عید کی خریداری کرتے ہوئے کورونا مت خریدیں

ہفتہ 23 مئی 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

لاک ڈاون کی وجہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر معاشی بحران پیدا ہوگیاہے۔لوگوں کے کاروبار بند رہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے ملازموں کو تنخواہ دینے کے لئے پیسوں کا بندوبست نہیں ہوپارہا۔ ایسے میں کاروباری طبقہ بڑی بے چینی کے ساتھ لاک ڈاون ختم ہونے کا انتظار کررہاتھا کیونکہ رمضان المبارک کا تیسرا عشرہ شروع ہوتے ہی عموماً عید کی خریداری کا ماحول بن جاتاہے۔


دنیا بھر میں مسلمانوں رمضان کی عبادتوں کے ساتھ ساتھ عید کیلئے ضروری اشیاء کی خریداری میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن اس مرتبہ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب بازار بند رہے،کورونا پھر بھی ختم نہ ہوااور جب لاک ڈاون ختم ہوا توعید آنے میں صرف چند دن رہ گئے ہیں۔لاک ڈاون ختم ہوتے ہی عوام نے سمجھنا شروع کردیا کہ شائد کورونا بھی ختم ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)

لوگوں نے خریداری کا ٹاسک مکمل کرنے کے لئے اندھا دھند بازاروں،مارکیٹوں کا رخ کیا، ایس او پیز کی دھجیاں اڑائیں گئیں جس کانتیجہ یہ نکلا کہ کورونا کے مریضوں کی تعداد پھر سے بڑھنے لگی۔
جب لاک ڈاون تھا تب عوام جس میں تاجر،دکاندار،گاہک اور سب شامل ہیں،یہ خواہش کرتے تھے کہ لاک ڈاون ختم کیا جائے،اس سلسلے میں سب حکومت کو یقین دہانی بھی کراتے تھے کہ ایس او پیز پر عمل کیا جائے گا۔

لیکن لاک ڈاون ختم ہوتے ہی سب عہدو پیماں بھول گئے۔ عوام جس طرح کورونا کو لائٹ لیتی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ عوام کوروناکو وباء نہیں بلکہ کھیل سمجھتی ہے،وہ یہ نہیں جانتے کہ کوروناکا کھیل موت کا کھیل ہے جس میں ہارنے پر صرف اورصرف موت ملتی ہے۔
اب تک کورونا کو کھیل سمجھنے والے موت کے منہ میں جاچکے ہیں،ان بے چاروں کو یہ بھی موقع نہیں ملا کہ وہ اس بات کی حقیقت دوسروں کو بتا سکیں کہ کورونا کھیل نہیں ایک آفت،ایک عذاب ہے۔

مجھے تو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ جس خطرناک وباء نے دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور اس تباہی کے منظر لوگ روزانہ ٹی وی،سوشل میڈیا پر دیکھتے بھی ہیں پھر بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے ہوئے کہتے ہیں کہ ''یہ سب جھوٹ ہے،کوئی کورونا ورونا نہیں ہے''۔اسی غلط فہمی میں مبتلا ہوکرلوگ جان کی بازی ہار رہے ہیں۔کورونا کی ویکسین ابھی تک نہیں دنیا میں نہیں بن سکی،اسکی تیاری کے مراحل جاری ہیں،اس پر بھی عالمی سیاست ہورہی ہے۔

سپر پاورز ایک دوسرے پر ویکسین کی تیاری کے مراحل کی چوری کے الزامات لگا رہے ہیں۔ادھر پاکستانی عوام کو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ کورونا ویکسین ہے یا نہیں بلکہ وہ تو کورونا کو ہی نہیں مانتے تبھی تو لاک ڈاون ختم ہونے پر خریداری کے لئے ایک دوسرے پر ایسے ٹوٹ پڑے ہیں جیسے شادی میں سویٹ ڈشوں پر باراتی ٹوٹتے ہیں۔مگر یہاں تو سویٹ ڈش کی بجائے کورونا پر سب ٹوٹ رہے ہیں۔

جناب اس حقیقت کو سمجھیں کورونا،کورونا ہے کوئی سویٹ ڈش نہیں۔ عید کی خریداری احتیاط سے کریں،نئے کپڑے،نئے جوتے،نئی جیولیری خریدیں لیکن خدارا خریداری کرتے ہوئے کورونا مت خریدیں۔
لوگوں نے خریداری کا عمل تو لاک ڈاون میں بھی نہیں چھوڑا،یہ خریداری انھوں نے خود مارکیٹ یا بازاروں میں جاکر نہیں کی تھی بلکہ یہ آن لائن خریداری تھی۔

یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاون کے دوران ملک میں آن لائن کاروبار کو کافی پذیرائی ملی۔اگرچہ پاکستان میں آن لائن کاروبار دنیا کے مقابلے میں دیر سے شروع ہوا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میںآ ن لائن خریداری کے رحجان میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
پاکستان کی وزارت تجارت کے ای کامرس پالیسی فریم ورک کے مطابق ملک میں آن لائن کاروبار کا رجحان دنیا کے مقابلے میں ابھی نیا ہے جس میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے تجارت اور ترقی کے ادارے کے مطابق دنیا میں آن لائن کاروبار کا حجم ساڑھے پچیس ٹریلین ڈالر سے زائد ہے اور دنیا کی ایک چوتھائی آبادی آن لائن شاپنگ کے ذرائع استعمال کرتی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق دنیا میں آن لائن کاروبار اور شاپنگ کے رجحان میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس میں کورونا وائرس کی وجہ سے سماجی دوری مزید اضافہ کرے گی۔

پاکستان میں آن لائن سروس کا رحجان بھی بڑھ گیا ہے۔اب آپکو آن لائن کپڑے،جوتے،جیولری،کھانے پینے کی اشیاء حتیٰ کہ آن لائن درزی،مکینک،پلمبر،الیکٹریشن وغیرہ کی سروس بھی باآسانی دستیاب ہیں یہاں تک کے اب تعلیم کے شعبے میں ایک نئے دور کا آغاز بھی ہونے جارہا ہے۔
آن لائن ایجوکیشن کی افادیت لاک ڈاون کے دوران ظاہر ہوچکی ہے جس کو یقینا حکومت فروغ دے گی۔اس کے علاوہ آن لائن دفاتری میٹنگز،صحت کے شعبے میں آن لائن مریضوں کا چیک اپ،رہنمائی کے علاوہ آن لائن آپریشن بھی جدید دور کے کارنامے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :