عاجزی ،انکساری اور اگلاامیدوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات 13 جنوری 2022

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

عاجزی و انکساری کیا ہے؟ علماء خود کو جو مدینے کا سگ، نبی کے در کی خاک، ان کے غلاموں کا غلام، ننگ سلف، ناکارہ، مجرم، بدکار، نکمہ، ناکام، سیہ کار وغیرہ لکھتے ہیں اور دعاؤں میں بھی اکثر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اورنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے مرشد کے ساتھ اپنا ذکر کرتے ہوئے خود کو بہت ہی ناکام، ناکارہ وغیرہ ظاہر کرتے ہیں۔

کیا یہ صحیح ہے؟ کیا ان سب کلمات سے عاجزی ظاہر ہوتی ہے؟ میں ہر وقت بولتا ہوں بکی ہوں، بکواسی ہوں، ذلیل ہوں کیا یہ سب بھی عاجزی ہوگی؟
دل سے اپنے آپ کو کمتر و حقیر سمجھنا اور قول و فعل سے ان کا اظہار کرنا تواضع و انکساری ہے جو ایک محمود صفت ہے، مذکور فی السوال الفاظ سے تواضع کا اظہار ہوتا ہے، اگر بہ الفاظ تصنع اور بناوٹ کے طور پر نہ ہو بلکہ عاجزی اور تواضع کے اظہار کے طور پر ہوں تو ان کا کہنا درست بلکہ محمود ہے، اور اللہ تعالی کے دربار میں تصنع کرنے کی بھی اجازت ہے۔

(جاری ہے)

ارشاد نبوی ہے اللہ تعالیٰ کے سامنے رووٴ اگر رونا نہ آئے تو رونے کی شکل بنالو (تصنع کرکے) دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح عاجزانہ کلمات استعمال فرمائے ہیں، قرآن کریم نے’’ عقیدہ ایمان،، کی بنیاد اس بات پررکھی کہ، عظمت ،بڑائی اور جلال صرف اور صرف اللہ کی ذات کے لیے ہے،اور یہ کہ تمام مخلوق اللہ کی غلام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’وہ اللہ پوشیدہ اور ظاہر ہر چیز کو جانتا ہے جوکہ بڑا اور بلند ہے‘‘۔

(الرعد۱۳: ۹
قرآن مجید کی واضح آیتیں تمام انسانوں سے تکبر کی نفی کرتیں ہیں،کیوں کہ یہ صفت اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ قرآن مجیدکی تعلیمات یہ ہیں کہ،ہر انسان اللہ کی بندگی کرے کیوںکہ ہر ایک اس کا غلام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ ہر وہ مخلوق ہے جو آسمانوں اور زمینوںمیں ہے رحمن کی غلام بن کر آئے گی‘‘۔ ( مریم ۱۹: ۹۳ ) یہاں تک کہ رسولِؐ اعظم اور نبی محترم بھی اللہ کے بندے ہیں۔

رب کائنات نے قرآن مجید میں فرمایا:’’اللہ وہ پاک ذات ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی۔ وہ مسجد اقصیٰ کہ جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایاتاکہ ہم انھیں اپنی نشانیاں دکھائیں۔  بلاشبہہ اللہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱)
سورۃ الفرقان میں ارشاد ہے:’’نہایت متبرک ہے وہ ہستی جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائے‘‘(فرقان۲۵:۱ )۔

اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کوبڑائی کی صفت نہیں دی بلکہ اپنی بلند ذات کوبڑائی کی صفت کے ساتھ خاص فرمایا ہے۔  اللہ نے فرمایا:’’اللہ کے لیے ان دونوں(آسمان وزمین)کی حفاظت کوئی مشکل نہیں،وہ بس ایک بزرگ وبرتر ہستی ہے‘‘ (البقرہ۲: ۲۵۵ )۔ قرآن مجید نے تواضع کی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کو ذکر   کیا ہے، اور یہ بات بیان کہ بڑائی ،بلندی اور عظمت اللہ کے لیے خاص ہے اور کسی کے لیے نہیں۔

انسان کو جو چیز تواضع سکھاتی اور تکبر سے بچاتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان اپنی پیدایش کی حقیقت کو پہچانے۔ قرآن مجیدمیں ہے :’’انسا ن غور کرے اسے کس چیزسے پیداکیاگیا،اسے اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا،جو کہ پیٹھ اور چھاتی کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘۔ (الطارق۸۶:۵-۶ )۔
پھر ارشاد ربانی ہے:’’ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا،تاکہ ہم اس کا امتحان لیں اور اس غرض ومقصد کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا‘‘ (الدھر۷۶:۲)۔

ایک اور مقام پر اللہ رب العزت کا فرمان ہے:’’ کیا انسان نے غوروفکر نہیں کیاکہ بلاشبہہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیااچانک وہ صریح جھگڑا لو بن گیا‘‘ (یٰٓس۳۶: ۷۷ )۔ جس نے غوروفکر، سوچ وبچار کی اس نے جان لیاکہ تکبر انسانی پیدایش کے متعارض ہے۔ جب انسان کے دل میں دوسروںپر تکبرکاخیال پیداہوتو وہ اپنی اس پیدایش کو یاد کرے۔
یہ اہم حقیقت ہے جو انسان کوعاجزی پرآمادہ کرتی ہے۔

کئی احادیث مبارکہ بھی عاجزی پر آمادہ کرتیں ہیں۔حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو اللہ کے لیے ایک درجہ عاجزی اختیارکرتا ہے اللہ اسے ایک درجہ بلند کرتا ہے،یہاں تک کہ اسے    اعلیٰ علیین میں جگہ دیتا ہے۔اور جو ایک درجہ تکبر کرتا ہے اللہ اسے ایک درجہ گراتاہے،یہاں تک کہ اسے سب سے نچلے درجے میں پھینک دیتا ہے‘‘۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے عاجزی و انکساری کی بلند مثال پیش کی۔ حضرت قیس بن ابی حازمؓ فرماتے ہیں،کہ ایک آدمی حضورؐ کے پاس آیا۔جب آپ کھڑے ہوئے تو وہ کانپنے لگا۔آپ ؐنے فرمایا:’’پُرسکون رہو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ ایسی قریشی عورت کا بیٹاہوںجو خشک روٹی کے ٹکڑے کھایاکرتی تھی‘‘۔حضرت ابن ابی اوفیؓ فرماتے ہیں: ’’ حضورر صلی اللہ علیہ وسلم بیوہ اور مسکین کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ جاتے اور ان کی ضرورت پوری کرتے‘‘۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں،میں نے کہا: اے اللہ کے رسول میری جان آپ پر قربان ہو! آپ ٹیک لگا کر کھائیں،یہ کھانے کاآسان طریقہ ہے ،توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: عائشہؓ! میں ٹیک لگا کر نہیں کھائوں گا بلکہ اس طرح کھائوں گاجس طرح ایک غلام کھاتا ہے،اور غلام کی طرح بیٹھوں گا‘‘۔(بغوی شرح السنۃ)
آپ ؐنے تکبرسے منع کیا۔حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ آپؐنے فرمایا:’’ تکبر سے بچو،بندہ ہمیشہ تکبرکرتا ہے، یہاں تک کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ اس بندے کا نام متکبرین میں  لکھ دو‘‘ (کنز العمال)۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ لوگوںسے بے رخی اختیار نہ کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔بے شک اللہ ہر متکبر، مغرور انسان کو پسند نہیںکرتا، اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرواپنی آواز پست کرو،بے شک آوازوںمیں سب سے بُری آواز گدھوںکی ہے‘‘۔
کہتے ہیں کسی ملک کا بادشاہ تھا اور اس کی ایک ہی بیٹی تھی اور وہ شادی کی عمر سے بڑی ہو رہی تھی اور اس کے ماں باپ اس کی شادی نہ ہونے وجہ سے بہت پریشان تھے   اور شہزادی بضد تھی کہ  وہ دلہا اپنی مرضی کا پسند کرے گی ۔

آخر کار تنگ آ کر بادشاہ نے اعلان کروا دیا اور سب ملکوں کے شہزادوں کو دعوت دی کہ جو بھی میری بیٹی کو متاثر  کرے گا اور اس کو وہ پسند کرے گی اس سے شادی کر دی جائے گی۔شہزادی کے محل کے  باہر خیمے لگ گئےشہزادوں نے ملاقاتیں شروع کر دیں کئی ماہ گزر گئے مگر کوئی شہزادہ بھی    اس شہزادی کو متاسر نہ کر سکا ۔ سب لوگ وہاں سے جانے لگے کہ اچانک ایک سادہ سے کپڑوں میں ملبوس لڑکا آیا ۔

نہ کوئی پوشاک ،نہ سلطنت ،نہ بادشاہت کاوارث ۔ دربار میں آ کر شہزادی سے ملنے کا اسرار کرنے لگا کہ میں شہزادی کو منا لوں گا ۔ دربانوں نے خوب مذاق اڑایا اور اس سے پہلے کہ دھکے دے کر دربار سے نکالتے بادشاہ آ گیا ۔ لڑکے کی بات سنی تو سوچا کہ جہاں اتنے دن سے لوگ ملاقات کر رہے ہیں یہ بھی مل لے ۔ اپنا   رانجھا راضی کر لے ۔آدھا گھنٹہ گذرا ہو گا کہ شہزادی نے اس  سادا سے لباس والے لڑکے کا ہاتھ تھاما اور اپنے کمرے سے باہر آئی اور اعلان کیا کہ میں اس سے شادی کروں گی ۔

جہاں سب لوگ انگشت بےدندان  تھے ۔ بادشاہ  تو نہ خوش تھا اور نہ ہی پریشان بلکہ حیران تھا ۔ شہزادی کو ایک طرف بلایا اور کہا کہ اتنے شہزادوں  کو مسترد کر کے تم نے اس کے ساتھ شادی کا فیصلہ کیوں کیا۔ کوئی خاص وجہ بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہزادی نے کہا   کہ اباجی کیا کہوں جب یہ میرے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے  اتنے ترلے ، منتیں ، واسطے ڈالے یہاں تک کہ میر پاؤں پکڑ لیے اور کہا کہ اللہ اور رسول ﷺ کا واسطہ ہے شادی کرلو ۔

اب اتنا کچھ سن کر رہا نہیں گیا میں نے ہاں کر دی ۔
آجکل ایسا ہی حال کچھ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کو ملنے کی خبریں چل رہی ہیں  ۔ کیمپ لگ گئے  ہیں اور ہر کوئی 2023 ءکی حکومت بنانے کے لیے تیاری کر رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ کو منانے کی تیاری اور طریقہ کار بنایا جارہا ہے اور ساتھ سفارشوں کی بھرمار اور وفا کرنے کے طریقے اور سٹینڈرڈ بنائے جا رہے ہیں ۔ ہما کا پرندہ کس کے سر بیٹھتا ہے ۔ کیونکہ نہ پاکستان کی عوام کو ہوش آئے گی اور نہ تھیک فیصلہ کر پائیں گے ۔
کاش کہ ہم اپنے اعمال ٹھیک کر لیں اور اللہ کریم کے حضور عاجزی اور انکساری اپنا لیں تو اللہ بھی ہم پر اپنا خاص کرم کر دے ۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :