
پاک سعودی تعلقات کی نزاکت
بدھ 26 اگست 2020

ڈاکٹر لبنی ظہیر
ابھی ایک اور سنگین مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جس کا تعلق ہمارے عظیم برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے ہے۔
(جاری ہے)
موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی اس طرح کی صورتحال پید اہوئی تھی جب ابھی ہم نے آئی۔ایم۔ایف سے رجوع نہیں کیا تھا اور سعودی عرب سے مدد کی امید باندھی تھی۔ اس امید کے پورا ہونے میں قدرے تاخیر ہوئی، تو اس وقت بھی ایک وزیر صاحب نے خفگی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم عمران خان نے ذاتی طور پر تعلقات کی بہتری کیلئے کوشش کی۔ ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان تشریف لائے تو اظہار محبت اور خیر سگالی کے طور پر وزیر اعظم نے نہ صرف ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا بلکہ خود ان کی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاوس لائے۔ مالی پیکج اور ادھار تیل کی فراہمی کے علاوہ سعودی حکومت نے گوادر میں بڑی سرمایہ کاری کا عہد بھی کیا۔
اب یکایک ایسا کیا ہوا کہ ہمارے باہمی تعلقات میں تلخی آگئی؟ یہاں تک کہ آرمی چیف کو ڈی۔جی۔آئی۔ایس ۔آئی کے ہمراہ سعودی عرب جا کر معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کرنا پڑی۔ بظاہر یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے وزیر خارجہ صاحب کو کشمیر کے حوالے سے اسلامی کانفرنس تنظیم کی خاموشی اور غیر فعالیت پر غصہ آیا اور انہوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہہ دیا کہ اگر سعودی عرب، کشمیر پر اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس یقینی نہیں بناتا تو پاکستان ایک متبادل بلاک کی طرف دیکھے گا۔ ظاہر ہے کہ سعودی عرب اس متبادل بلاک کے بارے میں شدید جذبات رکھتا ہے جسکی وجہ سے پاکستان ، وعدہ کر کے بھی اس بلاک کے اجلاس میں نہیں جا سکا تھا۔ سو اس بیان کو سعودی عرب نے شدت سے محسوس کیا۔ کچھ رقم واپس لے گئے۔ تیل کی سہولت میں رکاوٹ آئی۔ پاکستان میں تقریبا نو برس تک ایک انتہائی اہم سعودی سفیر عوارض العصیری (یقینا سعودی حکومت کے ایما پر) ایک طویل مضمون لکھا جس میں تجربہ کار سفارت کار نے توازن برقرار رکھنے کی تو بہت کوشش کی لیکن سعودی حکومت کی ناراضگی صاف جھلک رہی تھی۔
توقع ہے کہ فوجی قیادت کے حالیہ دورے کے بعد معاملات میں بہتری آچکی ہو گی کیوں کہ اسی میں دونوں ممالک کا مفاد ہے۔ جہاں سعودی عرب نے دکھ سکھ میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ وہاں پاکستان نے بھی حرمین شریفین کی سرزمین کیلئے دفاع اور تحفظ کو پاکستان کے دفاع اور تحفظ سے کم نہیں سمجھا۔ آج بھی ہماری مسلح افواج کے دستے اس مشن کیلئے وہاں موجود ہیں۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے ہمیں بجا طور پر اپنے دوستوں سے امید ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔ بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی کھل کر مذمت کریں۔ نہتے کشمیریوں کے قتل عام کا نوٹس لیں۔ لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی ضرور جھانکنا چاہیے۔ تہتر برس ہو گئے۔ ہم کشمیر کے حوالے سے صرف تین الفاظ کی گردان کر رہے ہیں۔۔۔۔ "سفارتی، سیاسی، اخلاقی" امداد۔ ایک سال پہلے بھارت نے آئینی تحفظ دور کر کے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیالیکن ہم دنیا کو نہیں ہلا سکے۔ یہاں تک کہ اس سانحے کے بعد جب سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے انتخاب کی باری آئی تو ہم نے رسمی احتجاج بھی نہ کیا اور بڑے شوق سے اپنا ووٹ بھارت کو دے دیا۔ کم از کم اتنا تو کہا ہی جا سکتا تھا کہ تازہ بھارتی اقدام کی وجہ سے ہم اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ دنیا کے کان تو کھڑے ہوتے کہ بھارت نے ایسا کیا کیا ہے۔مگر ہم نے اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ہاں کشمیر جیسے اہم معاملے پر بھی سیاست ہوتی رہی ہے ۔2016 میں ترک صدر رجب طیب اردگان پاکستان تشریف لائے تھے۔ برہان وانی کی شہادت اور کشمیر میں اٹھنے والی مظالم کی ایک نئی لہر کے تناظر میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلوایا گیا تھا۔ ترک صدر نے اس مشترکہ اجلاس سے خطاب فرمایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان سے یکجہتی کا تاثر جاتا۔ بھارت کو یہ پیغام ملتا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی قوم میں کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں۔لیکن اس وقت تحریک انصاف نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ بھارتی میڈیا اس پر خوشی کے شادیانے بجاتا رہا ۔بھارتی اخبارات میں بڑی بڑ ی سرخیاں لگیں کہ پاکستانی پارلیمان کشمیر کے مسئلہ پر یکسو نہیں، بلکہ تقسیم(divided) ہے۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر پر ہم ضرور اپنی پالیسی کو مضبوط بنائیں۔ لیکن سعودی عرب جیسے دوست ملکوں کو اپنے ساتھ رکھنے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے ہمیں ذیادہ بہتر حکمت عملی بنانا ہو گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.