نیک خواہشات افغانستان کا حق اور عالمی ذمہ داری ہے

جمعہ 20 اگست 2021

Dr Obaid Ali

ڈاکٹر عبید علی

خطرناک راستوں پر اطمینان اور  امید بلا کی تھی۔ اسکا محور نہ جانے کس پر کامل یقین تھا ۔ مگر غضب کا تھا۔ نہ سکون کی دوائیاں کھائیں گئیں اور نہ ہی بکتر بند میں سوار خصوصی بلٹ پروف زیب تن کیے ہوئے غول کے غول نظر آئے۔ مجھے وہ وقت یاد ہے کہ کہا جاتا تھا ان جدید ہتھیاروں سے لیس فوجیوں سے دو سو میٹر دور رہیں اور بیس میٹر کبھی قریب نہ ائیں کیونکہ یہ اعصابی تناؤ میں رہتے ہیں  اور کسی پر بھی کسی بھی وقت گولی چلا سکتے ہیں۔

بے تحاشا ایسے واقعات بدنصیب افغانستان نے دیکھے بھی۔ کوئ بھی ایام دیکھیں، کہیں بے گور و کفن لاشوں پر پرندے چونچ مارتے تھے کہیں پیارے انھیں سڑتا دیکھتے تھے ۔ اذیت ناک ظلم کسی نہ کسی شکل میں اس زمین پر رواں ہی رہا۔  عجیب تاریخ کا ستم ہے کہ دوسروں کی جنگوں میں افغانستان کے باشندوں کو ہر قسم کا ناقابل تلافی خون آلود نقصان اٹھانا پڑا۔

(جاری ہے)


آج کے افغانستان کی تقریبا 75 فیصد آبادی 2001 سے پہلے نہیں تھی۔ اس ابادی نے خواتین پر پابندی، انٹرنیٹ کے بغیر کی دنیا، اسکولوں پہ حملے، خواتین کی بے حرمتی، نظریات پر مرنا، بھوکے لڑنا، روایات پر جان دینا نہیں دیکھا ہے۔ انکی زندگی ماضی کے برعکس ہے۔ یہ انسانی المیہ بھی ہے اور خوش آئند بھی۔ میں محتاط ہوں لیکن ناقابل یقین حد تک امید نظر آتی ہے کہ یہ طالبان کی ایک نئی نسل ہے اور زیادہ لچک کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے آگاہ ہے۔

انھیں بہت اچھی طرح ادراک ہے کہ انکی تنہا قبائلی پرواز کا نہ کوئ مستقبل ہے اور نہ دنیا میں اسکی کوئ جگہہ۔ وہ گہری آگاہی رکھتے اور یہ سیکھ چکے کہ آراؤں میں اور خواہشوں میں تضاد کے ساتھ کیسے قومیں خوش و خرم  جیتی ہیں۔ ہر ٹی وی پر خواتین کی موجودگی اور غیر مردوں سے انکی ٹی وی پہ بات چیت طالبان کی پختگی اور حیرت انگیز حکمت عملی کا پتہ دے رہی ہے۔

پڑوسی اور علاقائی طاقتیں اس رویے سے کئی قدم آگے بڑھ کر افغانستان کے ساتھ چل سکتی ہیں۔ عالمی برادری کے پاس طالبان کے گہرے پیوستہ اور سرائیت شدہ خیالات کے انگڑائ لینے کا دل سے استقبال کے علاوہ کوئ دوسرا راستہ نظر نہیں اتا۔ لگتا ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ یہ کئی دھائ کے زخمی ہیں۔ یہ خواتین کو مرکزی حکومت میں فعال جگہہ دے رہے ہیں۔

ان کی آزادی کا احترام کر رہے ہیں۔ یہ عام معافی اور جنگ بندی کے وعدے کی پاسداری کر رہے ہیں۔ یہ نازک وقت ہے۔ وقت ضائع نہ کیا جائے، علاقائ ممالک آگے بڑھیں، ساتھ رہنے اور آگے بڑھنے کے کلیے طے کریں۔ اس پر رضامندی کریں۔ یاد رکھیں کہ علاقائ سرداروں میں سارے عیب ختم نہیں ہوئے وہ لالچی بھی ہیں اور متبادل ذرائع کے نہ ملنے تک اپنے حصہ میں گہری دلچپسی نہیں چھوڑیں گے ۔

وہ خون خرابہ کے عادی اور شوقین ہیں۔
دوسری طرف، ہمیں انتظار کرنا پڑے گا گرد وغبار کے بیٹھنے تک، مطلع کو صاف ہونے تک، گرم جوشی کو سرد ہونے تک اور دیکھنا پڑے گا کہ مشکلات نے انھیں کتنا سمجھدار کردیا ہے کیونکہ ابھی بھی وہ انتخابات پر یا کسی متفقہ قانون پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا عالمی نظریہ ویسا ہی ہے۔ ان کی شریعت ان کی اپنی ہے۔ وہ طاقت کے ذریعے قبضے کے لیے اپنی حکمرانی کے مقروض ہیں، اس لیے وہ حکمرانی کے کسی اور طریقہ سے عملی واقفیت نہیں رکھتے۔

کیا وہ واقعی الیکشن کرائیں گے؟ افغانستان کی نئی نسل ہم سب کیطرح اتنے "اچھے مسلمان" نہیں ہیں ان کے ذہن میں کیا خیالات جڑ پکڑیں گے یہ فیصلہ سازی میں کیسے حصہ لیں گے؟ انھیں کیا امید ہے یہ یہ امید کتنا اور کیسے رکھتے ہیں؟ کیا وہ واقعی افرادی قوت کی 40 فیصد خواتین کو معاشرے کا پیداواری حصہ بننے دیں گے؟ ان سوالات کے جوابات تک انھیں بھرپور عالمی و علاقئ سہارے کی ضرورت ہے۔


گزشتہ 20 سال میں آگے بھاگتی ہوئ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ثقافت میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں بے پناہ تبدیلی ہے۔ طالبان کو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا۔ اب ان کے پاس پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارت کے فروغ کے مواقع ہیں۔ یہ مقابلہ کی دنیا ہے۔ امید ہے کہ نئی نسل اسے جانتی ہے۔ انہیں خوب ادراک ہے کہ وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہماری ڈھیر ساری تمنائیں اور دعائیں انسانوں کی خوشحالی، ترقی، خیر و خوبی کیلئے محدود ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :