آنکھیں بند کریں اور منظر دیکھیں‎

جمعہ 18 دسمبر 2020

Dr Obaid Ali

ڈاکٹر عبید علی

یہ 1970 ہے۔ دن کی روشنی میں، پیاروں کی خون میں لت پت تڑپتی لاشوں کے درمیان، زندگی کے لیے ڈور لگانے والی پندرہ سالہ بچی پھسل کر گر نے پر، بےبس و بےیار و مدگار سسکنے لگی۔ گولیوں اور پیاروں کے درد و خوف سے چیختی چلاتی کی آوازوں نے پہلے ہی دماغ منجمد اور کان بند کر دییے تھے۔ رحم کسی کو نہیں ایا مگر انھوں نے گولی یا برچھی چلانے کے بجائے اسے غسل خانے میں بند کر کے چلے گئے۔

اس سہمی بچی پر کپکپاہٹ اور غشی طاری تھی۔ نیم مردہ بچی رات کے کسی وقت گھسیٹ کر ڈھاکہ کے کسی بیابان دیہات لے جائ گئی۔زندگی چٹان سے زیادہ وزنی تھی۔ بے رحمی سے بیگار لیا جانے لگا۔ نہ دکھ سننے والا کوئ تھا۔ نہ خوف ساتھ چھوڑتا تھا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ چند مہینوں بعد ایک دن موقع پاکر بچی سڑک پر نکل آئ جہاں پاکستانی فوج نے اسکی آواز سن لی۔

(جاری ہے)

فوج نے اسے اسکے جاننے والوں کے پاس دریا کے اس پار ہلدی باڑی پاربتی پور پہنچا دیا۔ اب سنیے کیا ہوا اور کیسے ہوا۔
یہ بچی اپنی اماں کے ساتھ اپنی خالی زاد بہن کے یہاں ملنے گئی تھی۔ یہ ڈھاکہ کا علاقہ جوگی نگر تھا۔ مشرقی پاکستان میں انارکی پھیلی ہوئ تھی۔ صبح اچانک محلے سے چیخ و پکار ر بلند ہوئی۔ جی- قاتل محلے میں سفاکی سے خون بہا رہے تھے اور کچھ ہی دیر میں قدموں کی آوازوں نے دل کی دھڑکنیں قابو سے باہر کردی تھیں۔

دروازہ توڑا جانے لگا اور چند لمحوں بعد درجنوں کے غول میں مسلح قاتل گھر کے مکین کے آنکھوں میں پٹیاں اور انکے ہاتھ پیچھے کرکے باندھ رہے تھے۔ ماں، خالہ ذاد بہن، بہنوئ ایک طرف کردینے گئے تھے جبکہ ان کے چھوٹے دو بیٹے اور ایک بیٹی آزاد اور ماں سے چمٹے ہوئے تھے۔ یہ مہمان بچی وہیں ایک کونے میں کھڑی منظر دیکھ رہی تھی سب سے پہلے معصوم بچوں کی ماں کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔

باپ نے گولی کی آواز اور بچوں کے رونے کی آواز پر ہاتھ کی گرہ کھولنے میں کامیاب ہو گیا اور جیسے ہی اس نے اپنے آنکھوں سے پٹی ھٹائ۔ درندوں نے اس پر فوراً گولیاں چلا دیں۔ مہمان بچی کی ماں بھی گولی کا شکار ہو چکی تھی۔ روتے سسکتے بچوں پر جیسے ہی بےرحم گولی کی بوچھاڑ کی گئی ۔ یہ مہمان بچی بھاگنے کی کوشش میں اپنوں کے لہو میں اوندھے منہ گر پڑی۔

تاریخ یا کوئ ٹھنڈے کمرے کا مورخ، ظلم اور ستم کے ان لمحات کے درد کو کبھی نہیں سمیٹ سکتا۔
قسمت دیکھیے اسں خاندان کا بڑا بچہ پرائمری اسکول کا طالبعلم اپنے نانا کے گھر  ہلدی باڑی پاربتی پور میں رہا کرتا تھا۔ جو زندہ اور محفوظ رہا۔ بچی کے زندہ واپس پہنچنے پر واقعات کا پتہ چلا۔ کیا گزری ہوگی۔ کیا لمحات ہونگے۔ کیا کرب ہوگا۔ کیا تڑپ ہوگی ۔

کیا رات ہوگی۔ کیا دن ہوگا۔ تصور کرنے کی کوشش بھی محال ہے۔ خیر وقت کا رنگ دیکھیے۔ بچ جانے والی بچی(چھوٹی خالہ) اور محفوظ رہنے والے بچے (بھانجہ) دنوں کراچی پہنچ گئے۔ بھلا ہو جامعہ کراچی کا، این ای ڈی کا اور ڈاؤ میڈیکل کالج کا جہاں امتیاز نہیں برتا جاتا تھا۔ انصاف سے داخلہ۔ یتیم لڑکا 1980 کے آخر میں ڈاکٹر بنا۔ آج کا ایک بڑا اور کامیاب ڈاکٹر۔ سوچیں قدرت کیسے ساتھ دیتی ہے۔ وہ کیسے بچا۔ کیسے پڑھا۔ کیسے زمانے کا مقابلہ کیا۔ محلے کو خبر ہوئ نہ کلاس کے دوستوں کو۔ نہ کرب کا کسی کو علم تھا نہ سماج کو فکر تھی۔ اور کیا بتائیں ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے واقعات دفاع ملک میں پوشیدہ ہیں ۔ ہے کوئ سننے والا ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :