شناخت کا بحران کیسے پیدا ہوا؟

بدھ 25 نومبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

ہماری مملکت فی الوقت داخلی سیاسی کلچر کی ازسر نو تدوین کے جن مراحل سے گزر رہی ہے،اس میں عالمی سطح پہ رونما ہونے والی پیراڈائم شفٹ کے اثرات بھی شامل ہوں گے لیکن ان تغیرات کا بنیادی محرک ہمیشہ ہماری اپنی داخلی پالیسیاں بنیں،جو واقعات میں نظم پیداکرنے کی بجائے ہمہ وقت اجتماعی ماحول کو وقف اضطراب رکھنے پہ محمول رہتی ہیں،پچھلی پون صدی کے دوران مملکت کی حدود میں بسنے والا یہ انبوہِ کثیر مستقل اصولوں پہ قومی وجود کی تشکیل کا ابتدائی خاکہ تک تیار نہیں کر سکا،حتی کہ سماج کو ریگولیٹ کرنے والے سکولز،کالجز،یونیورسٹیاں،مساجد ،مدارس اور خانقاہوں جیسی روایتی قوتیں بجائے خود سیاسی،سماجی اور مسلکی تقسیم کے ناگوار عمل سے گزارنے کے بعد اپنے اثرات کھوتی چلی گئیں،گویا ہم خود ہی وقت اور حالات کی محوری گردشوں سے نکل کر کوئی واضح راہ عمل اپنانے سے گریزاں رہے،ورنہ ستّر سالوں پہ محیط اجتماعی تجربات از خود ہمیں ایک قوم کی شکل میں ڈھال لیتے۔

(جاری ہے)

پچاس ریاستوں کی متنّوع ثقافتوں اور مختلف رنگ و نسل کے حامل بتیس کروڑ سے زیادہ انسان امریکی قوم کے قالب میں ڈھل سکتے ہیں تو یکساں سماجی روایات اور مذہبی وحدت رکھنے والے پاکستانی اپنی اجتماعی زندگی میں وہ نفسیاتی توازن پیدا کیوں نہیں کر پائے جو انہیں پاکستانی شناخت کے تحت مل کے جینے کا ڈھنگ سیکھا دیتا۔دور مت جایئے پڑوسی ملک ہندوستان کے کثیراللسانی معاشرے میں عمیق ثقافتی،نسلی اور مذہبی تضادات کے باوجود لوگ خود کوانڈین کہلوانے پہ فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ہماری ریاست دو چار سماجی اکائیوں کو پاکستانی شناخت کے دائروں میں سمونے کا ہدف حاصل نہیں کر سکی،آزادی کے وقت جس قسم کی نفسیاتی فضا قائم تھی اس میں تو مقصد کا حصول کوئی مشکل کام نہیں تھا مگر ریاستی مقتدرہ ہمارے سماج کو قومی تصورحیات میں پرونے کی بجائے بتدریج کنفیوژن کی طرف دھکیلنے میں بقاء تلاش کرتی رہی،ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہم نے اپنی خود مختیار سلطنت سے اُس حُریت فکر کو نکال باہر پھینکا جو ابتدائی دور کے مسلمانوں کے لئے دیانت و کردار کا معیار سمجھی جاتی تھی اورجبر کی مشق ستم کیش نے رفتہ رفتہ معاشرے سے سچ کہنے کی جرات اور اپنے حق کی خاطر مر مٹنے کی حمیت کا بانکپن بھی چھین لیا۔

شاید آج بھی ہم آزادی سے خائف دیکھائی دیتے ہیں! ہمارے اباء و اجداد گو کے اخلاق کے معاملہ میں سختی سے روایتی انداز کے پابند تھے لیکن سیاست میں بلکل آزاد تھے،وہ اخلاق کا احترام کرنے کے باوجود ریاست سے دست و گریباں ہونے میں باک محسوس نہیں کرتے تھے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس ضمن سے ہمارا مسلہ جمہوریت یا آمریت بھی نہیں تھا کیونکہ شخصی اورجماعتی آمریتیں بھی قوموں کو مربوط رکھنے کی اہمیت سے آشنا ہوتی ہیں،چین میں سوشلسٹ پارٹی،ایران میں مذہبی مقتدرہ اور ترکی میں فوجی آمریت نے کم و بیش سو سال تک قومی وحدت کی موثر نگرانی کر کے قوم کو نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ سے بچایا،متذکرہ بالا قوموں کے اندر آج بھی قومی حمیت کا جذبہ اور اجتماعی زندگی کا شعور جگمگاتا نظر آ رہا ہے۔

اگرچہ ہم نے آزادی سے قبل اپنے لئے نظریاتی مملکت کی شناخت کا انتخاب کر لیا تھا لیکن آزادی کے بعد بھی ہماری قوت و حشمت اور بقاء اسی نظریاتی قومیت کے سوال کے ساتھ معلق رہی،جسے عملی صورت دینے میں ہم سے کوتاہی ہوئی۔نظریہ زندگی کے بارے میں مربوط زاویہ نگاہ اور یکساں سوچنے کے عمل کا حتمی نتیجہ ہوتا ہے جو رنگ و نسل اور جغرافیائی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک ایسی عقلی قومیت کی تشکیل کا محرک بنتا ہے،جس میں ردّ و قبول کا اختیار بہرحال انسانی شعور کے تابع رہتا ہے،جس میں لوگ شناخت کے حوالے سے موروثی اور جغرافیائی حالات کے قیدی رہنے کی بجائے موروثی جبلتوں کو شعوری ہدایت کے تابع لانے میں آزاد ہوتے ہیں اور یہیں سے احترام انسانیت کی ابتداء اور اسی سے شرف آدمیت کی معراج ہوتی ہے۔

ایک نظریاتی ریاست بھی مشترکہ نظریہ رکھنے والے بہت سے افراد کی ایسی انجمن ہوتی ہے جو معاشرے کے اجتماعی امور کو منظم کرنے کے لئے اپنی حکومت تشکیل دیتی ہے۔ مغرب میں ریاست کا ارتقاء افلاطون کی جمہوریہ کے یوٹوپیائی تصور سے جا ملتا ہے لیکن اسلامی ریاست کے نظریاتی مندرجات میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے والا ہر شہری زمین پہ اللہ کا نائب ہے اور ریاست انسانی فلاح و بہبود کی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے نمائندہ کردار ادا کرتی ہے۔

قومی اتحاد،مملکت کا استحکام ،طاقت کا حصول اور معاشی خوشحالی بھی نظریات سے الگ نہیں ہوتیں لیکن بدقسمتی سے یہاں مذہبی تحریکوں کی گونج،نسلی و لسانی عصبیتوں کی کشش اور ثقافتی شناخت کے متضاد مطالبات نے ہمارے بنیادی نظریہ کو معاشی خوشحالی اور ملکی استحکام جیسے فطری امور کے ساتھ کنفیوژ کر دیا،التبسات کی اس دھند میں اس سول سوسائٹی کا کردار بھی محدود ہوتا گیا جو اسلامی نظریاتی ریاست کا مقصود اور حکمرانوں کی فطری محتسب ہوتی ہے۔

برصغیر میں چونکہ صدیوں تک معاشرتی ڈھانچہ طبقاتی تقسیم کا اسیر رہا اس لئے سول سوسائٹی کا اسلامی تصور یہاں جڑ نہ پکڑ سکا،آج بھی سردار،وڈیرے،خان اور ملک ہمارے سماجی ڈھانچہ کو متشکل کرتے ہیں وہاں اجتماعی حیات کو سنوارنے والے دستکاروں اور اہل فن کو برابری کا حق دیا جاتا ہے نہ وہ حاکمان قضا و قدر سے کوئی سوال پوچھ سکتے ہیں۔علی ہذالقیاس،اجتماعی امور میں ابتدائی قدم اٹھانے کا اختیار تو فیصلہ سازوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن بسا اوقات ان اقدامات کے نتائج محرک کے کنٹرول میں نہیں رہتے،چنانچہ صورت حال کو سمبھالنے کی خاطر انہیں لازماً اپنی ترجیحات کو آگے پیچھے کر کے نت نئی پوزیشن لینا پڑتی ہیں جو ارباب اختیار کو نئے سمجھوتوں کا سہارا لینے پہ مجبور کرتی ہے۔

ابھی حال ہی میں ریاستی مقتدرہ نے قومی بیانیہ کی ایک خاص رخ پہ تشکیل اور ملکی سیاست کو مخصوص رنگ میں ڈھالنے کی جو نئی سکیم متعارف کرائی،اسکے فوری نتائج تو حاصل کر لئے گئے لیکن بعض معاملات کے دور رس اثرات وقت کے ساتھ نئی پیچیدگیاں پیدا کرتے جا رہے ہیں،جنہیں ریگولیٹ کرنا دن بدن دشوار ہوتا جائے گا۔جس طرح دوہزار اٹھارہ کے سیاسی بندوبست کی تشکیل کے ردعمل میں پی ڈی ایم میں شامل منتشر الخیال اورکمزور سیاسی گروہوں نے حالات کی الٹ پھیر سے طاقت کشید کرکے رفتہ رفتہ اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی،بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومتی اتھارٹی زیادہ دیر تک انکی سرگرمیوں کو کنٹرول نہیں پائے گی اور یہی جدلیات بلآخرسیاسی ماحول پہ غلبہ حاصل کر لے گی۔

لیکن اس کے برعکس حالات کے جبر نے تحریک لیبیک کی نظریاتی فورس سے سیاسی قوت بن کے ابھرنے کا موقعہ سنہری چھین لیا،اگرچہ جن حساس ایشوز پہ تحریک لبیک کی اٹھان ہوئی اس کے اثرات قومی سیاست کو دیر تک دگرگوں رکھیں گے لیکن علامہ خادم حسین رضوی کی ناگہانی موت اس ابھرتی ہوئی جماعت کو ایسے اضمحلال سے دوچار کر گئی،جس کی تلافی ممکن نہیں ہو گی،بدقسمتی سے اس قسم کی نظریاتی تحریکوں کی بقاء ہمیشہ شخصی لیڈرشپ سے وابستہ رہی، قیادت جب منظر سے ہٹتی ہے تو تحریکیں دم توڑ دیتی ہیں،ابوبکر بغدادی کی موت نے داعش جیسی مہیب قوت کو منتشر کر دیا،زرقاوی کی موت نے جبتہ النصر اور اسامہ بن لادن کی شہادت نے القاعدہ جیسی عالمی تنظیم کو معدوم بنا دیا۔

اگر مولانا اشرف جلالی جیسا پختہ کار لیڈرعنان سمبھال لیتا توتحریک لبیک علامہ خادم حسین کی موت کا صدمہ سہہ لیتی لیکن اب اس نوخیز قیادت کو سیاسی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لئے خاصی لمبی مدت درکار ہو گی اور جب انہیں طاقت کی حرکیات کو سمجھنے کی استعداد حاصل ہو گی تو اس وقت تک حالات بدل چکے ہوں گے۔یہی وجہ تھی جو افغان جہاد کے دوران جنرل ضیا الحق نے افغان مزاحمتی گروہوں کی قوت کو یکجاہ رکھنے کی بجائے حکمت یار،صبغت اللہ مجددی، استاد ربانی اورعبدالرب رسول سیاف سمیت ساتھ آٹھ گروہوں میں منقسم رکھا تاکہ اگر کوئی مارا جائے، بِک جائے یا جُھک جائے تو اس کا ایسا متبادل موجود ہو جو آگے بڑھ کر خلاء کو پُر کر دے،اسی لئے روسی جارحیت کے خلاف مزاحمتی جہاد میں ہماری مقتدرہ متذکرہ بالا عسکری گروپوں کو ہر وقت آگے پیچھے کرتی رہتی تھی تاکہ کوئی ایک وار لارڈ وسیع تر مقصد کے لئے ناگزیر نہ بن جائے ۔

سیاست میں بھی متبادل لیڈرشپ کی ضرورت مسلہ ہوتی ہے،بے نظیر بھٹو کی اچانک موت نے پیپلزپارٹی جیسی پرانی جماعت کی چولیں ہلا ڈالیں ان کے غیر مقبول خاوند کو پارٹی کارکنان کے لئے خود کو قابل قبول بنانے کے لئے کئی سمجھوتے کرنا پڑے اور نو عمر بیٹے بلاول بھٹو زراداری کو ملکی سیاست کو سمجھنے میں تیرہ سال بیت گئے اب بھی وہ اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہو سکے۔

اس لحاظ سے نواز لیگ کچھ زیادہ خوش قسمت واقعہ ہوئی ہے کہ مریم نواز کوپچیس سالوں سے اپنے والد کے سایہ میں کام کرنے کی موقعہ ملا ،اب اگر نوازشریف منظر سے ہٹے تو مریم نواز اس خلاء کو پُر کرنے میں دیر نہیں کریں گی،وہ ہمدردی کی اس فوری لہر سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔جس سے بلاول بھٹو زرداری کو استفادہ کا موقعہ نہیں مل سکا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :