قوم رسولﷺ ہاشمی ؟

جمعرات 19 نومبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

گلگت بلستان الیکشن مہم کے دوران دو بڑی اپوزیشن جماعتوں نے پہلی بار وہاں جس نوع کا جارحانہ سیاسی بیانیہ متعارف کرایا،اس نے کنج عافیت میں پڑے اِس خوبصورت خطہ کو بھی ہماری روایتی سیاسی جدلیات سے جوڑ دیا،خاص طور پہ مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے جی بی کی سیاست میں مزاحمت کے جس تاثر کو پختہ کیا اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا جو انتخابی نتائج کے بعد اب رفتہ رفتہ ابھر کے سامنے آ رہا ہے،عوام الناس کے دل و دماغ میں پنپنے والی یہی بے چینی وہاں کے منجمد معاشرہ کو اب بہت جلد ذہنی انتشار اور سیاسی پراگندگی کی لہروں میں ڈھل لے گی۔

بلاشبہ انتخابات بجائے خود ایک ایسا پُرخطر عمل ہے جو سماج کے فکر و خیال میں پائے جانے والے قدرتی نظم و ضبط کو تہہ و بالا کر کے انہیں نامطلوب سیاسی کشمکش کے حوالے کر دیتا ہے اور ذہنی اضطراب کی یہی کفیت پھر انہیں بچوں جیسے بھروسہ کے ساتھ خود کو سیاسی لیڈر شپ کے حوالے کرنے پہ تیارکر لیتی ہے،جس کے بعد سیاسی جماعتیں نہایت آسانی کے ساتھ انہیں سیاسی جدلیات کا ایندھن بنا سکتی ہیں۔

(جاری ہے)

نواز لیگ تو گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنا کے مملکت میں ضم کرنے کی حکومتی پالیسی کی حمایت نہیں کرتی تاہم پیپلزپارٹی سمیت کئی دیگر جماعتیں جی بی کو صوبہ بنانے میں ریاستی پالیسیوں کی مشروط معاونت پر تیار نظر آتی تھیں لیکن اسی انتخابی مبارزت نے سیاسی مفاہمت کے کھلے دروازے بند کر دیئے ہیں۔مسلم لیگ نواز کو یہ علم تھا کہ انہیں جی بی کے انتخابات میں کامیابی نہیں مل سکے گی لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت انہوں نے انتخابی عمل کواپنی انٹی گورنمنٹ تحریک کا ٹول بنانے کی خاطر جارحانہ انداز میں الیکشن مہم چلا کے وہاں عوامی سوچ کے دھاروں میں اضطراب پیداکرنے کے علاوہ پیپلزپارٹی کی مقتدرہ کے ساتھ ذہنی وابستگی کو بھی متزلزل کر دیا چنانچہ اسی پیش دستی کی بدولت اب گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج پی ڈی ایم کی تحریک کو زیادہ فعال بنانے کا وسیلہ بنیں گے۔

راز ہائے نہاں خانہ سے آگاہ حلقوں کا کہنا ہے کہ جی بی میں پیپلزپارٹی کو ہموار جمہوری عمل کے ذریعے حکومت بنانے کی امید دلائی گئی تھی اس لئے بلاول بھٹو زراداری نے مولانا فضل الرحمن کا ہاتھ جھٹک کے گلگت بلتستان کے انتخابی میدان میں اترنے کی راہ لی تھی تاہم اب جب نتائج ان کی توقعات کے برعکس نکلے تو مسٹر بلاول بھٹو کے لب و لہجہ میں بھی وہی تلخی نکھر آئی جو مریم نواز کی پیکار اور مولانا فضل الرحمن کے مزاج پہ چھائی دیکھائی دیتی ہے۔

اب بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ اِن پُرجوش انتخابی مہمات کی بدولت جُوں جُوں لوگوں کے سیاسی شعور کی سطح بلند ہوتی جائے گی تُوں تُوں یہاں نظریاتی پیچیدگیاں بھی بڑھتی جائیں گی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری مملکت کے لئے کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے ذریعے امورحکومت چلانا دشوار ہوتا جائے گا،اب یا تو جمہوری سیاست کی بساط لپیٹ کے کوئی استبدادی حکومت متعارف کرانا پڑے گی یا پھر تقسیم اختیارات کے آئینی فارمولہ کے مطابق پُرامن انتقال اقتدار کے لئے شفاف انتخابی عمل کی روایات کی آبیاری ناگزیر ہوگی۔

ہماری ریاستی اشرافیہ نے ہمیشہ مخصوص سوچ کی حامل سیاسی قوتوں کو خود سے وابستہ رکھ کے میدان سیاست میں مساوی مواقع کے احساس کو کم کیا،اسی احساس محرومی کے دائرے زیادہ وسیع ہوئے تو محاذ آرائی کی قوت رفتار بھی دوچند ہوتی گئی،اس لئے اب ہماری قومی سیاست میں کارفرما مذہبی وسیاسی طبقات پوری شدت کے ساتھ صف آراء ہونے کو ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی ریاست کی تشکیل ایسا تاریخی عمل ہے جسکو اپنی تکمیل کے پیچیدہ مراحل سے گزرنے کی خاطر کافی وقت درکار ہوتا ہے،یہاں اس امر پہ بحث کی گنجائش نہیں کہ پاکستان یا پھر تیسری دنیا کی تمام مملکتیں ریاست سازی کے عمل میں لازماً کشمکش کی اسی آزمائش سے گزریں گی جس سے یورپی اقوام گزریں۔

لیکن اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ ہمیں 1947 میں مملکت کے قیام کے ساتھ ہی ان پیچیدہ امور اور سیاسی رکاوٹوں کو نمایاں کرنے کی ضرورت تھی، جنہیں آج کی ریاستی اشرافیہ قومی انضمام کی راہ میں حائل رکھنا چاہتی ہے،شاید ماضی میں جمود پرور قوتوں نے جغرافیائی دباوٴ کی وجہ سے خود کو علاقائی اور بین الاقوامی ماحول سے ہم آہنگ رکھنے کی خاطر داخلی نظام کی تشکیل سے صرف نظر کر لیا تھا لیکن ذہن انسانی کی طرح قومی شناخت کا ارتقائی عمل بھی فطرت کے متعین کردہ مراحل سے گزرے بغیر کوئی متوازن صورت پا سکتا ہے نہ اسے مصنوعی طور پر تھونپا جاسکتا ہے ہاں البتہ ایسی پالیسیوں کے نفاذ کی کوشش میں کوئی حرج نہیں جو قوموں کی تشکیل میں معاون بن سکتی ہیں۔

بہرحال،عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں لیکن بہترین مشیر بھی خوش قسمتی سے کم اہم نہیں ہوتے کیونکہ اچھے مشورہ کے بغیر انسان وہ سب کچھ گنوا دیتا ہے جو اچھی قسمت کے ذریعے اسے حاصل ہوتا ہے۔انہیں شاید کسی مشیر نے یہ مشورہ نہیں دیا،اگر تحریک انصاف ہر قیمت پہ گلگت بلتستان کا الیکشن جتنے کی بجائے پیپلزپارٹی کو واک اوور دیتی تو پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے اندر پائے جانے والے پالیسی اختلافات کی دراڑیں مزید گہری ہو جاتیں اورگلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے آئینی عمل میں پیپلزپارٹی کی معاونت اپوزیشن کی تحریک کی رہی سہی فعالت کو بھی کند بنا سکتی تھی لیکن اب انتخابی ہزیمت نے بلاول بھٹو زرادری کو جنون استرداد کی جس کفیت سے دوچار کیا،اس سے تو نوازلیگ کے بیانیہ کو تقویت ملے گی،یہ انہی انتخابی نتائج کے اثرات تھے جن کے سیایہ میں پی ڈی اے کی جماعتوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔

جی بی کے انتخابی معرکہ نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی مشکلیں بھی آسان بنا دیں وہ قبل ازیں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کو یکجا رکھنے میں خاصی دشواری محسوس کر رہے تھے،مولانا فضل الرحمن نے پچھلے ڈھائی سالوں میں اپنی سیاسی مہارت کو بروکار لا کر دونوں بڑی جماعتوں کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پہ اکٹھا کرنے میں کامیابی ضرور پائی لیکن لیگی قیادت بارے وہ آصف علی زرداری کے دل و دماغ پہ چھائی اس بداعتمادی کو دور کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے تھے جو میموگیٹ سکنڈل میں نوازشریف کی اعلانیہ تلویث کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی،چنانچہ پیپلزپارٹی کی کہنہ مشق قیادت احتجاجی تحریکوں میں سرکھپانے کی بجائے طاقت کے مراکز سے پس پردہ لین دین میں زیادہ سہولت محسوس کرتی تھی۔

پیپلزپارٹی کا یہی رویہ پی ڈی ایم کی تحریک کے پاوں کی زنجیر اور حکومت کے لئے امکان کا کھلا دروازہ تھا۔لیکن جی بی کی انتخابی عمل کے دوران غلط تخمینوں نے نوجوان بلاول کو عمیق مایوسی سے دوچار کر کے براہ راست ٹکراو کی اس کفیت تک پہنچا دیا،جس سے وہ ہمیشہ کنی کتراتے نظر آئے۔گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کے بعد سابق صدرآصف علی زرداری نے خود مولانا فضل الرحمن کو ٹیلی فون کر کے حکومت مخالف تحریک میں تیزی لانے کی خواہش ظاہر کی۔

شاید اسی لئے پی ڈی ایم کے صدر نے نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں 13 نومبر کے لاہور جلسہ کے بعد پورے ملک سے عوامی قوت کو اسلام آباد کی جانب گامزن کرنے اور استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ بلاشبہ،پولرائزڈ سیاست نے ہمارے فیصلہ سازوں کے دل و دماغ پر ایسے عجیب اثرات مرتب کئے،جس کی وجہ سے وہ جمہوری توازن پر قائم ریاست کو قومی سلامتی کے لئے مفید نہیں سمجھتے لیکن اب یہی داخلی عوامل پاکستانی قوم کو جنگ، تنازعات اور اداروں کے ساتھ ٹکراو کی طرف لے جارہے ہیں۔

ستّر سال سے جاری یہی ناگوار کشمکش ہی ہمارا اصل مسئلہ تھا ،جو سول و ملٹری حکومتوں کے دوران ہمارے قومی وجود کو کس نہ کسی طور تڑپاتی رہی۔بلاشبہ پاکستان اور تیسری دنیا میں کہیں بھی غالب طبقوں نے ریاست کی تشکیل اور قومی اتحاد کو فروغ دینے کیلئے مرکزیت کے مغربی تصورات کو قبول نہیں کیا۔اس لئے یہاں قومی وحدت کے بنیادی نقطہ پہ ریاستوں کا صحت مند ارتقاء افزائش نہیں پا سکا،لیکن یہ بھی درست ہے کہ تمام ترقی پذیر ممالک کے لئے قومی ریاست کا یکساں ماڈل قبول کرنا یا یوروپی طرز پہ قوموں کی شکل و صورت کو وضع کرنا خطرناک ہو گا بلکہ یہ خود کو تباہ کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔


”اپنی ملت پر قیاس اقوم مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولﷺ ہاشمی“
یہ بھی ایک تاریخی حادثہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کو نسلی،مذہبی اور لسانی گروہوں کا ایک ایسا میوزک بھی وراثت میں ملا جو ہمیں ماضی پہ فخر کرنا تو سیکھاتا ہے لیکن حال کے تقاضوں اور مستقبل کے وسیع افق کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا، نسلی یا فرقہ وارانہ شناخت کا پختہ احساس اور بھرپور ثقافتی روایات نہایت مضبوط سہی لیکن یہ ہماری زندگی نہیں بلکہ نقش زندگی ہیں۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مغربی نوآبادیات سے قبل صدیوں تک کچھ قبائیلی گروہوں کا ایک نیم خودمختار وجود یہاں قائم تھا اگرچہ وہ بجائے خود حکومت تو نہیں تھا لیکن ان کی قبائلی اور گروہی شناخت کا محور ضرور بنا رہا لیکن اب یہی رجحان مرکزی ریاست کے ذریعہ ایک مشترکہ قومی تشخص کی تعمیر میں بنیادی رکاوٹ بنا گیا۔چنانچہ اقتدار کی جائزیت یا پھر قانونی جواز کے بغیر معاشرے کے ان اہم شعبوں کو ریگولیٹ کرنا مزاحمت کو ہوا دینے کے علاوہ خود ریاست کے جواز کو بھی مجروح کرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :