ترقی اورخوشحالی کا نیاسال

پیر 11 جنوری 2021

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

موجودہ حکومت نے نئے سال کو ترقی اور خوشحالی کا سال قرار دیا ہے ۔پچھلے سال کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت،تعلیم اور دیگر شعبوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جس کی بحالی کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اگر موازنہ کیا جائے تو حکومت کے بروقت ہنگامی اقدامات کی بدولت معیشت کو اس قدر نقصان نہیں پہنچا جس قدر دنیا کے دیگر ممالک کو پہنچا ہے۔

کورنا وباء کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے تعمیرات کے شعبے کو فروغ دینے کے لئے کئی مراعات دیں جس کے بعد ملک میں تعمیرات کا عمل تیز ہوگیا اس طرح لوگوں کو روزگار بھی ملا اور معیشت کی بحالی میں مدد بھی حاصل ہوئی۔معیشت کی بحالی کے لئے سب سے ضروری یہی تھا کہ ملک میں تمام شعبوں کی صنعتوں کو فروغ دیا جائے انھیں مراعات دی جائیں اور اس شعبے میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے۔

(جاری ہے)

اگر ہم بات کریں آٹو موٹیو انڈسٹری (کاروں کی صنعت) کی ،تو اس شعبے کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ آج تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس شعبے سے وابستہ صنعتیں خودمینوفیکچرنگ(تیاری)کررہی ہیں یا صرف تیار شدہ پارٹس باہرسے منگوا کر اس کی اسمبلنگ کررہی ہے۔
جب کسی نے نئی گاڑی لینی ہوتواس کے لئے بکنگ کرانا پڑتی ہے۔نئی کار وصول کرتے کرتے ایک سے دو ماہ لگ جاتے ہیں لیکن اگرموقع پر کار لینی ہو تو کار کی اصل قیمت سے زائد رقم ادا کرنا پڑتی ہے جسے پریمئیم یا آن منی کہتے ہے ۔

آن منی کی رقم ایک لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ مختلف ماڈلز کی کاروں کی آن کی رقم مختلف ہوتی ہے۔کار کی اصل رقم سے زائد رقم(آن منی) دینے کی سب سے بڑی وجہ کاروں کی پیداوار میں کمی ہے حالانکہ کورونا کے باوجود کاروں کی طلب میں اضافہ ہوا لیکن طلب کے مقابلے میں پیداوار کم ہے جس کی بنیادی وجہ ملک میں کاروں کی مینوفیکچرنگ(تیاری) کی بجائے اس کے پارٹس منگوا کر اس کی اسمبلنگ کی جاتی ہے۔

کار ڈیلرزکی بکنگ کومدنظر رکھتے ہوئے پارٹس درآمد کئے جاتے ہیں بعد میںان پارٹس کواسمبلڈ کرکے کسٹمر کو کار کی ڈیلیوری دے دی جاتی ہے ۔اگر ملک کے اندر مکمل طور پر کاروں کی مینوفیکچرنگ شروع ہوجائے تو اس سے نہ صرف معیشت کی بحالی میں مدد ملے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہونگے۔آن منی کے رحجان کو فروغ دینے میں ان لوگوں کا بھی ہاتھ ہے جو فوری کار حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک اضافی رقم د ینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔

حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے کاروں کی پیداوار سے متعلق رپورٹ طلب کی ہے ۔نئی گاڑیوں کی خریداری کے عمل کو ریگولیٹ کرنے کے لئے پچھلے سال اپریل میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔ایک عرصہ کے بعد اس شعبے کی جانب توجہ دی جارہی ہے جس کے بعد عوام پرامید ہیں کہ اب اس شعبے میں سالہا سال سے قائم اجارہ داری کا خاتمہ ہوسکے گا۔
مینو فیکچرنگ اور اسمبلنگ کا کھیل صرف گاڑیوں کی صنعت میں ہی نہیں بلکہ دیگر گھریلو الیکٹرانکس میں بھی کھیلا جارہا ہے۔

ملک میں بہت سی کمپنیاں جو مینوفیکچرنگ کا دعویٰ کرتی ہیں حقیقیت میں وہ مینوفیکچررز ہیں ہی نہیں بلکہ ان کا کام پارٹس منگوا کر انھیں جوڑنا اور پھر مارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کردینا ہے۔اگر گاڑیاں ،موبائل ،اے سی اور دیگر اہم گھریلو استعمال کی الیکٹرانکس ملکی سطح پر تیار ہونگی تو ایک تو ان کی قیمت میں واضح کمی ہوگی ،دوسرا پیداواری صلاحیت بڑھے گی اور طلب کا توازن برقرا ہوگا اور سب سے بڑھ کر روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔

گاڑیوں سمیت کسی بھی الیکٹرانکس کی اشیاء کی قیمتوں میں تب تک کمی ممکن نہیں جب تک کے ان کی تیاری ملکی یا مقامی سطح پر نہ ہوجائے۔پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین سمیت دیگر کئی ممالک کی بہت سی کمپنیاں اب بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہشمند ہیںلیکن ان نئی کمپنیوں کو بہترمواقع نہیں مل رہے ،شائد پہلے سے موجود کمپنیاں ان کو جگہ بنانے نہیں دے رہیں۔حکومت کو چاہیئے کہ ایسے اقدامات کرے جس سے ملکی سطح پرپیداواری صلاحیت بڑھے۔غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ مینوفیکچرنگ ملکی سطح پر ہو اور صرف ان پارٹس کو درآمد کیا جائے جو بہت ضروری ہوں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :