حالات بدلتے کیوں نہیں؟

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

اگر ساٹھ اور ستّرکی دہائیوں کی جمہوری تحریکوں میں اٹھائے جانے والے مطالبات اوربنگالیوں کی نمائندگی کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کی ریکارڈ شدہ ویڈیو تقریریں آج بھی سنیں تو ان میں اِنہی مطالبات کی گونج سنائی دیتی ہے جن کی تکرار آج بھی ہمیں اپوزیشن کے جلسے جلوسوں پہ چھائی دیکھائی دیتی ہے بلکہ حالات و واقعات سے قطع نظرکسی حد تک شیخ مجیب الرحمن اورمیاں نوازشریف کے لب و لہجہ میں بھی گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔

اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بدقسمت قوم سنہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں سیاست کی جن محوری گردشوں میں پھنسی تھی تاحال اس سے نکل نہیں پائی اور مستقبل قریب میں بھی ان نحس گردشوں سے نجات کی کوئی سبیل دیکھائی نہیں دیتی۔حیرت ہے ان تہتّر سالوں میں بھی ہماری سیاسی قیادت اور ریاستی مقتدرہ تقسیم اختیارات کے کسی ایسے قابل عمل فارمولہ پہ متفق نہیں سکی جو ہمیں زندگی کے مفید ادراک سے ملا دیتا۔

(جاری ہے)

اس کی ایک وجہ تو ہمارے سماج کے اندر جمہوری تمدن کے قیام کی آرزو کا فقدان تھا،دوسرے تزویری اہمیت کی حامل اس نوزائیدہ مملکت پہ عالمی طاقتوں کے تسلط کا وہ وبال تھا،جس نے اس ابھرتی ہوئی ریاست میں آئینی نظام کی افزائش اورجمہوری عمل کے ارتقاء کو روک کے ہمیں جمود پرور قوتوں کے سپرد کر دیا،شاید مغربی طاقتیں ہندوستان کو کیمونسٹ انقلاب کے اثرات سے بچانے کی خاطر برصغیر کی مغربی سرحدات پہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست کا قیام یقینی بنانا چاہتی تھیں جس کی عنان ایسی استبدادی قوتوں کے ہاتھ میں ہو جسے آسانی سے مینیج کیاجا سکے،بلاشبہ،وہ اپنی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے میں پوری طرح کامیاب رہے۔


 ابتدائی ایام میں وسیع عوامی حمایت سے محروم چند گنے چنے سیاستدانوں کے علاوہ سیاسی آزادیوں اور یکساں معاشی حقوق کی بات کرنے والے معدود چند نظریاتی کارکن ابھرنے سے پہلے ہی تاریک راہوں میں مارے گئے،ان کی مقدس تمنائیں بھی انہی کے ساتھ ہی رزق خاک بن گئیں،جس طرح پچاس اور ساٹھ کی دہائی کا سیاسی طور پہ بے حس سماج ان سرفروشوں کی خونچکاں جدوجہد کی مقصدیت سے ناواقف تھا اسی طرح آج کی ہوشیار نسلیں بھی ان کی قربانیوں کا ادراک نہیں رکھتیں۔


سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خا ک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں،
بدقسمتی سے سماج کو متحرک کرنے والی فعال سیاسی جماعتیں یعنی تقسیم ہند کی کھل کے مخالفت کرنے والی جمعیت علماء ہند،عطا اللہ شاہ بخاری کی احرار،علامہ عنایت اللہ مشرقی کی خاکسار اور چھوٹی سوشلسٹ جماعتوں کی لیڈر شپ بٹوارے کے بعد حوصلہ ہار چکی تھی اور نئی مملکت میں ان کے لئے کام کرنے کی گنجائش کافی محدود تھی،البتہ تخلیق پاکستان کے بعد کیمونزم کے خلاف نظریاتی مزاحمت کی شناخت رکھے والی جماعت اسلامی کو قومی سیاست میں اتنی گنجائش ضرور مل گئی کہ وہ تیزی سے فروغ پاتی سوشلسٹ سوچ کی راہ روک سکے،بلاشبہ جماعت اسلامی کی طاقتور نظریاتی لہروں نے اعلی تعلیمی اداروں کے علاوہ مزدوروں اور کسانوں سے جڑے طبقات میں بھی کیمونزم کو پاوں جمانے کی مہلت نہ دی لیکن ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت اس منظم جماعت کو بھی اقتدار کے مراکز کے قریب پھٹکنے کی اجازت نہ دی گئی، تاہم دنیا بھر میں کیمونزم کی ناکامی کے ساتھ ہی تنوّع سے عاری یہ مذہبی جماعت بھی اپنی نظریاتی کشش کھو بیٹھی۔

جماعت،سخت گیر مذہبی نظریات اور اپنی غیر لچکدار تنظیمی ساخت کی بدولت رائے عامہ کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
تحریک پاکستان کی صف اول کی قیادت کے منظر عام سے ہٹنے کے بعد بتدریج سیاسی عمل زوال پذیر ہوا تو آزای کی تحریک کے دروان ابھرنے والی صف دوم کی سیاسی لیڈرشپ بھی رفتہ رفتہ متروک ہوتی گئی۔بانی پاکستان محمد علی جناح کی وفات کے بعد پہلے وزیراعظم نوابزدہ لیاقت علی خان کی ناگہانی شہادت نے مسلم لیگ کا شیرازہ بکیھر دیا تھا۔

لہذا، مملکت میں آئینی ڈھانچہ کی تشکیل اور قانونی نظام کی استواری جیسے لازمی تقاضوں کو پس پشت ڈال کے سیاستدان پچھلے دروازے سے حصول اقتدار کی کشمکش میں الجھے تو طاقت کے بلبوتے امور مملکت نمٹانے کی بدعت رواج پاتی گئی۔مسلم لیگ کی باقیات میں شامل ابن الوقت نوابوں،وڈیروں اور جاگیرداروں پہ مشتمل لیڈر شپ کو عوام کے حق حکمرانی کے مطالبات سوٹ نہیں کرتے تھے،چنانچہ انہوں نے خود کو اقتدار سے وابستہ رکھنے کی خاطر طاقت کے مراکز کے ساتھ سیاسی سودا بازیوں کا بازار گرم کر لیا،جوڑ توڑ کے ذریعے ہر روز پارٹیاں ٹوٹنے بننے لگیں،دھڑے بندیوں کی ناگوار تشکیل نے سیاسی عمل کو ہمہ وقت وقف اضطراب رکھا،رات کی تاریکیوں میں حکومتیں تبدیل ہونے کے چلن نے قومی لیڈرشپ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا کیونکہ اخبارات کے ذریعے اس نامطلوب کھیل کا سارا وبال سیاستدانوں کے سر ڈالہ جاتا رہا،نظر نہ آنے والی محلاتی سازشیں کے ذریعے کی جانے والی جوڑ توڑ کو سیاست کا نام دیکر سیاسی کلچر اور قیادت کو خوب بدنام کیا گیا،حتی کے پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم جوہرلعل نہرو کو یہ پھبتی کسنے کا موقعہ ملا کہ”ہم اتنی جلدی دھوتی نہیں بدلتے جتنے جلد پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں“۔

اس کار خیر میں اس وقت کے پرنٹ میڈیا کا کردار نہایت منفی تھا، ملک کے دو بڑے اخبارات اور کرایہ کے لکھارویوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی خاطر سیاسی عمل کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی،طواف الملوکی کے اسی عہد میں ریاستی مقتدرہ نے سیاسی نظام پہ اپنی گرفت مضبوط بنا لی۔جس کے بعد ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں جمہوری حقوق کے مطالبات اٹھانے والوں کو سماج میں اجنبی اور غیر ملکی ایجنٹ بنا کے ٹھکانے لگانے کا چلن عام ہو گیا۔


اجتماعی دانش اور مجموعی قومی صلاحیتوں کو بروکار لانے کی بجائے طاقت کے ذریعے قومی امور نمٹانے کی یہی روایت ملک کے دولخت ہونے تک برقرار رہی۔بنگال کی علیحدگی کی تحریکوں کے مقابل ذولفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت کو فروغ دینے سے ان مرض کا مدوا تو نہ ہوسکا جس نے لیاقت علی خان کی شہادت کے ساتھ ہی مملکت کواپنی گرفت میں لے لیا تھا تاہم پیپلزپارٹی کی مقبولیت اور ذولفقارعلی بھٹو کی قیادت نے باقی ماندہ قوم کو شکست کے گہرے صدمات سے باہر نکالنے میں ضرور مدد دی۔

مسٹر بھٹو نے اپنی فعالیت سے نہ صرف شکست خوردہ قوم میں نئی روح پھونک دی بلکہ ایٹمی طاقت کے حصول کی بنیاد رکھ کے اجڑے ہوئے دفاعی اداروں کو نئے ولولے بھی عطا کئے۔افسوس کہ ذولفقارعلی بھٹو بھی اپنی افتاد طبع کے وبال اور عالمی طاقتوں کی پیکار کا شکار بن کے انتہائی دردناک انجام سے دوچار ہوئے۔زیڈ اے بھٹو کے بعد ضیاء الحق کی آمریت نے یہاں ایک نئے سیاسی تمدن کی بنیاد رکھی،جس میں علاقائی و لسانی تعصبات اور مذہبی انتہا پسندی کو ایسا فروغ ملا جس میں جمہوریت کا متلاشی معاشرہ اپنی رہی سہی بنیادی آزادیاں گنوا بیٹھا،نفرتوں کی خون آشام لہروں نے قومی تقسیم بڑھا دی۔

چنانچہ آج ہماری سوچ متحارب مذہبی گروہوں،مرکز گریز نسلی تنظیموں اورکارزار سیاست میں سرگرم بپھری ہوئی سیاسی جماعتوں میں منقسم ہے۔اس لئے سرمایادرانہ نظام کے زوال اور عالمی نظام میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ماحول میں ہماری اجتماعی قومی دانش کوئی نیا شعوری موڑ مڑنے کی صلاحیت سے عاری ہے،قومی زندگی کے اس نازک مرحلہ پہ سیاسی لیڈر شپ اور فوجی قیادت اگر سر جوڑ کے بیٹھ گئی تو ہم مستقبل کے دبستانوں میں اپنے لئے مناسب گنجائش پا لیں گے بصورت دیگر قومی سلامتی، تہذیب و ثقافت،مذہبی اقدار اور معاشی مفادات بے یقینی کی تاریکیوں میں ڈوب جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :