عورت ہرروپ میں قابل تکریم وتحریم

ہفتہ 7 مارچ 2020

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

عالمی یوم خواتین (8مارچ) کے موقع پر این جی اوز کی خیرات پر پلنے والی چند خواتین نے جو خود کو حقوق نسواں کی علمبردار مانتی ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اخلاق باختہ،فحش،غلیظ اور قابل نفرت نعروں کے ساتھ عورتوں کے مساویانہ حقوق کے لئے ریلیاں نکالنے کا پروگرام بنایا ہے ان آزادی پسند عورتوں کا حقوق نسواں کے لبادے میں جو نظریہ اور فلسفہ سامنے آیا ہے وہ شرمناک، مکروہ،واہیات اور نفرت انگیز ہی نہیں بلکہ مذہب ،تہذیب،روایات اور اخلاقی اقدار کے بھی منافی ہے جس کی اسلامی معاشرے میں قطاََ کوئی گنجائش نہیں ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ یہ عورتیں کون ہیں کیا ہیں ان کا پیشہ کیا ہے ان کا کردار کیسا ہے یا وہ کس سوسائٹی سے تعلق رکھتی ہیں مگر ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ مخصوص خواتین عورت کے حقوق کی علمبردار نہیں بلکہ عورت کی ذلت و رسوائی کے درپے ہیں جس لبرل ،سیکولر اور مادر پدر آزاد معاشرے کی تقلید اور پیروی میں مذہب،روایات اور تہذیب کے قرینوں کو پاؤں تلے روند رہی ہیں وہ معاشرہ اب عورت کو کسی روپ میں بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے ماسوائے جنسی تسکین کے وہاں عورت کے نام سے منسوب ماں،بہن،بیٹی اور بیوی کے سب مقدس رشتے لبرل ازم کی دھول میں گم ہو چکے ہیں ترقی و خوشحالی کے آسمانوں کو چھوتا ہوا یہ لبرل سماج پستی کی عمیق گہرائیوں میں گرا ہوا ہے وہاں کی عورت اب ان مقدس رشتوں کی کھوج میں سرگرداں ہے اور میرے دیس میں این جی اوز کے ٹکڑوں پر پلنے والی مخلوط طرز معاشرت کی پیروی میں بے شرمی،بے حیائی،بے ہودگی اور بے غیرتی کی ہر حد کو کراس کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔

(جاری ہے)


 حقوق نسواں کے نام پر معفن اور غلاظت زدہ کتبے اٹھا کر برابری کے حقوق کا مطالبہ کرنے والی ذرا تفکر کر کہ دور جاہلیت میں تیری کیا حثیت تھی دین مبین نے تجھ کوکیا مرتبہ اور مقام عطا کیا لادین اور سیکولر معاشرے میں تیری کیا اوقات ہے ۔
 دین محمدی نے ماں،بہن،بیٹی اور بیوی کے سب مقدس رشتے تیرے نام سے منسوب کر دیے تو جب بیٹی کے روپ میں پیدا ہوئی تو باپ نے اپنی لاڈلی کی اک مسکراہٹ کے لئے اس کی ہر خواہش کو اپنی متاع حیات سے مقدم جانا ۔

بہن کے مقدس رشتے میں بھائیوں نے تیری عزت و آبر ،سلامتی اور تحفظ کو اپنا ایمان مانا بیوی کے روپ میں خاوند نے تم کو اپنی پلکوں پر بٹھا کر تیری زندگی میں خوشیوں اور مسرتوں کے سر بکھیرے اور جب تو ماں بن کر عظمت انسانی کے سب سے مقدس،معتبر اور قابل تعظیم منصب پر فائز ہوئی توتیری بیٹے اور بیٹیوں کے محبت ،پیار اور الفت کے سب قرینے اور قاعدے عقیدت میں بدل گئے اس لئے کہ خالق کائنات نے تیرے قدموں تلے جنّت رکھ دی اور تیرے خوبصورت چہرے کی زیارت کو ایک مقبول حج کا درجہ دے دیا۔


 دین اسلام کی بدولت عزت و احترام کے ہر لقب کی حقدار ٹھہرنے والی اپنے کردار سے عورت کے نام تذلیل نہ کر تیرے مذہب تیرے کلچر اور تیری تہذیب نے تجھے جو کچھ عطا کیا مغربی تہذیب میں اس کا تصور ہی نہیں۔جس کو تو نے اپنا مقصد حیات مان لیا ہے۔
 اللہ رب العزت کے احکام اور دین رسالت کی پیروی کرنے والوں کا ایمان اور عقیدہ تویہ ہے کہ۔۔
 اگربزم ہستی میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنّت نہ ہوتی
 ستاروں کے دلکش فسانے نہ ہوتے
 بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی
 جبینوں پہ نور مسرت نہ کھلتا
 نگاہوں مین شان مروت نہ ہوتی
 گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
 فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
فقیروں پہ عرفان ہستی نہ کھلتا
 عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی
 مسافر سدا منزلوں پر بھٹکتے
 سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی
ہر اک پھول کا رنگ پھیکا سا رہتا
 نسیم بہاراں میں نکہت نہ ہوتی
 خدائی کا انصاف خاموش رہتا
 سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی
 سوشل میڈیا پر ( میرا جسم میری مرضی) پر ہونے والی بحث کے بعد یہ بات روز روشن کی عیاں ہو گئی ہے کہ حقوق نسواں کی آڑ میں فحاشی،عریانی اور بے حیائی کا ناپاک ایجنڈا مہذب سماج کے لئے ناسور ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :