کشمیریوں کا مستقبل

بدھ 2 دسمبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

ہمارے روایتی طرز عمل کے باعث گلگت بلتستان کے انتخابات سے بدنظمی کی جو لہریں پھوٹ رہی ہیں،اس سے اور تو کچھ نہیں ہو گا مگر یہی جدلیات باہمی اعتماد کے رشتوں کو گہری زک پہنچانے کا سبب ضرور بن جائے گی،حکمراں کلاس کی مداخلت نے جی بی کے انتخابی نتائج کو بلاوجہ متنازعہ بناکے قومی وحدت کے احساس کو زخمی کر دیا،اکثر یوں دیکھائی دیتا ہے کہ حکومتی مداخلت سے حاصل شدہ فوائد وہ اثرات اس کے بغیر بھی حاصل کئے جا سکتے تھے،اگر وہاں پی ٹی آئی گورنمنٹ بن بھی گئی تو کیا فرق پڑے گا؟اس سے پہلے پی پی پی اور نواز لیگ بھی تو جی بی میں حکومتیں بنانے کے تجربات کر چکی ہیں،دس بارہ سال کی حکمرانی نے اگر دونوں بڑی جماعتوں کو کوئی نفع نہیں پہنچایا تو پی ٹی آئی بھی ان انگوروں سے رس کشید نہیں کر سکے گی۔

(جاری ہے)

ماضی گواہ ہے کہ سیاست میں من مانے نتائج حاصل کرنے کا شوق مملکت کے لئے کبھی مفید ثابت نہیں ہوا لیکن کیا کریں آج بھی ہمارے فکر و خیال کی سوئی سنہ ساٹھ کی اس دہائی میں اٹکی ہوئی ہے جب یہ سماج عوامی حاکمیت کے تصور سے بلکل ناواقف تھا، غلامی کی زنجیریں اگرچہ کھل چکی تھیں لیکن ان کے دل و دماغ میں ابھی آزادی سے ہم آغوش ہونے کا ادراک بیدار نہیں ہوا تھا،اس لئے مملکت میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت طاقت کے مراکز میں برپا ہونے والی کشمکش سے لاتعلق تھی،یہی وہ کیفیت تھی جس نے طاقتوروں کو اقتدار کے مراکز پہ اپنی گرفت مضبوط بنانے کا حوصلہ دیا۔

البتہ بنگال کی مڈل کلاس سوسائٹی میں سیاسی شعور کی سطح قدرے بلند ہونے کی وجہ سے وہاں سیاسی بے انصافیوں کے خلاف ردعمل تیزی سے ابھرنے لگا،جسے مینیج کرنے کی بجائے طاقت سے دبانے کی کوشش میں ہم آدھی مملکت گنوا بیٹھے۔پچھلے ستّر سالوں میں یہاں رونما ہونے والے واقعات میں عالمی طاقتوں کا کردار بنیادی محرک تھا،بھارت جیسے بڑے ملک کو کیمونسٹ نظریات کی تسلط سے بچانے کے لئے مغربی طاقتیں پاکستان کو بفر سٹیٹ کے طور پہ استعمال کرنے کی خاطر اسے جمہور کی حاکمیت سے دور رکھنا چاہتی تھیں، اس لئے عالمی برادری یہاں بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے مطالبات کی حمایت نہ کر سکی کیونکہ انہیں یہاں ایسی استبدادی حکومت اور کوارڈینیٹنگ آرمی درکار تھی جسے باسہولت سمبھالہ جا سکے چنانچہ جمہوریت کے چیمپئن برطانیہ اور امریکہ سمیت پورے یوروپ نے خود کو یہاں کی فوجی آمریتوں کے ساتھ ہم آہنگ بنا لیا تھا۔

جس طرح سرمایادرانہ قوتوں نے کئی مسلم مملکتوں کے وساطت سے یہاں مذہبی تحریکوں کی آبیاری میں سرمایا کاری کی اسی طرح روس سمیت کیمونسٹ بلاک نے بھی اس خطہ میں علاقائی قوم پرستی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کے لئے وسائل مہیاکر کے پہلے بنگال میں اور بعدازاں سندھ،بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں مرکز گریز گروہوں کو توانائی فراہم کر کے اس خطہ کو عالمی مبارزت کا میدان کارزار بنا لیا۔

دوسری جانب پوری عالمی برادری نے انگلی پکڑ کے بھارت کو نہ صرف شاہراہ جمہوریت پہ چلنا سیکھایا بلکہ بھارتی مقتدرہ کی حوصلہ شکنی کرکے وہاں عوام کے حق حاکمیت کے دفاع کو اپنا فرض بنا لیا۔البتہ سنہ اکہتر کے سانحہ بنگال نے مغربی پاکستان میں بسنے والی لوگوں کے اجتماعی وجودکو جھنجھوڑا تو انہیں آزادی کی قدرو قیمت کا کچھ احساس ملا ،پھر خوش قسمتی سے اس وقت باقی ماندہ ملک میں غیر مشروط جمہوری آزادیوں اور بھرپوری سیاسی سرگرمیوں کی بحالی نے سانحہ بنگال کے اذینتناک زخموں کو مندمل کرنے میں اہم کردار ادا کیا،خاصکر1973 کے آئین نے قومی وجود کو متشکل کر کے ملک کی ساری سیاسی قوتوں کو اجتماعی قومی شعور سے منسلک کر دیا،سیاسی زندگی کا یہی پُرشور عہد مجموعی طور پہ ہمارے شعوری سفر کا مسند حوالہ اور قومی زندگی کا یادگار مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔

لیکن 1977 میں ایک بار پھر رجعت پسند سوچوں نے ہمیں ماضی کی جانب پلٹنے کی راہ دیکھائی اور قوم عملاً منزل کی طرف منہ کر کے الٹے قدموں پیچھے کی طرف ہٹنے لگی،کامل دس سالوں تک جاری رہنے والا رجعت قہقہری کا یہ فرسودہ سفر قومی وجود کو اتنی قباحتوں سے مملو کر گیا جن سے گلو خلاصی کے لئے ہماری دو نسلیں قربان ہو گئیں،اس لئے 1988 کے الیکشن تک ہماری قومی زندگی ایک بار پھر 1960 کی دہائی کی سطح تک پہنچ چکی تھی،لہذا ہماری نوخیز سیاسی قیادت نے اگلے گیارہ سالوں تک سنہ انیس سو ساٹھ کے طرز سیاست کی تکرار جاری رکھ کے عوام کو جمہوریت سے مایوس کر کے ایک بار پھر 12 اکتوبر1999 کے مارشل لاء کی راہ ہموار بنائی۔

تاہم آمریت کے بحران بڑھنے پہ لوگوں نے جمہوریت کی تمام کوتاہیاں بھلا دیں اور یوں رفتہ رفتہ آمریت کے خاتمہ کی خواہش کرنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی۔مگر دوہزار اٹھ میں جب جنرل پرویز مشرف کی آمریت سے قوم کو نجات ملی تو اس وقت تک ہم بے نظیربھٹو جیسی پختہ کار سیاسی لیڈر سمیت بہت سی بنیادی،سماجی اور سیاسی آزادیاں کھو چکے تھے۔سنہ دوہزار اٹھ میں تشدد سے لبریز جس معاشرے کو سیاستدانوں کے حوالے کیا گیا اسے زندگی کے فطری دھارے کی طرف واپس لانا اگرچہ دشوار تھا لیکن پھر بھی محدود سیاسی عمل نے اِن پیچیدہ سماجی وظائف کو ہموار بنانے میں کافی حد تک کامیابی پا لی،امید ہے کہ اگر موجودہ سیاسی بندوبست میں کوئی بڑی رخنہ اندوزی نہ ہوئی تو بہت سی مشکلات اور ہماری ناکافی اہلیت کے باوجود اجتماعی زندگی کا دھارا بہتری کی جانب گامژن رہے گا۔

سماج کے ذہنی اور سیاسی ارتقاء کو اگر قدرتی طریقوں سے نشو و نما پانے کا موقعہ ملتا رہے تو فطرت خود بخود اجتماعی حیات کو درست خطوط پہ استوار کر لیتی ہے،بلاشبہ اِس نظم و ضبط کا بیشتر حصہ،جو انسانیت پہ حاوی ہے، قانون کا رہین منت نہیں بلکہ ان کا سرچشمہ زندگی کے اجتماعی اصول اور انسان کی فطرت ہے لیکن افسوس کہ انسان نے اپنے کبریائی روّیوں سے ہمیشہ اس قدرتی بندوبست میں رخنہ اندوزی کر کے خود کو نقصان پہنچانے کی کاوش بھی جاری رکھی،یہی وجہ ہے جو ستّر سالوں کے تلخ و شیریں تجربات کے دوران بہت کچھ کھو دینے کے باوجود ہماری اشرافیہ اس دنیا میں کارفرما اُن اٹل حقائق سے کوئی سبق حاصل نہیں کر سکی۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلہ کشمیر کو نمٹانے میں ہماری قومی قیادت سے چند غلطیاں ضرور ہوئیں لیکن کوتاہیوں کی پردہ پوشی کی بجائے اگر ان غلطیوں کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کر کے آگے بڑھیں تو اب بھی زندگی کے وسیع امکانات ہمارا استقبال کریں گے،بدقسمتی سے ہماری مملکت میں کشمیر ایشو پہ کھلی بحث کے دروازے ہمیشہ بند رکھے گئے اس لئے ہمارا قومی بیانیہ ارتقاء پا کر وقت اور حالات کے ساتھ ہم قدم نہیں سکا۔

سنہ 1948 میں عالمی اور علاقائی حالات ایسے نہیں تھے جیسی تبدیل شدہ دنیا آج ہمارے سامنے ہے،اس لئے کشمیر کے تنازعہ کو ماضی کے اصولی موقف میں مقید رکھا نہیں جا سکتا،جنوبی ایشیا میں سیاست کا پورا تناظر اور قومی سلامتی کی ترجیحات بدل گئی ہیں،اس لئے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ ہم اسٹیٹس کوکے فلسفہ کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھ پائیں گے،چنانچہ اب ہمیں گلگت بلتستان سمیت آزاد کشمیرکو پاکستان میں ضم کر کے وادی میں بسنے والے کشمیریوں کی بھارت سے آزادی کی تحریکوں کو مدد دینا پڑے گی۔

بنظر غائر اگر دیکھا جائے تو متذکرہ بالا علاقوں کو عملاً ہم اپنی مملکت کا حصہ بنا بھی چکے ہیں۔کشمیر سے تعلق رکنے والے جنرل عزیز پاک فوج میں کور کمانڈر کے منصب پہ فائز رہے، میرا اندازہ ہے کہ فی الوقت بھی ہماری افواج میں کشمیری اوریجن کے تین چار جنرلز،دس بارہ بارہ بریگیڈیر،تیس چالیس کرنل اور ساٹھ ستر میجرز وکیپٹن کے علاوہ سینکڑوں سپاہی شامل ہوں گے،اسی طرح گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں جوان پاک فوج میں شامل ہو کے وطن کی حفاظت کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں،وفاقی اور صوبائی محکموں میں کشمیریوں کی قابل ذکر تعداد کارفرما ہو گی۔

ہماری وفاقی حکومت قومی وسائل سے مناسب حصہ کشمیر اور گلگت بلتستان حکومتوں کو فراہم کر رہی ہے،جس کا بڑا حصہ روایتی بدعنوانی میں ضائع ہو جاتا ہے، عام کشمیری تک اس مالی مدد کے پورے ثمرات نہیں پہنچتے۔پھر ان علاقوں کی سیاسی قیادت اور انتظامی افسران احتساب کے کسی ادارے کو جوابدہ نہیں،تہتر سالوں پہ محیط سیاسی جمود کی وجہ سے وہاں قومی ترقی کا عمل منجمد اور عام لوگوں کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں رائیگاں جا رہی ہیں،چنانچہ اس خطہ کے عوام کی تہذیبی و ثقافتی نشو و نما اور سیاسی و معاشی فلاح کے لئے لازم ہے کہ انہیں قومی دھارے میں شامل کر کے اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا پورا موقعہ دیا جائے،ہمارے خیال میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے سے کشمیر کاز کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ پہنچے گا،لاکھوں کشمیری جب پاکستانی کی حیثیت سے وادی کے بھائیوں کو جدوجہد کی حمایت کریں گے تو وہاں کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ زیادہ پرجوش ہو جائے گا،اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں روز اول ہی سے آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کر لینا چاہیے تھا اگر ستر سال قبل یہ خطہ جذب کر لیا جاتا تو آج وہاں کی اجتماعی زندگی سرحد کے اس پار رہنے والے کشمیروں کے لئے زیادہ پرکشش ہوتی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :