میراثی اور ضدی چوھدری۔۔۔۔۔۔

بدھ 3 نومبر 2021

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

کہتے ہیں ایک گاؤں میں میراثی حالات سے تنگ آگیا  اور اس نے گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تا کہ کسی شہر میں جا کر اپنی نئی پہچان کے ساتھ مزدوری شروع کرے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالے۔اس کے پاس گاؤں میں صرف ایک وراثتی گھر تھا سوچا اس کو بیچ کر شہر میں جا کر کوئی کاروبار کرلے یا گھر خرید لے گا ۔ مگر ان حالات میں گھر  خرید کوئی نہیں رہا تھا ۔

تقریبا" سارے  گاؤں کے علاوہ آس پاس  کے گاؤں کے لوگوں نے بھی  نقب لگا  رکھی  تھی کہ  اس کو  کسی طرح مفت میں گھر مل جائے۔آخر گاؤں کے چوھدری کے پاس گیا اس نے  اونے پونے پیسے دے کر گھر خرید لیا  مگر اس گھر کی حالت رہنے والی تو بہت دور کی تھی وہاں داخل ہوتے ہوئے دل خراب ہو رہا تھا مگر اب گلے پڑ گیا  اور گاؤں کی عزت کا معاملہ بھی تھا  تا کہ باہر سے کوئی برا آدمی اس کو خرید کر ہمارے گاؤں کا سکون برباد نہ کر دے۔

(جاری ہے)

اس کا کچھ تو کرنا تھا  تو اسکی  ٹوٹ پھوٹ کی مرمت اوررنگ و روغن کا کام شروع ہوگیا ۔اس گھر کو ٹھیک کرنے کے لیے جو بھی کوشش کر سکتا تھا کیا گاؤں کے لوگ طعنے بھی دیتے مذاق بھی اڑاتے مگر وہ لگا رہا ۔ جتنا اور جیسا وہ کر سکتا تھا کیا ۔اور اس کی نیت میں کھوٹ نہ تھی۔ کچھ لوگ اس کو ضدی اور کچھ لوگ اس کو پاگل کہتے تھے۔
  حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کادار ومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہے۔

جس کی ہجرت دنیا کمانے یاکسی عورت سے نکاح کی خاطر ہو، اس کی ہجرت (نیت کے مطابق) اسی کے لئے ہوگی جس کے لئے ہجرت کی ہے۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب بدء الوحی ۔ باب بدء الوحی)جس طرح بعض آیات کا شانِ نزول ہوتا ہے، اسی طرح بعض اوقات احادیث کا بھی شان ورود (سبب) ہوتا ہے۔ یعنی جس موقع پر آپﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔ مشہور عالم دین علامہ عینی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک عورت ام قیس کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا تو ام قیس نے یہ شرط رکھی کہ اگر تم ہجرت کرلو تو تم سے نکاح کرلوں گی۔

چنانچہ انہوں نے نکاح کی خاطر ہجرت کی۔ انہیں مہاجر ام قیس سے موسوم کیا جاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کو اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے اپنے خطبہ کے دوران مذکورہ بالا حدیث بیان فرمائی۔
اس حدیث کے تین اجزاء ہیں:پہلا جزء (اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ): ’’اِنَّمَا ‘‘ عربی زبان میں حصر کے لئے آتا ہے۔ ’’اعمال‘‘ عمل کی جمع ہے۔ ’’نیات‘‘ نیت کی جمع ہے۔

نیت کے معنی دل کے ارادے کے ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے عبادت کے ارادے کو نیت کہتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس جملے کے معنی یہ ہیں: اعمال کادار ومدار نیت پر ہے، یعنی کسی بھی شخص کی جانب سے کئے گئے اعمال صالحہ پر بدلہ صرف اسی صورت میں ملے گا ،جب کہ نیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ جس طرح جسم میں روح کی حیثیت ہے، اسی طرح اعمال میں نیت کا درجہ ہے۔


جب عمران خان نے گھر (پاکستان) اندر سے نہیں دیکھا تھا تو اس نے کہا کہ وہ اس کو ٹھیک  کر لےگا مگر جب گاؤں کے چوھدری کی طرح پلے پڑ گیا تو عقل ٹھکانے لگ گئی ۔ مگر اس نے اس ملک کو خوبصورت اور رہنے کے قابل بنانے کی ٹھان لی اور بہت سے دیہاڑی دار اور پرانی حکومتوں کے رنگ باز ڈرامے کرنے لگے تا کہ اپنے پرانے آقاؤںکو خوش رکھ سکیں  مگر وہ ڈٹا رہا ۔

اور ساتھ کہتا رہا اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے کا اس کو یہ بھی پتا ہے کہ جو مزدور اس نے مجبورن لگائے ہیں ان میں بدنیت اور کام چور بھی ہیں مگر وہ لگا رہا ۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے  کہ اس نے نیا کیا کر دیا ہے۔
معیشت کبھی اوپر کبھی  نیچے  ہوتی رہی ڈیم  پہلے بھی بنے  ترقیاتی کام آج بھی ہو رہے ہیں پہلے بھی ہوتے تھے۔ کرپشن پہلے بھی ہوتی تھی کوئی قسم نہیں کھا سکتا کہ اب نہیں ہے ہاں کم ہوئی ہے ۔

امن و امان کی صورت حال  صرف پاکستان ہی نہیں پوری دینا میں خراب رہی ہے ۔ کسان کی فصل پہلے بھی ہوتی تھی۔ اب بھی ہوئی ہے قرضے پہلے بھی ملتے تھے اور اب بھی ملتے ہیں ۔ کچھ واپس ہوتے کچھ لوگ کھا جاتے وہ اب بھی ہو رہا ہے ۔ احتساب پہلے بھی ہوتا تھا اب بھی ہو رہا ہے مگر الگ کیا ہے مختلف کیا کر دیا اس نے ۔
جب سب ایک جیسا ہے تو الگ کیا ہے۔جو ساری نظر دوڑائی تو دیکھا بس ضدی ہے  اڑیل ہے جو نتائج سے لاپرواہ ہے  جو ٹھیک لگےکر دیتا ہے اگر کامیاب ہو جائے تو سب مانتے ہیں اور اگر  ناکام ہو جائے تو خود تسلیم کرتا ہے ۔

اس کی چمڑی میں ڈر نہیں ہےاگر کوئی ٹھیک کام کرنے کو کہتا ہے تو اس وقت تک لاگو نہیں کرتا جب تک تسلی نہ ہو جائے اگر کوئی رتی برابر بھی شک ہو تو  اَڑجاتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات ہے ہار نہیں مانتا ۔ وہ اس سسٹم میں ایلین کی طرح ہے سسٹم سب کو قبول کر رہا ہے مگر اس کو قبول نہیں کر رہا ۔مگر پھر بھی ہر روز  اس سسٹم میں نقب لگاتا ہے اور پہلے سے ذیادہ مضبوط نظر آتا ہے ۔

اس کے اپنے ساتھی مافیا میں شامل ہیں  اس نے ان پر بھی ہاتھ ڈالا ہے ۔ان کو بھی نہیں بخشا۔ اگر دیکھا جائے اس سے پہلے والی حکومتوں کے پاس دو تہائی مینیڈیٹ ہونے کے باوجود وہ کسی کو ناراض نا کرتے تھے ۔ مگر ڈٹا رہا حالانکہ لولی لنگھڑی حکومت ہے پھر بھی کوئی پروا نہیں کی ۔ سب تجزیہ نگار کئی بار پیشن گوئی کرچکے ہیں کہ حکومت آج گئی یا کل مگر وہ ڈتا ہوا ہے ۔

وہ کہتا ہے کہ جب تک ہوں جو بھی ہاتھ لگا چھوڑوں گا نہیں اور وہ عمل کرتا ہے ۔
نواز شریف اور زرداری ایک دوسرے کو کرپٹ اور جو الزامات کے لیے الفاظ بنے ہیں وہ ایک دوسرے پر لگاتے رہےاللہ کی پناہ ۔مگر کسی کو جیل میں نہ ڈال سکے اگر پکڑ دھکڑ کی بھی تو برائے نام تھا ۔ مگر اس نے نہ صرف پکڑا بلکہ ایسا   رگڑا کہ گیارہ پارٹیاںمل کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ۔

اگر ہم کہیں کہ تاریخ کا سب سے بڑا الائنس اس کے خلاف بنا  ۔ بھٹو سے لے کر چار بار حکومت کرنے والے پی پی پی اور ایک بار وزیر اعلی اور تین بار وزیراعظم  بننے والا نواز شریف بھی اس الائنس کا حصہ ہیں مگر وہ مائی کا لال اللہ کا نام لے کر کھڑا ہےاین ۔آر۔ او   مانگ رہے ہیں میڈیا ایسے ایسا  ایسا پروپیگنڈا کر رہے ہیں ۔ اپنے ساتھیوں نے ڈرایا کہ ان سے نہ پنگا لو مگر وہ نہ مانا  ڈٹ گیا۔


ہمارے ملک کے لوگ اور خاص کر حکمران مغرب سے بہت متاثر اور ہمیشہ زیر اثر اہے ہیں آج بھی  ان کی غلامی کرنے پر تیارہیں اور یورپ کو بھی آرڈر کرنے اور منوانے کی عادت ہو گئی تھی ان کو پتہ تھا  کہ چند ڈالر یا   یورو  کے بدلے جو مرضی کروالو  یہ لالچی اور غلامانہ سوچ کے حکمران  ہیں ۔ مگر ایک دن  یک دم   ایبسلوٹلی ناٹ کی آواز آتی ہے تو پوری دنیا  حیران اور آوازے آنے لگتے ہیں یہ تو گیا مگر وہ ڈٹا رہا اور ساتھ یاد کروایا  کہ آج سے امریکہ یہ لڑائی کبھی نہیں جیت سکتا اور وہ ثابت ہوا بیس سال کے بعد اس کا ویژن ٹھیک  ثابت ہوا اور جو امریکہ کے ساتھ ہوا  وہ سب نے دیکھا ۔

اسرائیل  سے دوستی کے لیے خلیجی مملک اور سعودی حکومت سے کیا کیا نہیں کروایا گیا  مگر دو تین ماہ نے ثابت کیا کہ یہ ضدی انسان ٹھیک ہے ۔ آج تک کسی پاکستانی حکمران نے  نے نوجوانوں کو  نہیں کہتے سنا کہ جھوٹ نہ بولو محنت کرو ۔ اچھا کرو ۔ سچ بولو ۔ کسی سے مرعوب نہ ہوں  کسی کو چوہدری نہ سمجھو احساس کمتری سے بچو اور محنت اور لگن سے کامیاب ہو اور اپنی پہچان بناؤ۔

غیرت مند بنو  کبھی کسی سیاستدان یا حکمران نے نہیں کہا مگر اس نے کہا حالانکہ حمزہ شہباز  سکول میں جا کر کہتا ہے " بچو کرپشن ہوتی ہے رشوت بھی لی جاتی ہے اور یہ رک نہیں سکتا " مگر اس عمران خان نے روکا اور انسانیت یاد کروائی ۔ زرداری اور نوازشریف کبھی بھی بھارت کے خلاف نہیں بولے اور کشمیر کا  کیس  ہمیشہ  سرد خانے میں ڈالے رکھا۔مگر اس نے یو۔

این۔او میں اتنا ذلیل کیا اور کشمیر کا کیس اور پاکستان میں دہشت  گردی  کو بھارت کے گلے میں ایسا لٹکا دیا ہے کہ سب منظر آپ کے سامنے ہے آر ۔ایس ۔ایس  کی ساری پلاننگ کھول کر رکھ دیاپوری دنیا میں  وزیرخارجہ جس ملک میں بھی جاتا ہے ڈوژیر دیتا جاتا ہے اور بھارت کو بے نقاب کرتا جاتا ہے ۔ سعودی حکمران آئے  تو انہوں نے  کہا   مانگو کیا چاہیے تو ان سے وہ لوگ مانگے جو سعودی عرب کی جیلوں   میں قید تھے اور آزاد کروائے  اس نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا اور اگر پرانے حکمران ہوتے تو ذاتی مفاد مانگتے مگر یہ الگ ہی سوچ کا مالک ہے  اور غریبوں کی بات کرتا ہے۔


 پوری دنیا پورے جوش اور جذبے کے ساتھ  اسلام کے خلاف مہم چلاتی ہے اور دینا کے کسی ملک یا کونے میں کوئی بھی قتل ہوتا ہے اگر وہ غیر مسلم کرے تو اس کو ذہنی مریض قرار دیا جاتا ہے اور اگر مسلم کرے تو دہشت گرد اور سب سے افسوس والی بات یہ ہے کہ مسلمان ملک تو ایک طرف  او۔آئی۔سی۔ کی تنظیم  دفاع نہیں کرتی تو ایک ضدی انسان جس کو کچھ علماۂ اکرام  اور سیاسی  ذاتی مفادات کا ٹولہ یہودی ایجنٹ  قرار دیتا ہے ۔

پھر وہی اٹھتا ہے اور  یو۔این۔او ۔ میں کھڑے ہو کر بانگ دغل اسلام کا مقدمہ لڑتا ہے آپ ﷺکی ناموس کی طرف ہر نگاہ کو لگام ڈالتا ہے ۔ یہ وہی  پہلا ضدی انسان ہے ۔ جو آپﷺ کے خاکے بنانے والوں کو آنکھیں دکھاتا ہے ۔ ہر مسلمان لیڈر کو اپنی اپنی پڑی ہے مگر وہ اکیلا کھڑا ہو جاتا ہے ۔اور اس نے اسلام کا پرچم بلند کرنے کا نعرہ لگایا  
آج تک کسی سیاستدان  یا حکمران میں اتنی وژن نہ تھا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا سوچتا  بہت سے لوگ پوچھتے ہیں  ہیں کیا بن گئی ریاست مدینہ مگر یہ سوال کرتے شرم نہیں آتی کہ آپ نے کیا کردار ادا کیا ۔

پاکستان بنے یا نہ نبے یہ بعد کی  بات ہے مگر اس نے سوچا تو ہے ۔ آج سے پہلے کسی نے سوچا بھی نہ تھا  مگر اس نے سوچا ضرور۔
چوھدری جیتے یا ہارے وہ بعد کی بات ہے مگر اس کی نیت میں کھوٹ نہیں  ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :