتایا تو اس پر حضورؐ اپنے ساتھی سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تقابل کی فضا قائم کر کے ہم انبیاء کا موازنہ مت کرو۔

حضورؐ نے اسے بھی عدل کا تقاضا قرار دیا۔’انصاف قوموں کی زندگی کو توانا رکھتا ہے‘‘۔ بے شک اِس حقیقت میں کوئی شُبہ نہیں لیکن اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کو دیکھیں تو معاملہ اِس سے بھی کہیں زیادہ سنگین آپکا  ارشاد ہے کہ"  کوئی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں" اس لیے کسی بھی معاشرے کے لیے عدل اور انصاف بہے ضروری ہے
کہتے ہیں ایک دن د  بلی بہت بھوکی تھیں اور ان کو  کہیں سے  ایک  روٹی کا ٹکڑا ملا مگر بھوک کی وجہ سے دونوں دعوے دار تھیں   کہ یہ میں نے حاصل کرنی ہے اور اس طرح دونوں میں خوب لڑائی شروع ہو گئی۔

وہ ابھی اس بات پر لڑ رہی تھیں کہ ایک بندر کا وہاں سے گزر ہوا ان کو  لڑتا دیکھا وجہ پوچھی تو دونوں روٹی کی مالک بن رہی تھیں ۔ بندر نے کہالڑتی کیو ں ہو میں آپ کا فیصلہ کر دیتا ہوں ۔ بندر کو سمجھدار مانا اور اس کی بات مان لی ۔بندر  نے کہا کہ ایک ترازو لاؤ میں آپ کو دو برابر حصوں میں  روٹی بانٹ کر دیتا ہوں ۔بندر نے  ترازو کے دونوں   پلڑوں میں آدھی آدھی روٹی  رکھی مگر ایک طرف کم تھی دوسری طرف  کو پورا کرنے کے لیے  تھوڑا  کاٹ کر کھا لیا ۔

اس طرح دونوں طرف کو برابر کرنے کے چکر میں پوری روٹی  بندر کھا گیا ۔ اور ساتھ کہا کہ کوشش تو کی کہ انصاف ہو جائے مگر روٹی ختم ہو گئی ۔ اور دونوں بلیوں کے پاس بندر کا منہ دیکھنے کے سوا کچھ نہ تھا ۔
یہی حال ہمارے ملک کی عدالتوں اور اداروں کا ہے جہاں ہر انصاف مانگتے ہوئے  لوگ عدالتوں میں قبر تک چلے جاتے  ہیں مگر انصاف مانگتے مانگتے  جج اور وکیل تو خوشحال ہو جاتے ہیں مگر سائل ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں۔

کسی چھوٹے سے چھوٹے ادارے کی بات کر لیں تو کہیں رشوت کام کر  جاتی ہے تو کہیں رشتہ داریاں آڑے آ جاتی  ہیں ۔ جب کوئی عہدیدار انصاف اور عدل کے  تقاضوں کو چھوڑ کر سفارش  ،رشوت اور اقربا پروری   سے کام لیتا ہے تو وہ  ادارے  اس کام کے اہل لوگوں کے ساتھ تو ظلم کرتا ہی ہے  ۔ وہ اپنے  آپ کے ساتھ بھی ظلم کرتا ہے ۔ روز قیامت اس سے پوچھا جائے گا کہ تم کو اس منصب پرفائز کیا مگر تم نے ظلم کیا اور عدل وانصاف کو بالائے طاق  رکھ کرفیصلے کیے ۔

اس کا حساب تو اللہ کے حضور دینا ہو گا ۔ سب سے بڑی فکر والی بات یہ ہے کہ اللہ تو بعدمیں دیکھیں گے آقائے دو جہاں ﷺ کا سامنا کیسے کرو گے ۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سےکام دنیا کی امامت کا
اس سے معلوم ہوا کہ عدل کے برخلاف ظلم قوموں کو تباہ برباد کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حال میں عدل و انصاف کے احکامات دیے ہیں اور قوموں کی بقا کی ضمانت بھی اسی وصف عالیہ میں مضمر ہے۔


آج ہمارے ہاں عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور ہر طرف ظلم و تعدی کا بازار گرم ہے۔ اگر ہم اپنی قوم کا استحکام اور بقا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلامی نظام عدل پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ وگرنہ ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عدل و انصاف کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ ہمارا ملک مستحکم و ترقی یافتہ ہو اور ہر طرف امن و اطمینان کی فضا قائم ہو۔ آمین یارب العالمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :