تنازعات گہرے ہو رہے ہیں!

منگل 10 نومبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

ہمارا ہوشیار میڈیا اس وقت خورد بینیں لگا کر بلاول بھٹو زراداری کے حال ہی میں بی بی سی کو دیئے گئے اس انٹرویو سے پی ڈی ایم کے اتحاد میں دراڑیں تلاش کر رہا ہے،جس میں انہوں نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی جانب سے گوجرانوالہ کے جلسہ میں عسکری قیادت پہ الیکشن میں دھاندلی اور عدالتی فیصلوں پہ اثرانداز ہونے کے براہ راست الزامات لگا کے قومی سیاست کے پورے تناظر کو بدل دیا تھا، مرکزی دھارے کے تمام بڑے ٹی وی چینلز نے مسٹر بلاول بھٹو زرداری کے اسی انٹرویو سے بریکنگ نیوز نکال کے اس پہ ماہرین سے تجزیہ لینے سے بھی گریز نہ کیا،ظاہر ہے کچھ نہ کچھ کہنے کی غرض سے ان تجزیہ کاروں کو ایسی دور کی کوڑی لانا پڑی،جس میں مقتدرہ کے حوالہ سے پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے موقف میں فرق کو پی ڈی ایم کے اتحاد کی متوقع تحلیل کا سبب بتایا گیا،حالانکہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح قطعیت کے ساتھ بات کرنے کے برعکس اگر،مگر اور چونکہ،چنانچہ میں ہر سوال کا جواب دے کر اپنی پوزیشن تو تبدیل نہیں کی لیکن ابہام سے لبریز ان کی اس گفتگو سے ہم زیادہ سے زیادہ یہی تاثر لے سکتے ہیں کہ وہ خود اور اسکی جماعت تو براہ راست فوجی لیڈرشپ کو ہدف تنقید بنانے کی قائل نہیں لیکن اگر تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف عسکری کمانڈ پہ کوئی الزام عائد کرتے ہیں تو اس سے بھی انہیں کوئی خاص مسلہ نہیں ہے۔

(جاری ہے)

بلاشبہ نوازشریف کے موقف کی کھل کی حمایت کرنے والے مولانا فضل الرحمن کے علاوہ وہ چھوٹی جماعتیں بھی اس کی مخالفت نہیں کرسکتیں جو اس بیانیہ کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتیں۔پی ڈی ایم میں شامل گیارہ جماعتوں کو اس امر کا ادراک ہو گا کہ میاں نوازشریف اور اس کا بیانیہ ہی اس تحریک کی اصل قوت محرکہ ہے اور خود اپوزیش میں شامل سیاسی پارٹیوں کی اپنی بقاء بھی اب اسی بیانیہ کی افزائش کے ساتھ معلق رہے گی۔

جس طرح نواز لیگ نے طاقت کے مراکز سے براہ راست ٹکرانے میں اپنی سیاسی بقاء کا راز پا لیا،اسی طرح پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی سلامتی بھی بامقصد مزاحمت کی حرکیات میں پوشیدہ ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں اپنی تنظیمی استعداد،نظریاتی بقاء کے تقاضوں اور سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات میں اپنی گنجائش اور مستقبل کے امکانات کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہی ہیں،خاص کر انتخابی دنگل میں ان کے مابین صحت مند مقابلہ کا میدان ہمہ وقت سلگتا نظر آتا ہے لیکن اس الائنس میں شامل تمام جماعتیں دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی سمیت مملکت کی خارجہ پالیسی اور تقسیم اختیارات کی آئینی فارمولہ پہ عمل درآمد جیسے چند بنیادی مطالبات پہ متفق ہیں۔

دنیا بھر کی جمہوری روایات اور خود ہماری اپنی سیاسی تاریخ میں سیاسی قوتوں نے ہمیشہ بنیادی انسانی حقوق،جمہوری آزادیوں اور آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے ملکر جدوجہد کرنے کی متنوع روایات چھوڑی ہیں۔اگر ہم پیچھے پلٹ کے دیکھیں تو ماضی میں بننے والے تمام سیاسی اتحاد اسی طرح مختلف الخیال جماعتوں کے کسی ایک یا دو اصولی ایشوز پہ متفق ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے،جس کی سب سے نمایاں مثال پیپلزپارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی وہ تحریک تھی جس میں بائیں بازو کی مزدور موومنٹ،تحریک استقلال اور نشنل عوامی پارٹی(نیپ )جیسی سیکولر جماعتوں نے بلاجھجھک،جماعت اسلامی اور جے یو آئی جیسی سکہ بند مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر ذولفقار علی بھٹو حکومت کو گرانے کا عہد و پیماں باندھ لیا تھا۔

اس کے بعد ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف برپا ہونے والی ایم آر ڈی کی تحریک میں پیپلزپارٹی کے ساتھ سابقہ پی این اے کی وہ ساری جماعتیں مل بیٹھیں جنہوں نے پانچ چھ سال قبل زیڈ اے بھٹو گورنمنٹ کا تختہ الٹ کے ضیاء الحق آمریت کی راہ ہموار بنائی تھی، ازاں بعد نواز شریف حکومت کو گرانے کے لئے بنائی گئی اے آر ڈی کی موومنٹ سمیت ہر دو الائنسیز میں متضاد مفادات کی حامل مذہبی و سیاسی جماعتیں ون پوائنٹ ایجنڈا پہ اکھٹی ہوتی رہیں۔

تاہم سوائے مشرقی بنگال کی عوامی لیگ کے، ماضی میں اٹھنے والی کسی سیاسی تحریک کا ہدف سیاسی و انتخابی نظام میں اصلاحات اورتقسیم اختیارات کے آئینی فارمولہ پہ عملدرآمد یقینی بنانے کا ایشو شامل نہیں تھا بلکہ ماضی میں بننے والے تمام اتحاد فوجی یا پھر سیاسی حکومتوں کو ہٹانے تک محدود تھے جو حصول مقصد کے ساتھ ہی یہاں کی ملتبس سیاسی فضا میں ازخود تحلیل ہوتے گئے،دانش کبھی بھی الفاظ کے ذریعے آگے منتقل نہیں کی جا سکتی،یہ صرف مثال اور تجربات کے وسیلے دوسروں تک پہنچائی جا سکتی ہے،لاریب، فطرت نے اس دنیا میں عبرت کا سامان صرف آنکھوں والوں کے لئے مختص کر رکھا ہے۔

حیرت انگیز طور پہ متضاد نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کی تمام انٹی گورنمنٹ تحریکوں میں کسی نہ کسی کو عارضی ریلیف ملنے کے سوا سیاسی قوتوں کو کبھی کوئی دیرپا اجتماعی مفاد نہیں ملا،البتہ اسی جدلیات کے اضافی عوامل نے انہیں سیاسی رواداری اور جمہوریت کی بنیادی اقدار پہ متفق رہنے کا ہنر ضرور سیکھا دیا جس کی وجہ سے ماضی میں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی جماعتیں بھی آج سیاست کی ساری تلخیاں فراموش کر کے مشترکہ اہداف کے حصول کی خاطر امتناع کی حامی قوتوں کے خلاف صف آراء ہونے میں حجاب محسوس نہیں کرتیں۔

تاہم ماضی کی حکومت مخالف تحریکوں اور موجود سیاسی جدو جہد میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اب یہ تحریک محض حکومت گرانے پہ اکتفا نہیں کر رہی بلکہ اس کا ہدف آئینی فارمولہ کے تحت اس کھوئی ہوئی سیاسی طاقت کا دوبارہ حصول ہے جس کے تحت اختیارات اور قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے ملک میں سیاسی استحکام لانے کا مقصد حاصل کیاجا سکتا ہے۔بلاشبہ،عالمی سیاست کے حیران کن تغیرات اور خطہ میں وقوع پذیرہونے والی تزویری تبدیلیوں کی بدولت یہ ایک ایسا مقبول بیانیہ بن چکا ہے،جسے سوشل میڈیا کی ٹیکنالوجی نے زیادہ انکلوسیو اور پر کشش بنا دیا ہے،اس لئے پاکستان پیپلزپارٹی سمیت کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت خود کو اس پرزور سیاسی لہر سے الگ نہیں رکھ پائے گی کیونکہ یہاں ، موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں! والی صورت حال ہے ۔

البتہ طاقت کے پیچیدہ نظام میں توازن لانے کی جدوجہد کی راہیں اتنی آسان بھی نہیں جس کی دو ٹوک الفاظ میں پیشن گوئی کی جا سکے بلکہ اس کے ہمہ گیر پھیلاو میں ابھی کئی گہری کھائیاں اور اندھے موڑ پوشیدہ پڑیں ہیں جو اس کاروان جمہوریت کو نادیدہ خطرات سے دوچار کر سکتے ہیں،جُوں جُوں یہ تحریک آگے بڑھتی جائے گی اس کی چھپی ہوئی جہتیں اور وہ مہیب عوامل سر اٹھاتے چلے آئیں گے جو اس معاشرے میں پائے جانے والی قومی تفریق،مذہبی منافرت اور نسلی عصبیتوں کا استحصال کر سکتے ہیں۔

علی ہذالقیاس،جس طرح سنہ انیس سو ستّر کے انتخابات کے بطن سے بنگال میں مُکتی باہنی جیسی مسلح تحریک نمودار ہوئی،اس طرح ہمارے سیاسی ماحول میں بھی اب ویسی ہی فعال قوتوں کے ابھرنے کے امکانات ہویدہ ہو رہے ہیں،جمعیت علماء اسلام کی ڈنڈا بردار انصار الاسلام فورس کے بعد پی ٹی آئی کی ٹائیگرفورس اور اب نوازلیگ کی شیرجوان فورس کسی بھی وقت مسلح تصادم کو کار آمد انسانی مواد مہیاکر سکتی ہیں،سابقہ قبائلی پٹی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے علاوہ بلوچوں کی مزاحمتی جدوجہد بھی ریڈ لائن کراس کر سکتی ہے۔

یہ سوئے اتفاق ہو گا کہ جس طرح عوامی لیگ نے اقتدار و اختیارات منتخب سویلین قیادت کو سونپ کے واپس بیرکوں میں جانے کے مطالبات کی گونج میں علیحدگی کی مزاحمتی تحریک اٹھا لی تھی،بالکل اسی طرح نوازشریف کی”ووٹ کو عزت دو“کی تحریک کے ناگوار تصادم میں ڈھلنے کا خطرہ موجود ہے، زندگی کے اجتماعی مقاصد کے لئے اتنا کافی ہوتا ہے کہ ہم ان مشاہدات کو حقیقی سمجھیں جن کے متعلق یکساں واقعات اور مختلف لوگ ایک جیسی شہادت دے رہے ہوں۔

لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہماری فوجی قیادت نے جس طرح پہلے،امریکہ اور اب انڈیا کے ساتھ جنگ سے اجتناب کر کے اپنی دفاعی قوت کو بچایا،اسی طرح داخلی تنازعات میں بھی وہ سیاسی قوتوں کے ساتھ حتمی تصادم سے بچنے کی خاطر کوئی نہ کوئی راہ عمل ضرورنکال لے گی۔جنرل پرویز مشرف نے اپنی بہترین حکمت عملی سے امریکہ کے ساتھ براہ راست تصادم کو ٹال کے جو موقعہ حاصل کیا تھا اسی نے افغانستان میں امریکی فوج کے غرور کو خاک میں ملا دیا اور اب جنرل قمرجاوید باجوہ نے ابھینندن کی واپسی کے ذریعے انڈیا کے ساتھ جس بے مقصد جنگ کو ٹال کے اپنی فوجی قوت کو بچانے کا جو فیصلہ کیا وہ بھی قومی سلامتی کے لئے نیک فال ثابت ہو گا،بلاشبہ ایک اچھا جرنیل سب سے پہلے اپنی فوج کو بچاتا ہے اور یہی دفاعی جنگ کا بنیادی اصول ہے۔

ذولفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کہ فوجی جرنیل جنگ اور سیاستدان انتخابی میدان میں اترنے سے گھبراتے ہیں،کیونکہ جس طرح جنگ فوج کی بنیادی ڈھانچہ کو تباہ کر دیتی ہے اسی طرح الیکشن بھی سیاسی جماعتوں سمیت مملکت کی چولیں ہلا کے رکھ دیتے ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی واحد سپر پاورکے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے انتخابی اکھاڑے میں اترنے سے ہچکچاتے رہے اور اب اسی انتخابی عمل کی پیچیدگیوں نے امریکہ جیسی مہیب سپر پاور کو کبھی نہ تھمنے والی خانہ جنگی کی دہلیز پہ لا کھڑا کیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :