عورت کے ہاتھوں عورت کی تذلیل

منگل 12 مارچ 2019

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

8مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقع پاکستان میں بھی کچھ این جی اوز(جو خود کو حقوق نسواں کی علمبردار مانتی ہیں) سے تعلق رکھنے والی عورتوں نے مختلف شہروں میں عورتوں کے مساویانہ حقوق کی کے لئے ریلیاں اور مارچ کیا ان ریلیز میں عورتوں نے جو بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے وہ اس قدر اخلاق باختہ،فحش اور غلیظ تھے کہ جن کو دیکھ کر مذہب،تہذیب اور روایات کے قرینوں میں پل کرجواں ہونے والی ہر عورت شرمندگی اور ندامت محسوس کر رہی تھی بلکہ ہر وہ شخص جس نے ان کتبوں پر لکھی تحریروں کو دیکھا اس نے یہی کہا کہ یہ عورتیں عورت کے حقوق کی دعویدار نہیں بلکہ عورت کی ذلّت و رسوائی کی علمبردار ضرور ہیں ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ یہ عورتیں کون تھی کیا تھیں ان کا پیشہ کیا تھا ان کا کردار کیا ہے یا وہ کس سوسائٹی سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ ہمارا ضمیر ہمیں یہ لکھنے سے باز رکھ رہا ہے مگر ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ جس لبرل معاشرے کی تقلید اور پیروی کے لئے یہ عورتیں اخلاق باختہ اور فحش کتبے اٹھا کر سڑکو ں اور بازاروں میں نکلی ہیں وہ لبرل معاشرہ عورت کوعورت کے کسی روپ میں بھی قبول کرنے پر آماد نہیں ماسوائے جنسی تسکین کے تعلق کے۔

(جاری ہے)

ترقی و خوشحالی کے آسمان کو چھوتا ہوا یہ لبرل معاشرہ پستی کی عمیق گڑھوں میں گر چکا ہے وہاں نہ عورت کو ماں کے روپ میں قبول کیا جاتا ہے نہ بہن اور بیٹی کے مقدّس رشتوں میں اور نہ بیوی کے روپ میں ۔عورت کے نام سے منسوب یہ سب رشتے لبرل ازم کی دھول میں گم ہو چکے ہیں وہاں اب عورت اپنے حقیقی مقام کی کھوج میں سرگرداں ہے لیکن جب مقام و مرتبہ ایک بار مٹی کی دھول میں گم ہو جائے تو دوبارہ اس کا حصول بہت مشکل ہو جاتا ہے،،نہیں لبھدے لال گواچے تے مٹی نہ پھرول جوگیا،،،،،اگر یہ عورتیں یوم خواتین کے موقع پربے ہودہ ،شرمناک اور انتہائی مکروہ بینرز اٹھا کر ریلیو ں میں شریک ہونے سے پہلے کچھ لمحوں کے لئے یہ سوچ وچار کر لیتں کہ جب وہ بیٹی کے روپ میں پیدا ہوئیں تو باپ کے آنگن میں ان کو کس قدر پیار نصیب ہوا باپ نے ان کی ہر خواہش کو اپنی متاع حیات سے مقدم جانابہن کے مقدس رشتے میں بھائیوں نے اس کی عزت و آبرو کو سب سے پہلی ترجیح دیکر بچپن سے جوانی تک اس کی سلامتی و تحفظ کو اپنا ایمان مانا بیوی کے بندھن میں خاوند نے اسے اپنی پلکوں پر بٹھا کر اس کی زندگی میں خوشیوں اور مسرتوں کے سر بکھیرے اور جب وہ ماں بن کرعظمت انسانی کے سب مقدّس،معتبر اور قابل تعظیم منصب پر پہنچی تو بیٹے اور بیٹیوں کی حّب اور پیار کے سارے قرینے اور قاعدے عقیدت میں تبدیل ہو گئے خالق ارض و سمٰوات نے ،،جنّت ،،جیسا انمول تحفہ جس کی نوید اللہ رب العزت نے انسان کو بندگی کے سارے فرائض کے بدلے میں دی ہے،،اس کو تیرے کے قدموں تلے کر دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ جس نے اپنے ماں کو خوش کر دیا اس نے مجھے خوش کر دیا،،اس کے باوجود بھی اے عورت تو اپنے حقوق کی خاطر شرمناک کتبے اٹھا کر اور تعفن اور غلاظت زدہ تحریروں والے بینرز لہرا کر یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ تجھے حقوق چاہیں اور وہ بھی وہ حقوق جس سے مغرب کی ہر گلی،ہر چوراہا،ہر نکّر ، ہر پگڈنڈی اور ہر پارک غلیظ اور معفّن زدہ ہے ۔

عورت کے مقدس نام سے عزت و احترام کے ہر لقب کی حقدار ٹھہرنے والی عورت اپنے کردار سے اس نام کی توہین نہ کر اور یاد رکھ لے کہ تیرے دین،کلچر اور تہذیب نے تجھے جو کچھ عطا کیا ہے وہ مغرب کے حقوق سے ہزار درجہ بہتر ہے۔۔بلکہ ہم اسلام کو ماننے والے تو یہ کہتے ہیں کہ۔۔
اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہوتی
 خیالوں کی رنگین جنّت نہ ہوتی
ستاروں کے دلکش فسانے ہوتے
بہارو ں کی نازک حقیقت نہ ہوتی
جبینوں پہ نور مسرت نہ کھلتا
نگاہوں میں شان مروّت نہ ہوتی
گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
فقیروں کو عرفان ہستی نہ ہوتا
عطازاہدو ں کو عبادت نہ ہوتی
مسافر سدا منزلوں پر بھٹکتے
سفینوں کو ساحل کی قربّت نہ ہوتی
ہر اک پھول سا رنگ پھیکا سا رہتا
نسیم بہاراں میں نکہت نہ ہوتی
خدائی کا انصاف خاموش رہتا
سنا ہے کسی کی شفاعّت نہ ہوتی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :