
نیک خواہشات افغانستان کا حق اور عالمی ذمہ داری ہے
جمعہ 20 اگست 2021

ڈاکٹر عبید علی
(جاری ہے)
آج کے افغانستان کی تقریبا 75 فیصد آبادی 2001 سے پہلے نہیں تھی۔ اس ابادی نے خواتین پر پابندی، انٹرنیٹ کے بغیر کی دنیا، اسکولوں پہ حملے، خواتین کی بے حرمتی، نظریات پر مرنا، بھوکے لڑنا، روایات پر جان دینا نہیں دیکھا ہے۔ انکی زندگی ماضی کے برعکس ہے۔ یہ انسانی المیہ بھی ہے اور خوش آئند بھی۔ میں محتاط ہوں لیکن ناقابل یقین حد تک امید نظر آتی ہے کہ یہ طالبان کی ایک نئی نسل ہے اور زیادہ لچک کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے آگاہ ہے۔ انھیں بہت اچھی طرح ادراک ہے کہ انکی تنہا قبائلی پرواز کا نہ کوئ مستقبل ہے اور نہ دنیا میں اسکی کوئ جگہہ۔ وہ گہری آگاہی رکھتے اور یہ سیکھ چکے کہ آراؤں میں اور خواہشوں میں تضاد کے ساتھ کیسے قومیں خوش و خرم جیتی ہیں۔ ہر ٹی وی پر خواتین کی موجودگی اور غیر مردوں سے انکی ٹی وی پہ بات چیت طالبان کی پختگی اور حیرت انگیز حکمت عملی کا پتہ دے رہی ہے۔ پڑوسی اور علاقائی طاقتیں اس رویے سے کئی قدم آگے بڑھ کر افغانستان کے ساتھ چل سکتی ہیں۔ عالمی برادری کے پاس طالبان کے گہرے پیوستہ اور سرائیت شدہ خیالات کے انگڑائ لینے کا دل سے استقبال کے علاوہ کوئ دوسرا راستہ نظر نہیں اتا۔ لگتا ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ یہ کئی دھائ کے زخمی ہیں۔ یہ خواتین کو مرکزی حکومت میں فعال جگہہ دے رہے ہیں۔ ان کی آزادی کا احترام کر رہے ہیں۔ یہ عام معافی اور جنگ بندی کے وعدے کی پاسداری کر رہے ہیں۔ یہ نازک وقت ہے۔ وقت ضائع نہ کیا جائے، علاقائ ممالک آگے بڑھیں، ساتھ رہنے اور آگے بڑھنے کے کلیے طے کریں۔ اس پر رضامندی کریں۔ یاد رکھیں کہ علاقائ سرداروں میں سارے عیب ختم نہیں ہوئے وہ لالچی بھی ہیں اور متبادل ذرائع کے نہ ملنے تک اپنے حصہ میں گہری دلچپسی نہیں چھوڑیں گے ۔ وہ خون خرابہ کے عادی اور شوقین ہیں۔
دوسری طرف، ہمیں انتظار کرنا پڑے گا گرد وغبار کے بیٹھنے تک، مطلع کو صاف ہونے تک، گرم جوشی کو سرد ہونے تک اور دیکھنا پڑے گا کہ مشکلات نے انھیں کتنا سمجھدار کردیا ہے کیونکہ ابھی بھی وہ انتخابات پر یا کسی متفقہ قانون پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا عالمی نظریہ ویسا ہی ہے۔ ان کی شریعت ان کی اپنی ہے۔ وہ طاقت کے ذریعے قبضے کے لیے اپنی حکمرانی کے مقروض ہیں، اس لیے وہ حکمرانی کے کسی اور طریقہ سے عملی واقفیت نہیں رکھتے۔کیا وہ واقعی الیکشن کرائیں گے؟ افغانستان کی نئی نسل ہم سب کیطرح اتنے "اچھے مسلمان" نہیں ہیں ان کے ذہن میں کیا خیالات جڑ پکڑیں گے یہ فیصلہ سازی میں کیسے حصہ لیں گے؟ انھیں کیا امید ہے یہ یہ امید کتنا اور کیسے رکھتے ہیں؟ کیا وہ واقعی افرادی قوت کی 40 فیصد خواتین کو معاشرے کا پیداواری حصہ بننے دیں گے؟ ان سوالات کے جوابات تک انھیں بھرپور عالمی و علاقئ سہارے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ 20 سال میں آگے بھاگتی ہوئ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ثقافت میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں بے پناہ تبدیلی ہے۔ طالبان کو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا۔ اب ان کے پاس پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارت کے فروغ کے مواقع ہیں۔ یہ مقابلہ کی دنیا ہے۔ امید ہے کہ نئی نسل اسے جانتی ہے۔ انہیں خوب ادراک ہے کہ وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہماری ڈھیر ساری تمنائیں اور دعائیں انسانوں کی خوشحالی، ترقی، خیر و خوبی کیلئے محدود ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر عبید علی کے کالمز
-
نیک خواہشات افغانستان کا حق اور عالمی ذمہ داری ہے
جمعہ 20 اگست 2021
-
بحر الکاہل پار کرنے کے دوران استنبول کے چار دن
ہفتہ 31 جولائی 2021
-
مغربی رفقا کے ساتھ کیکڑوں کی دعوت اور کالج پارک
بدھ 28 جولائی 2021
-
واشنگٹن مونٹریال اور مونٹریال نیویارک ۔ جب دو لاکھ کا خرچہ 12 گھنٹے میں 15 ہزار کا ہوگیا
پیر 26 جولائی 2021
-
بیرون ملک سفر اور اجازت نامہ
پیر 19 جولائی 2021
-
آہ اے کیو جاوید
پیر 8 فروری 2021
-
آنکھیں بند کریں اور منظر دیکھیں
جمعہ 18 دسمبر 2020
-
سولی پہ اٹکی جان (کوت تو جاسی ۔۔ ایت تی جاسی)
بدھ 16 دسمبر 2020
ڈاکٹر عبید علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.