عقابی شان سے جھپٹے تھے جو ، بےبال و پر نکلے !!!

جمعرات 1 اپریل 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

گزشتہ دنوں " اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021" کی بازگشت کچھ اس طرح سنائی دی کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ آخر ہوا کیاہے ؟؟؟ کسی نے افواء پھیلا دی کہ حکومت نے اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کو گروی رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو کسی نے تردید کی ۔ چنانچہ سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہوا کیاہے ؟ چنانچہ یہ واضح کرنا لازمی ہےکہ حکومت نے مجوزہ ایکٹ کی رو سے  " اسٹیٹ بینک آف پاکستان" کو ایک آزاد اور خودمختار مالیاتی ادارے کی شکل دینے کا فیصلہ کیاہے ، جوکہ اب تک حکومت پاکستان کے ماتحت رہاہے۔

حکومت نے یہ فیصلہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر کیا ہے ، جو کہ قومی مفاد میں بالکل بھی نہیں ہے۔ اگرچہ حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ مئوقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کررہےہیں ۔

(جاری ہے)

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ اگر سیاسی اثرورسوخ سے مراد حکومت پاکستان کا بینک پر اختیار ہے تو یہ اختیار ختم ہونے سے حکومت ملکی معیشت پر اپنی گرفت کھو دے گی ، تو ایسی صورت میں نظام مملکت چلانے کےلیے حکومت کو وسائل کہاں سے فراہم ہوں گے؟ اسٹیٹ بینک آف پاکستان حکومتی ضروریات کےلیے قرض کی فراہمی کا پابند نہیں رہے گا۔

اگر اسٹیٹ بینک ہی حکومت کو قرضہ جاری کرنے سے انکار کردے تو حکومت کو دیگر نجی بینکوں سے زیادہ سخت شرائط پر قرضے لینا ہوں گے جبکہ پاکستان کے 80%سے زیادہ بینکوں​ کے مالکان غیر ملکی افراد ہیں ۔ دورجدید میں مالی وسائل کے بغیر حکومت چلانا کسی طورپر بھی ممکن نہیں ہے ، حتی کہ ہمارا اقتصادی ، سماجی اور دفاعی نظام بری طرح سے متاثر ہوگا۔  اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ریاستی مالیاتی امور کے راز افشاء ہوجانے کے امکانات بھی واضح ہیں ۔

اسٹیٹ بینک ہمارے ریاستی راز بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو دینے کا پابند ہوگا ، خواہ وہ کتنی ہی حساس معلومات کیوں نہ ہوں ؟ نئے مجوزہ قانون کے آرٹیکل 6 چار بی کے تحت حکومت پاکستان " ریاستی رازوں " کو افشاء کرنے پر بھی جواب طلب نہیں کرسکےگی۔ اسٹیٹ بینک پاکستان کے آئین و قانون سے مکمل طور پر آزاد ہوجائےگا۔ گورنر اور ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک حکومت پاکستان کو جوابدہ نہیں رہیں گے۔

مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا اختیار بھی اسٹیٹ بینک کے اختیار میں شامل ہوگا۔ جبکہ حکومت غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کی پابند ہوگی۔ اس طرح تمام تر حکومتی آمدنی بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجائےگی۔ اگر حکومت نئے قرضے حاصل کرکے پرانے قرضوں کو چکائے گی تو بین الاقوامی مالیاتی ادارے من چاہی سخت شرائط عائد کرکے ہماری خودمختاری پر کاری ضربیں لگائیں گے۔

مالیاتی طورپر دیوالیہ ریاست  اپنی مسلح افواج اور دفاعی امور چلانے سے قاصر ہوتی ہے۔ فوج کو تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی ، مقامی دفاعی صنعت ، غیرملکی اسلحے کی خریداری کے سودے ، میزائل اور ایٹمی پروگرام کو مالی وسائل کے بغیر جاری رکھنا ناممکن ہونے کا بھی واضح امکان ہے۔کیونکہ
 اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021 کے عنوان سے جو بل سامنے آرہا ہے اس کے مطابق
• اسٹیٹ بینک کے گورنر وزیرخزانہ کے مشورے سے تین نائب گورنروں کا تقرر کرینگے یعنی یہ تقرر ان دوافراد کی صوابدید پر ہوگا اور نائب گورنروں کی معزولی و برطرفی کے جملہ حقوق گورنر و وزیر خزانہ کے ہاتھ میں ہوں گے۔


• اسٹیٹ بینک کے ملازمین صرف اور صرف گورنر کوجوابدہ ہوں گے۔
• نیب، آیف آئی اے اور دوسرے تحقیقاتی ادارےاسٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنر اور سینیر منیجرز کی تحقیقات نہیں کرسکیں گے اور  یہ لوگ  وفاقی حکومت کو جوابدہ نہیں ہوں گے۔
• اسٹیٹ بینک کے اہلکاروں پر سرکاری ملازمین کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا اور گورنر اسٹیٹ بینک کو تمام قانونی کارروائیوں سے مکمل استثناء حاصل ہوگا۔


• ملک کی مالیاتی منصوبہ بندی، ٹیکس شرح، محصولات وغیرہ کا تعین گورنر اسٹیٹ اور وزیر خزانہ باہمی مشورے سے کریں گے۔
• تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں کا تعین بھی اسٹیٹ بینک کے گورنر اور وزیر خزانہ کے فرائض منصبی میں شامل ہوگا۔
• اے جی پی آر یا کوئی اور ادارہ اسٹیٹ بینک کے حسابات کا آڈٹ نہیں کرسکے گا۔ گورنر، وزیرخزانہ کے مشورے سے انٹرنل آڈیٹر کا تقرر کرے گا۔


بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رح " عقابی شان سے جھپٹے تھےجو ، بےبال و پر نکلے۔
تبدیلی سرکار جس " عقابی شان " سے جھپٹی تھی تو آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا وعدہ فرمایا تھا (جوکہ پورا نہ ہوسکا ) ، لیکن اگر یہ مجوزہ قانون منظور ہوا  تو ہم بھی مکمل طور پر بے بال و پر (بےبس ، بےکس ، لاچار اور مجبور ) ہوجائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :