میزان عدل وکلاء گردی کے پنجہ استبداد میں

پیر 21 اکتوبر 2019

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعد سے یوں تو ہرروز کہیں نہ کہیں وکلاء گردی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پولیس اور انتظامیہ کی سر پرستی میں احاطہ عدالت میں جس دیدہ دلیری اور بدمعاشی سے وکلاء نے اپنی نجی عدالت لگائی پولیس نے ہتھکڑیاں لگا کر ڈی ایچ کیو کے دو اہلکاروں کو اس خود ساختہ عدالت میں پیش کیا ان کوکالے کوٹ والے غنڈوں سے معافی مانگنے پرمجبور کیا گیا اس کی مثال وکلاء گردی کی دو عشروں پر محیط ،،دہشت پسندانہ کارروائیوں میں نہیں ملتی۔

اس شرمناک واقعہ سے انسانیّت رسواء ہوئی ،آئین و قانون کا تقدس پامال ہوا،انصاف کا جنازہ نکلا اس گھناؤنے فعل کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
 اس مکروہ واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وکلاء گردی کا ناسور ہمارے معاشرے میں کس قدر پھیل گیا ہے ۔

(جاری ہے)

وکلاء گردی کے اس شر سے نہ جج محفوظ ہیں نہ ان کا عملہ،نہ عام آدمی سلامت ہے نہ خاص کی عزت نفس اس غنڈہ گردی سے محفوظ ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ا س ظلم و بربریّت اور نا انصافی کو روکنے کا بندوبست نہیں کیا جا رہا۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لگنے والی اس نجی عدالت سے تو ایسا لگتا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ خود اس وکلاء گردی کے رواج کو عام کرکے انصاف،آئین و قانون اور انسانیّت کے ہر اصول کو وکلاء کے پنجہ استبدا د میں دینے پر تلی ہوئی ہے ۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں وقوع پذیر ہونے والا یہ ،،،سانحہ ،،، کوئی نیا نہیں ہے اس سے پہلے بھی بہت سے شریف النفس کالے کوٹ کے لبادے میں چھپے ان غنڈوں کے عتاب کا شکار ہو چکے ہیں فیصل آباد میں ان وکلاء حضرات نے ایک جج پر اس لئے جوتے برسا دیے تھے کہ جج نے وکیل کی منشاء کے خلاف قانون و آئین کے مطابق ججمنٹ دی تھی۔

 پانچ ماہ قبل جڑانولہ کچہری میں مسند انصاف پر بیٹھے جج خالد محمود وڑائچ کو انہوں نے اپنی متشدانہ کارروائیوں سے لہو لہان کر دیا تھا پاکستان کی بڑی بڑی بار میں تو لوگ ان کالے کوٹ والوں کے کالے کرتوت کا نظارہ ہر روز کرتے ہیں کبھی یہ انصاف کے داعی کمرہ عدالت میں گھس کر ججوں کو یرغمال بناتے ہیں کبھی عدالتی کارروائی روک دیتے ہیں ججوں کی گاڑیوں پر پتھراو کرتے ہیں جو ان کی خواہش کے برخلاف قانون کے مطابق فیصلہ دیتا ہے تو یہ،،،پاسداران ّآئین و قانون،،،، اس کے خلاف غلیظ اور بازاری زبان استعمال کرتے ہیں ان کی اس انتہاء پسندانہ اور جارحانہ ذہنیّت سے اب تو کوئی بھی پاکستانی سلامت نہیں ۔

خود کواعلیٰ تعلیم یافتہ ،معزز ،معتبر اور آئین کا محافظ سمجھنے والے دوسروں کے منصب اور وقار کا لحاظ کئے بغیر ان کی عزت کو تار تار کر دیتے ہیں اب تو انکی غنڈہ گردی اس نہج تک پہنچ گئی ہے کہ انہوں نے اپنی نجی عدالتوں کا آغاز کر دیا ہے اور یہ بات وطن عزیز کے ہرباسی کے لئے پریشان کن اور تکلیف دہ ہے اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی وکلاء کے اس جارحانہ ،شرمناک اور متشّدانہ اقدامات کے آگے بندھ بھی باندھے گا یا یہ جنگل کا قانون عدالتوں سے نکل کر ہر بستی اور ہر قریہ میں پھیل جائے گا اوروکلاء گردی کا یہ ناسور اسی طرح آئین و قانوں اور عدل و انصاف کی مٹی پلید کرتا رہے گااگر یہ رویے اسی طرح رواج پاتے رہے تو سوسائٹی کا کیا ہو گا ۔

کیا کبھی آئین و قانون کی حکمرانی کا بھی دور آئے گا قوم کایہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا کہ دنیا ہمیں ایک مہذب، آئین و قانوں کی پاسدار،ترقی یافتہ اور پرامن قوم کے نام سے پہچاننے لگے یا پھر ہم جانوروں کے ریوڑ کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اگر پڑھا لکھا،قانون و آئین کا دعویدار،عدل و انصاف کے علم کا پاسبان ،خود کو مہذب اور قانون کا رکھوالا ماننے والا طبقہ ہی غیر قانونی،غیر انسانی،غیر آئینی ،غیر اخلاقی متشدانہ اورجاہلانہ رویوں کی پرورش کرنے لگ جائے تو ایک ان پڑھ،جاہل،گنواراور تعلیم یافتہ میں کیا فرق رہ جاتا ہے ہم ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے عدالتی احاطہ میں ،،،نجی عدالت ،،اور اس کے غیر قانونی فیصلے کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کی بھر پور مذمت کرتے ہیں ۔

چیف جسٹس آف پاکستان اور پاکستان بار کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عدالت کی بونڈری میں عدل و انصاف کا قتل عام اور آئین و قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے یہی حقیقی عدل کا تقاضا اور قانون کی حاکمیّت کا اصول ہے۔
آخر میں ہم ایک وکلاء صاحبان کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہی معاشرے میں مہذب،معزز اور معتبر مانے جاتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ،خام خیالی،خودفریبی اور کم عقلی ہے بلکہ لوگ تو ان وکیلوں کو ،،،ابلیس کا چیلہ،،، اور نہ جانے کس کس القاب سے نوازتے ہیں یہ کہاوت تو زبان زد عام ہے۔

۔۔
 جب پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا۔۔۔
 لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہوگئے۔۔۔
 لہذا محترم وکلاء صاحبان ہوش کے ناخن لیں اپنی تابناک تاریخ کا پاس کریں کالا کوٹ پہن کر کالے کرتوت انجام نہ دیں بلکہ کالے کوٹ کو غریبوں،مسکینوں،ناداروں اور محروم طبقے کے لئے خیر اور بھلائی کا استعارہ بنا دیں تاکہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ ،،،وکیل اور ابلیس کے رشتے ،،، والی بات حرف غلط کی طرح غلط ہے یا پھر وہ اس بات کو سچ مان لیں۔۔۔کہ جو وکیل بن گیا وہ حرمت آدمیّت اور تکریم انسانیّت کے دائروں سے خارج ہو گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :