بدلتا عالمی منظرنامہ اور خارجہ پالیسی کے خدوخال - قسط نمبر2

ہفتہ 8 مئی 2021

Baber Ayaz

بابر ایاز

گزشتہ کالم میں خارجہ پالیسی کے خدوخال اور اسکے بنیادی تصورات کا جائزہ لیا گیا تھا جبکہ اس کالم میں خارجہ پالیسی کی تشکیل کے تجزیاتی عناصر کا احاطہ کیا جائے گا۔ خارجہ پالیسی تین سطحوں پر تشکیل پاتی ہے ان میں انفرادی سطح تجزیہ، ریاستی سطح تجزیہ اور بین الاقوامی سطح تجزیہ شامل ہیں ۔ انفرادی سطح تجزیہ میں قومی راہنما شامل ہیں ۔

انکا کردار پالیسی کی تشکیل میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ قومی راہنما اپنے نظریات کے مطابق پالیسی تشکیل دیتے ہیں ۔ یہ نظریات وہ معاشرے سے حاصل کرتے ہیں جس میں وہ رہ رہے ہوں یا ان تجربات سے جو انکے ساتھ رونما ہوچکے ہوں یا جو انکے مشاہدے میں آئے ہوں ۔ پاکستان میں چین کو دوست ملک تصور کیا جاتا ہے لہذا راہنما چین کے متعلق دوستانہ خارجہ پالیسی تشکیل دینگے جبکہ مزہب کی بنیاد پر اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات اسکی واضع مثال ہیں ۔

(جاری ہے)

خارجہ پالیسی کی تشکیل کے تجزیاتی عناصر میں دوئم ریاست ہے ۔ اندرون ریاست کئ عناصر خارجہ پالیسی کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں جس میں ملکی سیاسی صورتحال و ادارے، انتظامی اور قانون ساز طاقتوں کا ربط، رائے عامہ و انتخابات، خارجہ امور پر رپورٹ کرنے والا میڈیا اور مفاد پرست یا انٹرسٹ گروپس شامل ہیں ۔ مارکسسٹ اور لبرل نظریہ کے مطابق ریاست کی خارجہ پالیسی اسکی مقامی سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال کا عکاس ہوتی ہے ۔

لبرل نظریہ کے مطابق جمہوری ممالک میں صرف راہنما ہی نہیں بلکہ وزراء، مشیران اور ماہرین بھی خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں ۔ اگر انتظامی اور قانون ساز طاقتوں کے ربط کی بات کی جائے تو لبرل نظریہ کے مطابق انتظامی سربراہان کو خارجہ پالیسی کی تشکیل کے لئے قانون ساز اداروں کی معاونت اور منظوری کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پارلیمنٹ رائے دہی کے ذریعے کسی بھی پالیسی کو منظور یا منسوخ کر سکتی ہے ۔

اسکی واضع مثال پاکستانی پارلیمان میں فرانسسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے ہونے والی بحث ہے۔ ریاستی  سطح تجزیہ  کا تیسرا  محرک رائے عامہ  اور انتخابات  ہیں۔ ریفرینڈم کے  ذریعے عوام کسی پالیسی کو منظور یا منسوخ کر سکتے ہیں ۔ عوام کے پاس ووٹ کی بھی طاقت ہوتی ہے جسکے ذریعے سے وہ ایسے  نمائندگان کا انتخاب کر سکتے ہیں جو خارجہ پالیسی کے متعلق نئے نظریات رکھتے ہوں ۔

حالیہ امریکی انتخابات اس کی واضح مثال ہیں جہاں کے عوام نے متشدد ذہنیت کے حامل ڑونلڈ ٹرمپ کو مسترد کرکے عالمی امن کے متعلق نئے نظریات رکھنے والے جوبائیڈن کا انتخاب کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی ٹرمپ کی جانب سے مسلم ممالک پر عائد کی جانے والی سفری پابندیوں کا خاتمہ کیا ۔ چوتھا عنصر خارجہ امور پر رپورٹ کرنے والا میڈیا ہے ۔

اس میں وہ افراد و تنظیمیں شامل ہیں جو ممالک کے مابین تعلقات پر نظر رکھتی  ہیں ۔ میڈیا کسی ریاست کے متعلق مثبت و منفی رپورٹنگ کرتا ہے جو عوام میں مقبولیت حاصل کرکے آخرکار خارجہ پالیسی کا حصہ بنتی ہے ۔ بھارتی میڈیا نے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ چلایا جسکے نتیجے میں عوام نے مسلم و پاکستان مخالف جماعت بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا ہے یوں دونوں ممالک کے تعلقات کئی سالوں سے سرد مہری کا شکار ہیں ۔

آخری عنصر مفاد پرست یا انٹرسٹ گروپس کہلاتا ہے ۔ اس سے مراد وہ بین الاقوامی تنظیمیں اور افراد ہیں جو یکساں سیاسی موقف رکھتے ہیں ۔ یہ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ بذریعہ تنقید و دباؤ ریاستوں کو پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ،ورلڈ لائف فاونڈیشن اور بل گیڈز
جیسے افراد و تنظیمیں موسمیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق جیسے مسائل پر ممالک کی خارجہ پالیسی پر کافی اثرانداز ہوئی ہیں ۔

خارجہ پالیسی کے تجزیاتی عناصر میں آخری محرک بین الاقوامی سطح تجزیہ ہے ۔ اس میں ریاستی جغرافیہ، معاشی خوشحالی اور ملکی مجموعی اہلیت شامل ہے ۔ جغرافیہ اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ ریاست اسی کو مدنظر رکھ کر خارجہ پالیسی تشکیل دیتی ہے ۔ اہم جغرافیائی ریاستیں کافی اثرورسوخ رکھتیں ہیں ۔ پاکستان بھی جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے ۔ بذریعہ پاکستان روس و چین جیسے ممالک باآسانی نیلے پانیوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔

وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی راہداری بھی بذریعہ پاکستان ممکن ہے۔ دوئم یہ کہ اگر کسی ریاست کا پڑوس جارحانہ عزائم رکھتا ہوں تو ریاست بھی اس کے لئے جارحانہ خارجہ پالیسی تشکیل دے گی ۔ پاک بھارت تعلقات اسکی روشن تصویر ہیں ۔ دوسرا عنصر معاشی خوشحالی ہے۔ معاشی طور پر خوشحال ملک اپنی افواج کو جدید خطوط پر استوار کر کے عالمی تعلقات پر اثرانداز ہوسکتا ہے ۔

امریکہ اسکی واضع مثال ہے جسکے دنیا میں بے شمار فوجی اڈے موجود ہیں ۔ یوں کمزور اقوام ہمیشہ دباؤ میں رہتی ہیں ۔ معاشی خوشحالی کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ریاستیں دیگر نئے مسائل میں بھی دلچسپی لیتی ہیں جیسے ماحولیاتی تحفظ کے لئے اقدامات وغیرہ ۔ بین الاقوامی سطح تجزیہ کا آخری محرک مجموعی ملکی اہلیت ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان عالمی سربراہی کردار ادا کرتے ہیں ۔

دنیا کے کسی بھی خطے میں تصادم کو روکنے کے لئے ایسے ممالک کے سربراہان فوری متحرک ہوتے ہیں تاکہ امن و امان قائم رہ سکے ۔ امریکہ کی حیثیت بین الاقوامی برادری کے درمیان پولیس مین کی سی ہے ۔ شام و عراق کا بحران ہو یا پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لئے روسی ، امریکی و چینی پیشکش اسی کردار کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہے ۔ ( خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی وجوہات اگلے کالم میں۔( جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :