بیرون ملک سفر اور اجازت نامہ

پیر 19 جولائی 2021

Dr Obaid Ali

ڈاکٹر عبید علی

جی کل تک مل جائیگا۔ ہفتوں اور اکثر مہینوں ہم اسکا کراچی میں انتظار کرتے۔ اسلام آباد سے طریقہ کار کے مطابق جاری ہونے والی دستاویز کبھی وقت پہ نہ ملی ۔ کئی خطوط کئی یاداشت کئی فون کئی پیغامات، اگر جمع کروں تو یہ ہر موقع پہ سو سے کسی طور بھی کم نہیں ہوتے تھے۔ جب کسی مہربان نے مہربانی چاہی تو مہینوں سے رکا کام چند منٹ میں ہوکر اسکا فیکس ہماری میز پر ہوتا تھا۔

اور اسلام آباد تعیناتی کے دوران بھی یہ منٹوں میں ہماری میز پر پہنچا دیا جاتا تھا۔ درجنوں مواقع کی منفرد کہانیاں ہیں۔ مختلف وزارتوں و محکموں میں تعینات اعلئ افسران سے نیازمندی ایک معمول کی بات تھی۔ مگر مدد طلب کرنے کا سوچ کر بھی کوفت ہوتی تھی یا یوں سمجھیے کہ کبھی حوصلہ نہ ہوتا تھا۔

(جاری ہے)


فائلوں پہ وزن نہ رکھنے کے ان کہے وعدے کی پاسداری میں ایک سے بڑھ کر ایک تکلیف اور اذیت ناک اوقات سہنا پڑی۔

ایک ایک کرکے سناؤں گا۔ میری وال پڑھتے وہ بھی ہیں جو ان گھناونے کھیل میں حصہ دار تھے، ہیں اور شاید یوں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ خیر چلیں گزشتہ سفر کی سنیں، جیسے ہی سرکار نے نوکری سے برخاست کا پروانہ جاری کیا۔ میں نے ازخود جاکر اپنے بینک کو فورا اطلاع کردی۔ لیکن سینکڑوں کیا ہزاروں لوگوں تک سرکاری شائع شدہ اطلاع کی نقول سرکار نے فوراً پہنچادی تھی۔

ہر وزارت اور ہر محکمہ کراچی سے اسلام آباد تک میرے نوکری سے نکالے جانے کی اطلاع کردی گئی تھی۔ ہم اپنا پاسپورٹ تبدیل کروانے پہنچے کیونکہ ہمارے نجی پاسپورٹ پر حکومتی افسر اور قومی شناختی کارڈ کے بابت دستاویز میں سنیر گورنمنٹ افسر تحریر تھا، انھوں نے ہمیں پاسپورٹ کے مدت معیاد تک انتظار کرنے کا مشورہ دیا اور بتایا کہ کوئ مسئلہ نہیں ہے۔

ہم نے اصرار کیا کہ ہم غلط تاثر کے ساتھ پاسپورٹ نہیں رکھنا چاہتے انھوں نے کہا آپ لوگوں کا مقدمہ عدالت میں زیر التوا ہے، جب تک آپکے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا یہ غلط تاثر کے زمرے میں نہیں آتا اور اگر آپ پھر بھی بضد ہیں تو پہلے قومی شناختی کارڈ تبدیل کروائیں۔ ہم دونوں متعدد بار شناختی کارڈز تبدیل کروانے پہنچے لیکن بھیڑ نے اجازت نہ دی اور ادھر کوویڈ کا نقارہ بچ چکا تھا۔


خیر آئیے آج کے منتخب موضوع کیطرف جو میرے ذہن میں گھوم رہا ہے۔ پچھلے برس اکتوبر کا مہینہ ہے۔ میں بیرون ملک جارہا ہوں، نہ کسی این او سی کے شائع ہونے کی فکر نہ کوئ درخواست چھٹی کی منظوری کا انتظار ۔ کھٹکا سا تھا کہ روانگی کے وقت امیگریشن پر کیا سوال جواب ہوتا ہے۔ گوکہ جان پہچان کی بہار تھی اور وہ الحمداللہ آج بھی بہت ہے لیکن ہم ٹھرے اپنے اصولوں کے قیدی۔

حفظ ما تقدم پھر بھی ایک چاہنے والے کو سب بتا دیا تھا اور کئی دوست میرے سفر سے آگاہ تھے۔ ادھر ساتھ جانے والے کینیڈا میں مقیم کلاس فیلو دوست کے بڑے بھائ کو فون پہ کیا بتاتا، انھیں صرف یہ کہا کہ اندر لانج میں ملاقات ہوگی ۔ جلدی ہی کاونٹر کے قطار پر پہنچ گیا جہاں دو دوسرے مختلف جاننے والوں سے ملاقات ہوئی ۔ ائرلائن والوں کا کاونٹر کھلا اور میں نے پاسپورٹ کاونٹر پر رکھا ۔

انھوں نے پاسپورٹ جیسے اسکین کیا  فوراً حکومتی این او سی دریافت کیا ۔ میں نے کہا کہ میں اب نوکری پر نہیں اور امیگریشن پر خود بات کروں گا انھوں نے بورڈنگ کارڈ جاری کردیا۔ اب سامان جاچکا تھا اور میں امیگریشن کی قطار میں ۔ امیگریشن افسر نے بورڈنگ کارڈ نکال کر پاسپورٹ کے اوراق پلٹے اور کہا کس محکمے میں ہیں۔ میں مسکرایا اور کہا اب نہیں میں تھا ساتھ میں نے نوکری سے نکالے جانے کی اطلاع کی مصدقہ نقل ان کے ہاتھ میں دی۔

وہ حیرت سے اور بوجھل کہہ رہے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب مقدمے کا پیچھا کریں ۔ اس نے تعریفی کلمات کہے اور مزید کہا کہ مجھے بتائیں میں اچھا وکیل کر دیتا ہوں۔ میں نے پو چھا آپ نے این او سی نہیں طلب کی۔ افسر نے روہانسے لہجے میں کہا آپ آزاد ہیں جب چاہیں جہاں چاہیں جائیں ۔ کبھی بھی مسئلہ ہو ہمیں فون کریں۔ عادتاً نمبر لے لیتا ہوں لیکن لاپرواہی میں مستقل مزاج ثابت ہوا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔ میں ابھی لانج میں آکر بیٹھا تھا۔ میرے چاہنے والوں کے دوست میرے استقبال کے لئے موجود تھے اور کہہ رہے تھے کہ آپ نے خدمت کا موقع ہی نہیں دیا ۔۔۔۔
دبئ ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی جیسے ہی واٹس اپ کنیکٹ ہوا اور اسلام آباد کے ایک بہت بڑے افسر کے حیرت انگیز خط کی شبیہ میرے موبائل پر ابھری۔ جوں جوں پڑھتا رہا میرے آنکھوں میں آنسو بھرتے رہے۔ میں آنسو دبائے ہلکے پاؤں سامان گھسیٹتے موبائل پر نظر گاڑے امیگریشن کیطرف بڑھتا رہا ۔۔ ۔۔۔۔ اللّہ رب العزت محبت، مہربانی کرنے والوں کو خصوصی انعام سے نوازے ۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :