سیاسی تنظیموں کی تخلیق کے مقاصد

بدھ 29 اپریل 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

پچھلے دو تین مضامین میں ہم نے ریاستوں کی مجموعی ساخت کے اندر سیاسی جماعتوں کے متعین کردار کا ناقدانہ جائزہ لیا تو کئی دوستوں نے سماج میں جماعتوں کی فکری رہنمائی کا مقام،نظریاتی اہمیت اورفیصلہ سازی میں عوامی تلویث کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے انہیں جمہوری نظام کیلئے مفید ثابت کرنے کے علاوہ پارٹی پالیٹیکس کو سیاسی ارتقاء اورسماجی فلاح کا ناگزیر محرک تسلیم کرانے پہ اصرار کیا،اسلئے اس موضوع پہ مزید خامہ فرسائی کی ضرورت پیش آئی۔

سیاسی جماعتوں کی ابتداء چونکہ بنیادی حقوق کے حصول اور سیاسی آزادیوں کی بحالی کے مطالبات سے ہوئی،اس لئے لوگوں نے آسانی کے ساتھ انہیں عوامی مفادات کا نگہبان مان لیا حالانکہ ہر سیاسی جماعت کا منشورحصول اقتدار سے مشروط رہا یعنی پہلے مینڈیٹ دیکر عوام انہیں اقتدار کے ایوان تک پہنچائیں،بعد میں وہ انکے حقوق کی بازیابی اورسیاسی آزادیوں کی بحالی ممکن بنائیں گی۔

(جاری ہے)

امر واقعہ یہ ہے کہ جماعتیں بجائے خود ایسا وجود ہیں جو انفرادی آراء اور شخصی آزادیوں کو پارٹی ہیئرارکی میں سمو کے اپنے حامیوں پہ نفسیاتی کمانڈ قائم کرنے کے بعد بلآخر وسیع تر ریاستی مفادات کی تکمیل میں بروکار آتی ہیں۔پولیٹیکل پارٹیز کے ورکرزکو بظاہرتحفظ کا احساس ملتا ہے مگر عملاً وہ جماعتی نظم و ضبط کے اسیر بن کے رہ جاتے ہیں،جُوں جُوں جماعت کے حامیوں اورکارکنوں کی جماعتی انسیت بڑھتی ہے تُوں تُوں قبائلیت کی طرح ان کی پارٹی عصبیت گہری ہوتی جاتی ہے،یوں بتدریج جماعتی سیاست سے وابستہ لوگ ایسی کیفیت ذہنی میں ڈوب جاتے ہیں جسمیں پلٹ کے اپنے رجحانات کا ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

آج سے کم و بیش چھ ہزار سال قبل معلوم تاریخ کے پہلے شہنشاہ حمورابی نے وسیع و عریض علاقوں میں پھیلے سماج کو قبائلی سرداروں کے ذریعے ریگولیٹ کیا،اس کے بعد آئینی بادسشاہت کے دورمیں بھی بادشاہوں کو انسانی معاشروں پہ اپنی گرفت مضبوط کرنے کی خاطر علاقائی وڈیروں اور با اثر علماء کی ضرورت پڑتی رہی،وقت نے کروٹ بدلی اور انسانی سماج جب انبوہی جمہوریت کی طرف بڑھا تو ذہنی طور پہ مربوط گروہ اہمیت اختیار کرنے لگے،جس کی موہوم سی شکل ہمیں سقراط کے یونان میں نظر آتی ہے۔

بلاشبہ ہر پھلتے پھولتے تمدن پہ ایک زمانہ ایسا ضرور آتا ہے جب پرانے رجحانات نئے حالات پہ قابو پانے کیلئے ناکافی ثابت ہوتے ہیں،چنانچہ ایک ہزار سال تک مغربی دنیا نے جمہوری جدلیات کی مختلف صورتوں کو آزمانے کے بعد بلآخر اس جمہوری نظام کے تصور کو اخذ کرلیا جس میں سیاسی جماعتوں اور نظریاتی گروہوں کے علاوہ پیشہ ور تنظیمیں ریاستی وجودکو مربوط رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ جب انتظامی گورنروں،روایتی قبائلی سرداروں اور بااثر مذہبی رہنماوں کی گرفت سماج پہ ڈھلی پڑ ی تو لوگوں کو کمانڈکرنے کی سائنس بدل گئی،اسی ضرورت نے ریاست کو مقبول سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کی افزائش کی راہ دیکھائی۔یہ ایک مشکل مگر نفیس آرٹ تھا جسے پایا تکمیل تک پہنچانے کیلئے سماجی نفسیات کا گہرا مطالعہ کرنے والے ماہرین کی خدمات لی گئیں۔

اب ذرا غور کیجئے کہ جس وقت انگریز نے ہندوستان کی عنان سمبھالی تو اسے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ ریاست کی مرکزی اتھارٹی کمزور تھی،اسلئے وہ مرکز گریزگورنروں،سرکش راجوں اور مغرورقبائلی سرداروں کی قوت قہرہ کے ذریعے ریاست کو منظم رکھنے کی قوت کھو بیٹھی،ایک فرسودہ بادشاہیت کے بوجھ کے علاوہ بے لگام حاکموں کی ستم ظریفیوں نے رعایا کو پامال کر کے رکھا دیا تھا،ظلم ناروا کی اس لہر نے لوگوں سے قومی وحدت کا ادراک،شخصی خود داری کا شعور اور وطن سے وفاداری کا جذبہ چھین لیا۔

یعنی سربراہ مملکت،گورنروں،راجاوں اور نوابوں پہ محمول ریاستی ڈھانچہ منتشر اورلاکھوں انسانوں پہ مشتمل قومی وجود مضمحل ہو چکا تھا۔اس منہدم ہوتی سلطنت کے ملبہ تلے دبے مجبور لوگ کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں تھے جو انہیں امن اور نظم و ضبط عطا کرے۔انگریزوں میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی چنانچہ چند سالوں کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید سٹیٹ کرافٹ کی مدد سے بنگال میں اپنی اتھارٹی قائم کرکے سیاسی نظم و ضبط استوارکر لیا بلکہ کمپنی نے چند دھائیوں کے اندر پورے برصغیر میں ایسا مربوط ریاستی ڈھانچہ کھڑا کر لیا جسمیں بے پناہ کشش موجود تھی۔

برطانیہ اعظمی نے تھکے ہوئے مہاراجوں کی یبوست اور فرسودہ نوابوں کو ریاست کا ٹول بنانے کی بجائے عوامی حمایت کی حامل نئی لیڈرشپ پیداکر نے کیلئے پارٹی پالیٹیکس کا سسٹم متعارف کرایا جسے عوام میں تیزی سے پذیرائی ملی،کانگریس اور مسلم لیگ کو پنپنے کیلئے ساز گار ماحول دیا گیا،البتہ مطلوب سیاسی جماعتوں کی آبیاری کے دوران غیر ضروری طور پہ ابھرنے والی مذہبی تحریکوں کی حوصلہ شکنی کی گئی،ریاستی مقتدرہ نے احرار اور خاکساروں کی مذہبی تحریکوں کو بے رحمی سے کچل ڈالا،ہر سطح کی انتظامی اتھارٹی کو انہیں دھتکارنے کی ہدایت ملی،انگریز کی جیلوں میں احراریوں کے ساتھ بدترین سختیاں روا رکھی جاتیں،حسرت موہانی جیسا عظیم انسان کئی سال تک صرف ایک نیکر میں جیل کی چکی پیستا رہا۔

دوسری جانب کانگریسی رہنماوں کو جیلوں میں بی کلاس ملتی،انہیں پڑھنے کیلئے اخبارات، پان،سگریٹ اور فنجان مہیا کئے جاتے،مسٹر گاندھی اپنی فرمائش پہ جب چاہتے جیل چلے جاتے،جس وقت وہ باہر آناچاہتے، وائسرا کو خط لکھ کے ملاقات کیلئے وقت مانگ لیتے۔تاہم سیاسی تنظیم سازی اور نئی لیڈرشپ کی تخلیق کا عمل گداز ہونے کے ساتھ مہنگا بھی تھا اسلئے اسے مہارت کے ساتھ انسانی نفسیات سے ہم آہنگ رکھنے کے علاوہ انڈیا کے بڑے سرمایا داروں کو انہیں مالی معاونت دینے کا اشارہ بھی دیا گیا،کانگریس کے لئے مسٹر ٹاٹا اور مسلم لیگ کیلئے اصفہانی،سہگل،حبیب،عبداللہ ہاروں اور دیگر بزنس ٹیکون سرمایا فراہم کرتے رہے،اگر آزادی کی تحریکیں ریاست کی دشمن ہوتی تو انہیں کوئی سرمایا دار یوں اعلانیہ مدد فراہم نہ کر سکتا۔

ذرا غور کیجئے ریاست کی اجتماعی وِل نے جب چند افراد کو نمایاں کرنے کا تہیہ کر لیا،تو پہلے راہ میں انتظامی رکاوٹ کھڑی کر کے انکی جدوجہد کی رفتار تیز کی گئی،پھر گرفتاریاں کر کے عوامی ہمدردی کا رخ انکی کی طرف موڑا گیا،گرفتاری کی خبروں کو اخبارات میں نمایاں کوریج ملتی رہی،اس عہد کے نظریاتی قلم کار اپنی شعلہ فگار تحریروں میں ان کے سیاسی کردار کو عوامی امنگووں کی ترجمانی قرار دیکرانہیں قومی ھیرو بنانے میں لاشعوری طور پہ مددگار بنے،چنانچہ جب پیچیدہ قانونی عمل کے ذریعے کانگریسی لیڈروں کو جیل سے رہائی ملتی تو جذباتی عوام کا جم غفیر استقبال کے لئے امنڈ آتا،مقبولیت کے نشہ سے سرشار ہو کے وہ بھی خود کو حقیقی ھیرو سمجھنے لگتے تھے،عوامی مقبولیت،سیاسی اثر و رسوخ اور سماجی مقام مراتب جہاں عوام پہ ان کاسیاسی اثر بڑھانے کا وسیلہ بنتے وہاں انہی مقام و مراتب کے کھو جانے کا خوف انہیں ریاستی اتھارٹی کے ساتھ تعاون پہ مجبور رکھتا۔

اگر آپ گاندھی،نہرو اور ابوالکلام آزاد کی خود نوشت پڑھیں تو ان کی سیاسی جدوجہد رومانوی داستانوں سے کم نہیں تھی لیکن عملاً وہ آزادی کے نقیب نہیں بلکہ ریاستی مقتدرہ کے سہولت کار اور انگریزی نظام کے جانشین تھے۔اسی مقبول لیڈر شپ کی وساطت سے انگریز نے پہلے کروڑوں لوگوں کو مینیج کیا، انہی کے ذریعے ہندوستان کو اپنا سیاسی کلچر ودیت کرنے کے بعد اس شان کے ساتھ یہاں سے رخصت ہواکہ ان کا سیاسی اثر و رسوخ آج بھی قائم ہے اور آج بھی اِسی تسلسل میں ہماری سیاسی جماعتیں ریاستی مقتدرہ کی سہولت کار ہیں،چنانچہ ان سیاسی جماعتوں سے کسی انقلابی تبدیلیوں کی امید رکھنا عبث ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :