
ترقی اورخوشحالی کا نیاسال
پیر 11 جنوری 2021

ڈاکٹر جمشید نظر
(جاری ہے)
جب کسی نے نئی گاڑی لینی ہوتواس کے لئے بکنگ کرانا پڑتی ہے۔نئی کار وصول کرتے کرتے ایک سے دو ماہ لگ جاتے ہیں لیکن اگرموقع پر کار لینی ہو تو کار کی اصل قیمت سے زائد رقم ادا کرنا پڑتی ہے جسے پریمئیم یا آن منی کہتے ہے ۔آن منی کی رقم ایک لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ مختلف ماڈلز کی کاروں کی آن کی رقم مختلف ہوتی ہے۔کار کی اصل رقم سے زائد رقم(آن منی) دینے کی سب سے بڑی وجہ کاروں کی پیداوار میں کمی ہے حالانکہ کورونا کے باوجود کاروں کی طلب میں اضافہ ہوا لیکن طلب کے مقابلے میں پیداوار کم ہے جس کی بنیادی وجہ ملک میں کاروں کی مینوفیکچرنگ(تیاری) کی بجائے اس کے پارٹس منگوا کر اس کی اسمبلنگ کی جاتی ہے۔کار ڈیلرزکی بکنگ کومدنظر رکھتے ہوئے پارٹس درآمد کئے جاتے ہیں بعد میںان پارٹس کواسمبلڈ کرکے کسٹمر کو کار کی ڈیلیوری دے دی جاتی ہے ۔اگر ملک کے اندر مکمل طور پر کاروں کی مینوفیکچرنگ شروع ہوجائے تو اس سے نہ صرف معیشت کی بحالی میں مدد ملے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہونگے۔آن منی کے رحجان کو فروغ دینے میں ان لوگوں کا بھی ہاتھ ہے جو فوری کار حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک اضافی رقم د ینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے کاروں کی پیداوار سے متعلق رپورٹ طلب کی ہے ۔نئی گاڑیوں کی خریداری کے عمل کو ریگولیٹ کرنے کے لئے پچھلے سال اپریل میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔ایک عرصہ کے بعد اس شعبے کی جانب توجہ دی جارہی ہے جس کے بعد عوام پرامید ہیں کہ اب اس شعبے میں سالہا سال سے قائم اجارہ داری کا خاتمہ ہوسکے گا۔
مینو فیکچرنگ اور اسمبلنگ کا کھیل صرف گاڑیوں کی صنعت میں ہی نہیں بلکہ دیگر گھریلو الیکٹرانکس میں بھی کھیلا جارہا ہے۔ملک میں بہت سی کمپنیاں جو مینوفیکچرنگ کا دعویٰ کرتی ہیں حقیقیت میں وہ مینوفیکچررز ہیں ہی نہیں بلکہ ان کا کام پارٹس منگوا کر انھیں جوڑنا اور پھر مارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کردینا ہے۔اگر گاڑیاں ،موبائل ،اے سی اور دیگر اہم گھریلو استعمال کی الیکٹرانکس ملکی سطح پر تیار ہونگی تو ایک تو ان کی قیمت میں واضح کمی ہوگی ،دوسرا پیداواری صلاحیت بڑھے گی اور طلب کا توازن برقرا ہوگا اور سب سے بڑھ کر روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔گاڑیوں سمیت کسی بھی الیکٹرانکس کی اشیاء کی قیمتوں میں تب تک کمی ممکن نہیں جب تک کے ان کی تیاری ملکی یا مقامی سطح پر نہ ہوجائے۔پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین سمیت دیگر کئی ممالک کی بہت سی کمپنیاں اب بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہشمند ہیںلیکن ان نئی کمپنیوں کو بہترمواقع نہیں مل رہے ،شائد پہلے سے موجود کمپنیاں ان کو جگہ بنانے نہیں دے رہیں۔حکومت کو چاہیئے کہ ایسے اقدامات کرے جس سے ملکی سطح پرپیداواری صلاحیت بڑھے۔غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ مینوفیکچرنگ ملکی سطح پر ہو اور صرف ان پارٹس کو درآمد کیا جائے جو بہت ضروری ہوں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر جمشید نظر کے کالمز
-
محبت کے نام پر بے حیائی
بدھ 16 فروری 2022
-
ریڈیو کاعالمی دن،ایجاد اور افادیت
منگل 15 فروری 2022
-
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاک فوج کی کارروائیاں
جمعرات 10 فروری 2022
-
کشمیری شہیدوں کے خون کی پکار
ہفتہ 5 فروری 2022
-
آن لائن گیم نے بیٹے کو قاتل بنا دیا
پیر 31 جنوری 2022
-
تعلیم کا عالمی دن اور نئے چیلنج
بدھ 26 جنوری 2022
-
برف کا آدمی
پیر 24 جنوری 2022
-
اومیکرون،کورونا،سردی اور فضائی آلودگی
جمعہ 21 جنوری 2022
ڈاکٹر جمشید نظر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.