
پیپلزپارٹی جم گئی؟
ہفتہ 24 اکتوبر 2020

اسلم اعوان
(جاری ہے)
ہماری قومی سیاست کا ارتقاء سیاسیات کے طلب علموں کے لئے تحقیق و جستجو کا نہایت دلچسپ موضوع بن سکتا ہے،جس طرح اس ملک کی سیاسی لیڈر شپ نے شہریوں کے سیاسی حقوق کی جس جنگ میں زندگیاں کھپا دیں، قوم کی اکثریت کو سیاسی حقوق کا شعور اور لیڈر شپ کی قربانیوں کا احساس تک نہیں تھا،اسی طرح آج ہماری مقتدرہ جس فیفتھ جنریشن وار کی دہائی دیتی ہے اس کا عوام تو کجا یہاں کے تعلیم یافتہ طبقات کو بھی ادراک حاصل نہیں ہے۔بدقسمتی سے ایک تو انگریزوں سے آزادی کی تحریک نہایت برق رفتاری کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچی دوسرے اسی جدوجہد کے دوران سیاسی حقوق اور سماجی شعور کی آبیاری کے برعکس ہندو،مسلم منافرت کی لہروں نے فرقہ وارانہ تعصبات کو گہرا کرکے مسلم سماج کے اندر سیاسی ارتقاء کی افزائش روک دی،اس لئے مملکت کے حصول کے بعد ہمارے سیاستدانوں کو انتظامی ڈھانچہ کے اندر تقسیم اختیارات اور شہریوں کے بنیادی و سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر آئینی نظام کی تشکیل کے لئے خاطرخواہ عوامی حمایت نہ مل سکی،عوام کی اکثریت بلکہ خواص بھی سیاسی نظام کے ارتقاء کی اہمیت سے ناواقف اور جمود پرور آمریتوں کی حمایت میں عافیت تلاش کرتے رہے۔چنانچہ قائد اعظم کی وفات کے بعد ابتدائی دور کے سیاستدانوں خاصکر لیاقت علی خان،حسین شہید سہروردی،ایوب کھوڑو ،چوہدری محمد علی اور ممتاز دولتانہ سمیت کئی عظیم لیڈر سیاسی نظام کی استواری میں ناکام رہے۔یہ ذولفقارعلی بھٹو تھے جنہوں نے اپنی کرشماتی شخصیت بلبوتے آزادی اور مساوات کے نعروں کو مقبولیت دینے میں کامیابی پائی لیکن بوجوہ مسٹر بھٹو کی جدوجہد سے جڑا ذہنی ارتقاء کا یہ سفر بھی رائیگاں چلا گیا،بلکہ ان کے بعد آنے والے سیاستدانوں نے طاقت کے مراکز کے ساتھ سودا بازیوں میں الجھ کے جمہور کے سیاسی حقوق کی بحالی کی جدوجہد کی رخ گردانی میں بقاء تلاش کر لی،اس لئے وہ اپنی ساکھ اور منزل مقصود دونوں گنوا بیٹھے۔ البتہ سوشل میڈیا کے اس پرزور اور پیچیدہ عہد میں سماجی رابطوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مباحثوں نے عوام کے اندر سیاسی حقوق بارے آگاہی بڑھا دی۔اسی لئے خوش قسمتی سے نوازشریف سیمت نئی ابھرتی ہوئی سیاسی قیادت کو سویلین بالادستی کے حصول کی جدوجہد میں بے پناہ عوامی حمایت ملی،جس نے موجودہ سیاستدانوں کے لئے مقصدکا حصول آسان بنا دیا ہے۔دوسری طرف ہماری اعلی ترین عسکری کمانڈ قوم کو بدستور فیفتھ جنریشن وارکے خطرات سے آگاہ کر رہی ہے لیکن عام آدمی تو کجا،خواص بھی اس جنگ کی حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے،لہذا اسی مہیب جنگ کے نظر نہ آنے والی ہتھیاروں نے مملکت کے ڈھانچہ میں گہری دراڑیں ڈال دیں۔تاریخ کے ابتدائی دنوں میں نسل انسانی نے معاشروں کو تاراج کرنے والے ڈاکووں، لٹیروں کی سرکوبی کے لئے قومی لشکر تشکیل دیئے۔دوسرے مرحلہ میں قیام امن کی خاطر انسان نے مملکتوں کے تابع منظم فوجیں تشکیل دیکر انہیں تیر وتلواراور گھوڑوں سے طاقت فراہم کی۔تیسری نسل کو اپنی بالادستی قائم رکھنے کی خاطر بندوقیں،توپیں اور ٹینک استعمال کرنا پڑے۔چوتھی نسل نے مملکت کے خلاف جارحیت کو روکنے کیلئے بری،بحری اور فضائی فورسیسز استعمال کر کے وسیع پیمانے پہ تباہی مچائی اور اب پانچویں نسل میں دشمن کے دفاعی نظام کو کمزور کرنے کی خاطر پہلے فوج اور عوام کے درمیان بداعتمادی،دوسرے مرحلہ میں تفریق اور پھر تصادم کی آگ بھڑکا کر انہیں اندر سے توڑ دیتی ہیں،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں سب سے مہیب طریق جنگ یہی ہے،ہمارے سامنے عراق،افغانستان،شام،سوڈان اور لیبیا کو پہلے اسی فیفتھ جنریشن وار اسٹریٹیجی کے ذریعے اندر سے منقسم کیا گیا بعد میں باہر سے جارحیت کر کے برباد کر دیا گیا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اسلم اعوان کے کالمز
-
کشمیریوں کا مستقبل
بدھ 2 دسمبر 2020
-
شناخت کا بحران کیسے پیدا ہوا؟
بدھ 25 نومبر 2020
-
قوم رسولﷺ ہاشمی ؟
جمعرات 19 نومبر 2020
-
امریکی پیشقدمی اور پسپائی
اتوار 15 نومبر 2020
-
تنازعات گہرے ہو رہے ہیں!
منگل 10 نومبر 2020
-
یورپ جنگ کے دہانے پر
جمعرات 5 نومبر 2020
-
حالات بدلتے کیوں نہیں؟
ہفتہ 31 اکتوبر 2020
-
پیپلزپارٹی جم گئی؟
ہفتہ 24 اکتوبر 2020
اسلم اعوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.