ہزارہ کمیونٹی کا احتجاج اور حاکم وقت کی بے حسی

ہفتہ 9 جنوری 2021

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

پچھلی ڈیڑھ دہائی سے بلوچستان میں بسنے والی ہزارہ برداری انسانی درندگی،وحشّت و بربریّت،سفاکی اور دہشت گردی کا نشانہ بن رہی ہے کبھی ان کا اجتماعی قتل عام کیا جاتا ہے کبھی ا ن کی گاڑیوں کا آگ لگا کر ان کو جلا دیا جاتا ہے کبھی ان کے کاروباری مراکز میں دھماکوں کے ذریعے ان کی زندگیاں چھین لی جاتی ہیں ہزارہ برادری کے ساتھ یہ وحشیانہ رویہ ،متشددانہ طرزعمل اسلام کے نام پر ان کے ساتھ روارکھا جا رہا ہے ہزارہ برادری کی ماؤں،بہنوں، بیٹیوں اور معصوم بچوں نے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے اس بہیمانہ سلوک کے خلاف کئی بار احتجاج کیا دھرنے دیے سینا کوبی کی مگر ہر بار ان کی صدا بے نواء ثابت ہوئی نہ کسی حکومت نے ان درد کو محسوس کیا نہ کسی ادارے نے انکے غم کا احسا س کیا اور نہ ہی ان کے رنج والم کی وسعت کو جان کر ان کے پیاروں کے قتل عام میں ملوث انسان نمابھیڑیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کمیونٹی آج بھی دہشت پسندوں کے نشانے پر ہے پچھلے ہفتہ ان کے 11پیاروں کے سر انتہائی بیدردی اور بے ررحمی سے تن سے جدا کر دئے گئے مظلومین کے لواحقین اپنے پیاروں کی میتوں کیساتھ کوئٹہ میں احتجاج کر رہے ہیں جن کا صرف مطالبہ یہ ہے کہ حاکم وقت آئے اور ان کو یہ یقین دلائے کہ آئندہ ان کے ساتھ یہ خونی کھیل نہیں کھیلا جائے گا ان کے پیاروں کا قتل عام نہیں کیا جائے گا ہزارہ برادری کو تحفظ فرا ہم کیاجائے گا ماوں کی گودیں نہیں اجڑیں گی ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں بہیں گے مگر افسوس کہ حاکم وقت اس قدر بے حس اور کٹھور ہے کہ ماوں بہنوں بیٹیوں ،بزرگوں اور بچوں کی دلدوز چیخیں بھی اس کے پتھر دل کو موم نہ کر سکیں اور وہ ابھی تک اپنے جھوٹے وعدوں کی طرح خون جما دینے والی سردی میں اپنے پیاروں کی لاشوں پر ماتم کرنے والوں سے دھوکہ اور مکاری سے مخاطب ہے۔

(جاری ہے)

دہشت گرد جب اور جہاں چاہتے ہیں ان کو اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں آج بھی ان کا اجتماعی قتل عام جاری ہے آج بھی ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں بہنوں کے بھائی قتل ہو رہے ہیں بیٹیاں باپ کی شفقت سے محروم ہو رہی ہیں حکومت ،سیکیورٹی فورسز اوربحالی امن کے دیگر ادارے یہ کہہ کر ان کے زخموں پر مرہم رکھ دیتے ہیں کہ قاتلوں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا پچھلی حکومتیں بھی ان سے یہی کہتی تھیں اور موجودہ عہد حکمرانی میں بھی ان کو یہی دلاسے دیے جا رہے ہیں کہ معصوم لوگوں کا قتل عام کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا دہشت گردوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر عبرت کا نشاں بنایا جائے گا اب کی بار بھی ماضی جیسا ہی ہوا دہشت گرد قتل عام کے بعد بلا خوف و خطر اپنی کمین گاہوں میں چلے گئے سانحہ سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ دہشت پسندی کا شکار ہونے والے بے موت مرنے کے بعد سیاسی بے رحمی کا شکار ہوگئے ہیں مسلم لیگ ن کی راہنماء محترمہ مریم نواز شریف ،بلاول بھٹو صاحب ،سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کوئٹہ پہنچے ہیں مقتولین کے وارثوں سے اظہار تعزیت کیا ہے جس کو اہل وطن نے سراہا ہے جس قتل عام پر ماتم ہونا چاہیے تھا وہ ہمیشہ کی طرح سیاست کی ہنگامہ خیزی کی وجہ سے قوم کی نظروں پھر غائب ہو جائے گا اور حکومت نئے سانحہ تک خاموش ہو جائے گی کیونکہ قوم کا اعتبار حکمرانوں سے اٹھ چکا ہے کہ پاکستانی کے سبھی سیاستدان جھوٹے ،مکار اور دھوکہ باز ہیں جب کوئی سانحہ رونماء ہوتا ہے مقتولین کے گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے اس وقت وزیر، مشیر اور حکومتی عہدیدارخواب غفلت سے بے دار ہو جاتے ہیں سارا میڈیا خونی مناظر کو پس پشت ڈال کر سیاسی کھیل کی منظر کشی میں لگ جاتا ہے یہ بے حسی کا کھیل آج سے نہیں وطن عزیز میں پچھلے پچاس سالو ں سے کھیلا جا رہا ہے اس خونی واقعہ سے پہلے بلوچستان کے کئی حصوں میں دہشت پسندانہ کاروائیاں ہوئیں بہت سے لوگ موت کی وادی میں چلے گئے اور کئی گھائل ہو کر زندگی اور موت کے بیچ لٹک گئے یہ لوگ نہ جانے کب تلک سیاست اور وحشّت کے ان بے رحم اور سفّاک تپھیڑوں کا درد سہتے رہیں گے نیوزی لینڈمیں دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سیاہ لباس پہن کر لواحقین سے اظہار افسوس کے لئے اسی جگہ مسجد میں پہنچ گئیں جس مسجد میں دہشت گرد نے نمازیوں کو اپنی دہشت پسندی کی بھینٹ چڑھایا ان کی آخری رسومات میں شرکت کی شہید ہونے والوں کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریبات میں شرکت کر کے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے ا س کے اپنے ہیں ایک ہفتے تک نیوزی لینڈ کا پرچم سر نگوں رہا اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی ایسی گھناؤنی کاروائی کو رونما نہیں ہونے دیا جائے گا مگر وطن عزیز میں تین دہائیوں سے معصوم اور بے گناہ لوگ دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں وزراء ،مشراء اور وزیر اعظم بیانات دیتے ہیں کہ دہشت گردوں کو پکڑ کر عبرت کا نشان بنایا جائے گا نہ آج تک کوئی دہشت گرد عبرت کا نشاں بنا نہ کوئی قاتل اپنی گھناؤنی کاروائیوں کی سزا پا سکا ہاں پاکستان فوج نے کچھ دہشت گردوں کی گردنیں ضرور لمبی کیں جس سے دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی مگر اس ناسور کے خاتمے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور جب تک سارے دہشت گردوں کو لٹکایا نہیں جائے گا اس وقت تک وطن عزیز میں حقیقی اور پائیدار امن کا حصول ممکن نہیں ہو سکتابلوچستان کے وزیراعلیٰ سردار جا م کمال نے کہاکہ حملہ آوروں کی تلاش جاری ہے اس طرح کے واقعات نا قابل برداشت ہیں دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نے بھی مچھ کے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے پیاروں کے غم میں نڈھال لواحقین سے کہا ہے کہ وہ میتوں کو دفنا دیں تاکہ مرحومین کی روحیں آسودگی پا سکیں پوری قوم ہزارہ برادری کے غم مین برابر کی شریک ہے اور حکومت وقت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وطن عزیز میں فساد پھیلانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی ایسے بیانات قوم برسوں سے سنتی آ رہی ہے مگر جب تک حکومتی سربراہ سیاست کے بجائے ملکی سلامتی،استحکام ،سالمیت اور قومی مفاد کو سب سے مقدم نہیں جانیں گے اس وقت تک یہ خونی کھیل جاری رہے گا۔


 پاکستانی حکمرانوں کی سیاست تو یہ ہے۔۔
 عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے ہے
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
محشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :