
مٹی کی ڈھیری
بدھ 11 دسمبر 2019

ڈاکٹر عفان قیصر
(جاری ہے)
یہ راقم القلم کے لیے زندگی کا سبق تھا، مگر میں جوان تھا،ڈاکٹری کی دھن مجھ پر سوار تھی، مجھے اس شخص کی بات سمجھ آگئی تھی، مگر دنیا کی تیزی میں یہ سب بھول گیا۔ اسی سب میں ڈاکٹر بنا،شادی ہوئی، ڈاکٹری کی ریس آگے سے آگے چلتی گئی اور دنیا کی بھی۔ وقت کٹتا گیا، میں بھی اسی شخص کی طرح دنیا کی کامیابی کے پیچھے بھاگتا رہا، پھر نجانے ایک رات ایسی آئی جس نے میری روح میں اس شخص کی کہی بات اتار دی۔ ایک رات میں نے اپنی بیٹی کو بستر پر کروٹیں بدلتے دیکھا، اہلیہ نے یہ دیکھا تو اس کے لیے دودھ بنانے لگی۔،کہنے لگی ،اس کو بھوک لگی ہے۔ میں حیران تھا کہ مجھے تو یہ احساس نہیں ہوا،بیٹی کو واقعی ہی بھوک لگی تھی۔ یہ سب کیا تھا؟عورت کے روپ میں یہ دوسری عورت ماں تھی۔ مجھے مٹی کی ڈھیری کے پاس بیٹھا وہ شخص یاد آنے لگا۔ میں نے رات کے اسی پہر اپنی والدہ کو فون کیا اور وہی صرف ہیلو آواز کے لہجے سے ہی وہ بھانپ کر بولیں،تو پریشان ہے؟ میں پریشان نہیں تھا، مجھے وہ شخص یاد آیا تھا، میں اس جیسی زندگی کی دوڑ میں داخل ہوگیا تھا، زندگی کے سلسلے بھی آگے چل نکلے تھے، مگر میں کوئی پچھتاوا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے زندگی کی تیزی نے جس جنون میں لگا دیا تھا، اس میں شاید میں بھی زندگی اور کامیابی کے طواف میں تھا، مگر مجھے رات کے ایک واقعے نے بدل دیا۔ میری زندگی میں جب ناکامی آئی، میں ٹوٹا، مجھے ایک ہی آواز نے پھر جوڑنے کا حوصلہ دیا۔میں جب گرا ،مجھے اللہ کے بعد،جو چہرا نظر آیا وہ ماں کا ہی تھا۔ اس شخص سے رات کے پہر جوانی میں ہونے والی ملاقات سے جو سیکھا، مجھے وہ قارئین تک پہچانا تھا۔ میں نے ذاتی طور پر خود بھی اس شخص کی زندگی کے سبق کو اپنے اوپر طاری کرنے میں کئی سال لیے، مگر مجھے یہ احساس وقت پر ہوگیا۔ دنیاوی جنون اور کامیابی کبھی رشتوں سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔ انسان بعض اوقات اس جنون میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ اس کو وہ رشتے بھولنے لگتے ہیں جو اسے تھام کر یہاں تک لائے ہوتے ہیں۔ بطور ڈاکٹر میں نے کئی لاکھ ڈالر جیب میں ڈالے لوگوں کو ماؤں کے وینٹیلیٹرز کے سرہانے،زاروقطار روتے دیکھا ہے۔ ایسے بھی دیکھے ہیں کہ جن کے پاس مہنگی ترین گاڑیاں ،بنگلے ہوتے ہیں، مگر ان میں رہنے کے لیے ان کے پاس سوائے نوکروں اور جانوروں کے کوئی نہیں ہوتا۔ ہم دنیا میں کھو کر،رشتوں کو بھول جاتے، پھر جب ہم اسی دنیاوی زندگی سے ٹھوکر کھاتے ہیں یا تنہا رہ جاتے ہیں تو ہمیں چیخنے سے بھی وہ آوازیں نہیں سنائی دیتیں جو ہمارا سب سے بڑا حونصلہ ہوتی ہیں۔ اپنی زندگی میں اپنے رشتوں کو وقت دیجیے، کسی ناکامی کے بغیر ،اپنی کامیابی میں ہی ان آوازو ں کے ساتھ دنیا اور کامیابی کے طواف سے نکل کر ،رشتوں کے طواف کیجیے۔ ان ہاتھوں کی قدر کیجیے ،جنہوں نے اٹھنا سیکھا ہی دعا کے لیے ہے،ان آوازوں کو نفسا نفسی کے شور میں سننے کی جہد کیجیے،جو آپ کا اصل سکون ہیں۔ مادیت کی دنیا میں اپنا قلب ڈھونڈنے کی کوشش کیجیے۔ اس سے پہلے کے رات کی تاریکی میں کسی اندھیر قبر ستان میں کوئی مٹی کی ڈھیری آپ کا صبر ہو،آپ روتے رہ جائیں اور آپ کو آپ کی ناکامی میں یاد آنے والی گود،آپ کی کامیابی میں بھی آپ کے ساتھ نہ رہے۔ مجھے اس شخص کی اس رات کا کرب جاننے میں چند سال لگے،مگر میں نے زندگی میں ہی زندگی کا یہ راز پالیا کہ اس زندگی کا سب سے بڑا سکون ان آوازوں میں ہے،جو آپ اسی زندگی کی تیزی میں کھو دیتے ہیں، پھر پچھتاوا ہوتا ہے،آنسو ہوتے ہیں اور مٹی کی ڈھیری ہوتی ہے، مگر چیخنے سے بھی وہ آوازیں دوبارہ سنائی نہیں دیتیں، رات کے آخری پہر،کسی اندھیر قبرستان کی خاموشی میں بھی نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر عفان قیصر کے کالمز
-
اس ملک کا ینگ ڈاکٹر
جمعرات 26 اگست 2021
-
خواجہ سراء کی سوچ، ایڈز اور ہم
پیر 16 اگست 2021
-
انٹرنیشنل میڈیا اور دنیا
جمعرات 29 جولائی 2021
-
شکریہ جناب گورنر پنجاب
پیر 8 فروری 2021
-
کورونا اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ٹیلی سروسز
اتوار 6 دسمبر 2020
-
خدائی سلسلے
اتوار 1 نومبر 2020
-
بیٹی
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
کویڈ 19 اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی مثالی خدمات
جمعہ 18 ستمبر 2020
ڈاکٹر عفان قیصر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.