چڑیل کا سایہ اور مائیکل کی تحقیق

منگل 26 اکتوبر 2021

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

بچپن میں اکثر ہم سنتے تھے کہ چڑیل کے پاوں مُڑے ہوتے ہیں لیکن کبھی بھی کسی نے مُڑے ہوئے پاوں والی چڑیل نہیں دیکھی تھی۔جب بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ مُڑے ہوئے ہاتھ پاوں والی چڑیلیں صرف کہانیوں میں ہی پڑھنے کو ملتی ہیں یا پھر ہارر فلموں میں خوبصورت لڑکیوں کے مُڑے ہوئے پاوں دکھا کر انھیں چڑیل کا گیٹ اپ دیا جاتا ہے۔آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہوگی کہ قدیم دور میں جب کسی بچے یا بڑے کے ہاتھ یا پاوں مُڑ جاتے توکہا جاتا کہ اس پر چڑیل کا سایہ ہے،کچھ توہم پرست اسے خدا کا قہر بتا کر دوسروں کو ڈراتے رہتے تھے لیکن کبھی بھی کسی نے یہ بات جاننے کی کوشش نہ کی کہ ایک نارمل انسان کے ہاتھ اور پاوں اچانک کیوں مُڑ گئے اور وہ کیسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معذور ہوگیا؟ عرصہ دراز تک لوگ اس عجیب کیفیت کے متعلق توہم پرستی پر مبنی مختلف قیاس آرائیاں پیش کرتے رہے لیکن حتمی نتیجہ کوئی بھی اخذ نہ کرسکا۔

(جاری ہے)

آخرسن 1783   ء میں ایک برطانوی طبیب ”مائیکل انڈرووڈ“ نے بچوں اور بڑوں کے ہاتھ،پاوں مُڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی اس کیفیت پر تحقیق کی تواِس معذوری کوچڑیل کا سایہ یا خدا کا قہر قرار دینے کی بجائے اسے ایک بیماری قرار دیا۔اس دور میں مائیکل کی نئی تحقیق لوگوں کے لئے حیران کن تھی اس لئے کسی نے بھی اس کی تحقیق کو تسلیم نہ کیاحتیٰ کہ دیگر اطباء بھی عام لوگوں کی طرح اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ اچانک ہاتھ،پاوں کا مُڑجانا ایک بیماری ہے لیکن حقیقت میں برطانوی طبیب مائیکل انڈرووڈ کی تحقیق بالکل صحیح تھی،اس کی بات کو چاہے اس وقت تسلیم نہ کیا گیا ہو لیکن 51سال بعد دنیا کو ماننا ہی پڑا کہ مائیکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔

مائیکل کی تحقیق پر وقت کے ساتھ ساتھ مزید تحقیق و تجربات کا سلسلہ جاری رہا اور باالآخر سن 1840 میں آرتھوپیڈسٹ”جیکب ہیین“ نے  ہاتھ،پاوں مُڑنے کی کی اس کیفیت کو ایک بیماری کے طور پر تسلیم کرہی لیا جس کے بعد دنیا کو معلوم ہوا کہ کسی انسان کی اس طرح کی حالت،بھوتوں،چڑیلوں کاسایہ کہلانے کی بجائے ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہونے کی علامت ہے۔

اس بیماری کو پولیو کا نام دیا گیا۔
پولیو کاانگریزی نام ”Poliomyelitis“ ہے یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتی ہے۔جدید تحقیق کے مطابق پولیواعصاب کو کمزور کرنے والی ایک لاعلاج بیماری ہے جو بچوں میں عام ہے لیکن بالغ افراد بھی اس کا شکار بن سکتے ہیں۔ پولیو کا وائرس متاثرہ شخص کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں فالج ہوجاتا ہے۔

پولیو سے متاثر ہونے والے ہر 200  افراد میں سے ایک فرد ٹانگوں کے فالج میں مبتلا ہوجاتا ہے جبکہ فا لج کا شکار ہونیوالوں میں سے 5  سے 10 فی صد افراد کے سانس کے پٹھوں کی حرکت اس مہلک وائرس کی وجہ سے بند ہوجاتی ہے اور مریض چند لمحوں میں موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اسی لئے پولیو کوایک سنگین اور ممکنہ طور پر مہلک متعدی بیماری کہا جاتا ہے۔
تاریخ میں کورونا کی طرح پولیو کی بیماری بھی بڑی جان لیوا ثابت ہوئی ہے۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس بیماری کی وجہ سے ایک دن میں ایک ہزار بچے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معذور ہوگئے۔جب  1916 ء  میں نیویارک میں پولیو کی وباء پہلی مرتبہ پھیلی تو اس کے نتیجہ میں دو ہزار تین سو تینتالیس اموات ہوئیں جبکہ امریکہ میں چھ ہزار افراد پولیو کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ پولیو کے سب سے زیادہ کیسز کی تعداد سن 1988 ء میں رپورٹ ہوئی جب تقریبا ساڑھے تین لاکھ افراد پولیوسے متاثر ہوئے۔


1916 ء سے 1951 ء تک پولیو کی وباء سے دنیا بھر میں ہلاکتیں ہوتی رہیں، اس دوران سائنس دان اور ماہرین پولیو کی ویکسین بنانے کی کوشش کرتے رہے اور بالاخر 1952 ء میں ڈاکٹر”جوناس سالک“ نے پولیو کی پہلی موثر ویکسین بنالی۔لوگوں میں و یکسی نیشن کا عمل شروع کرنے کے ساتھ ساتھ ویکسین میں مزید بہتری کے لئے تحقیق کا عمل بھی جاری رکھا گیا۔1961 ء میں البرٹ سبین نے پولیو ویکسین میں جدت پیدا کرتے ہوئے زیادہ آسانی سے دی جانے والی ویکسین  OPV  تیار کی۔

یہ ویکسین مائع شکل میں بنائی گئی تھی جس کے چند قطرے پینے سے بچوں کوپولیو سے محفوط رکھنے میں مدد ملتی ہے۔1962 ء سے لے کر اب تک پولیو کی ویکسین کی باآسانی دستیابی کے باوجود اس بیماری کا ابھی تک دنیا سے مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوسکا۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اب یہ بیماری دنیا کے صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان میں پائی جاتی ہے۔پاکستان کو پولیو فری زون بنانے اور اپنے بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے کے لئے والدین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں،انھیں چاہیے کہ پولیو سے بچاو کی مہم کے دوران اپنے بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے ضرور پلوائیں تاکہ روشن اور صحت مند پاکستان کی بنیادوں کو مزید مضبوط بنایا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :