
کشمیریوں کا مستقبل
بدھ 2 دسمبر 2020

اسلم اعوان
(جاری ہے)
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلہ کشمیر کو نمٹانے میں ہماری قومی قیادت سے چند غلطیاں ضرور ہوئیں لیکن کوتاہیوں کی پردہ پوشی کی بجائے اگر ان غلطیوں کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کر کے آگے بڑھیں تو اب بھی زندگی کے وسیع امکانات ہمارا استقبال کریں گے،بدقسمتی سے ہماری مملکت میں کشمیر ایشو پہ کھلی بحث کے دروازے ہمیشہ بند رکھے گئے اس لئے ہمارا قومی بیانیہ ارتقاء پا کر وقت اور حالات کے ساتھ ہم قدم نہیں سکا۔سنہ 1948 میں عالمی اور علاقائی حالات ایسے نہیں تھے جیسی تبدیل شدہ دنیا آج ہمارے سامنے ہے،اس لئے کشمیر کے تنازعہ کو ماضی کے اصولی موقف میں مقید رکھا نہیں جا سکتا،جنوبی ایشیا میں سیاست کا پورا تناظر اور قومی سلامتی کی ترجیحات بدل گئی ہیں،اس لئے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ ہم اسٹیٹس کوکے فلسفہ کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھ پائیں گے،چنانچہ اب ہمیں گلگت بلتستان سمیت آزاد کشمیرکو پاکستان میں ضم کر کے وادی میں بسنے والے کشمیریوں کی بھارت سے آزادی کی تحریکوں کو مدد دینا پڑے گی۔بنظر غائر اگر دیکھا جائے تو متذکرہ بالا علاقوں کو عملاً ہم اپنی مملکت کا حصہ بنا بھی چکے ہیں۔کشمیر سے تعلق رکنے والے جنرل عزیز پاک فوج میں کور کمانڈر کے منصب پہ فائز رہے، میرا اندازہ ہے کہ فی الوقت بھی ہماری افواج میں کشمیری اوریجن کے تین چار جنرلز،دس بارہ بارہ بریگیڈیر،تیس چالیس کرنل اور ساٹھ ستر میجرز وکیپٹن کے علاوہ سینکڑوں سپاہی شامل ہوں گے،اسی طرح گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں جوان پاک فوج میں شامل ہو کے وطن کی حفاظت کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں،وفاقی اور صوبائی محکموں میں کشمیریوں کی قابل ذکر تعداد کارفرما ہو گی۔ہماری وفاقی حکومت قومی وسائل سے مناسب حصہ کشمیر اور گلگت بلتستان حکومتوں کو فراہم کر رہی ہے،جس کا بڑا حصہ روایتی بدعنوانی میں ضائع ہو جاتا ہے، عام کشمیری تک اس مالی مدد کے پورے ثمرات نہیں پہنچتے۔پھر ان علاقوں کی سیاسی قیادت اور انتظامی افسران احتساب کے کسی ادارے کو جوابدہ نہیں،تہتر سالوں پہ محیط سیاسی جمود کی وجہ سے وہاں قومی ترقی کا عمل منجمد اور عام لوگوں کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں رائیگاں جا رہی ہیں،چنانچہ اس خطہ کے عوام کی تہذیبی و ثقافتی نشو و نما اور سیاسی و معاشی فلاح کے لئے لازم ہے کہ انہیں قومی دھارے میں شامل کر کے اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا پورا موقعہ دیا جائے،ہمارے خیال میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے سے کشمیر کاز کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ پہنچے گا،لاکھوں کشمیری جب پاکستانی کی حیثیت سے وادی کے بھائیوں کو جدوجہد کی حمایت کریں گے تو وہاں کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ زیادہ پرجوش ہو جائے گا،اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں روز اول ہی سے آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کر لینا چاہیے تھا اگر ستر سال قبل یہ خطہ جذب کر لیا جاتا تو آج وہاں کی اجتماعی زندگی سرحد کے اس پار رہنے والے کشمیروں کے لئے زیادہ پرکشش ہوتی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اسلم اعوان کے کالمز
-
کشمیریوں کا مستقبل
بدھ 2 دسمبر 2020
-
شناخت کا بحران کیسے پیدا ہوا؟
بدھ 25 نومبر 2020
-
قوم رسولﷺ ہاشمی ؟
جمعرات 19 نومبر 2020
-
امریکی پیشقدمی اور پسپائی
اتوار 15 نومبر 2020
-
تنازعات گہرے ہو رہے ہیں!
منگل 10 نومبر 2020
-
یورپ جنگ کے دہانے پر
جمعرات 5 نومبر 2020
-
حالات بدلتے کیوں نہیں؟
ہفتہ 31 اکتوبر 2020
-
پیپلزپارٹی جم گئی؟
ہفتہ 24 اکتوبر 2020
اسلم اعوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.