سولی پہ اٹکی جان (کوت تو جاسی ۔۔ ایت تی جاسی)

بدھ 16 دسمبر 2020

Dr Obaid Ali

ڈاکٹر عبید علی

یا رب لکھ دینا اگر کسی پہر مقتل میں زبردستی خط لکھوایا جائے ۔ مشرقی پاکستان بخوشی لکھ کر آنے والے خوشحال شخص کی اپنے 12 سالہ چھوٹےاور 15 سالہ بچوں سے استدعا ۔ بےبس بڑی بہن اپنے دو دودھ پیتے بچوں کے ساتھ باپ کے فیصلے کے ساتھ کھڑی تھی ۔ ماں اور باپ دونوں بن کے پالنے والا صاحب کردار کامیاب بہادر باپ کو اللہ پر پورا بھروسہ تھا۔

بچوں کو خوب پتہ تھا کہ یہاں سے فرار میں عافیت ہے ۔ راستہ طویل، پرخطر اور تکلیف دہ ہے۔ زندگی کی کوئ ضمانت نہیں ۔ جنازے کی کوئ امید نہیں۔ دوبارہ بہن سے ۔ بھانجوں سے والد سے اس جنم میں ملاقات ہوگی یا نہیں ۔ یہ یہاں زندہ بچ سکیں گے یا نہیں۔ بچوں کی ماں کا کو اس دنیا سے گئے ہوے گیارہ برس ویسے ہی گزر چکے تھے ۔ ڈھاکہ کی امیدوں کا سورج ڈوب چکا تھا ۔

(جاری ہے)

غیر بنگالیوں کا قتل عام روز کا مشغلہ تھا ۔ مرد خصوصاً جواں بچے  ہر لمحے موت کا انتظار اور اس کے لئے تیار رہتے تھے ۔ شامیں صرف خون الود ہوتی تھیں ۔ لٹے ہوئے لوگوں کے بچے کچے زیورات بھی زندگی خریدنے کیلئے فروخت ہو رہی تھیں ۔ جہاں کہیں زندگی محفوظ ہونے کی امید ہو ۔ اپنے پیاروں کو وہاں بھیجنے کیلئے جمع پونجی دل کھول کے لٹائی جاتی تھی اور اسکے لئے شدید خطرات مولے جاتے تھے ۔


 بازار کوئ سا ہو اس کے دل میں رحم نہیں ہوتا ۔ تجارت کے دروازے  بےبسی خرید رہے تھے ۔ دلال پیسے لیتے ۔ رات بھر اندھیرے میں پیدل سفر کرواتے ۔ کہیں کشتی سے راستہ پار کرواتے ۔ دن میں انجان جگہوں پر قیام کرواتے ۔ کھیتوں میں خستہ حال جھونپڑیاں ہوتیں ۔ یہ انسانی اسمگلروں کی مرضی تھی کہ کچھ کھلاتے یا بھوکا رکھتے ۔ کھلاتے بھی تو موٹے ابلے چاول پانی بھگوئے ہوئے ہوتے تھے جس میں کچے پیاز کے ٹکرے ملا دیے جاتے تھے ۔

پینے کے لئے راستے کا پانی ۔ جان کے تحفظ کی خاطر سیاحت کے دوران ہوٹلوں میں آرام کرنے والے بچوں کا یہ سفر کتنا وزنی تھا ۔ انھیں اپنی بہن، بھانجوں اور والد سے دوبارہ نا ملنے کا خدشہ ان کے قدموں کو کتنا بوجھل کر دیتا ہوگا ۔ بھانجوں کے والد کی زندگی کی خبر ائے تو کئ ماہ گزر چکے تھے ۔ بڑے بھائ کی توجہ چھوٹے بھائ پر ہوگی جبکہ چھوٹے بھائ کی نظر بڑے کی زندگی پر ہوگی ۔

عجیب سفر تھا کہ اسمگلر دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کی نظر سے اوجھل اور فاصلے پر رکھتا ۔  جسم پر ایک شرٹ اور لنگی کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا ۔ ہاتھ خالی تھے ۔ کچھ پیسے زیب تن لباس میں چھپا رکھے تھے تاکہ دوسرے  مقام پہنچنے کے بعد محفوظ جگہہ پہنچ سکیں ۔ دلال پہ اعتماد کے علاوہ کوئ چارہ نہ تھا ۔ وہ خطیر پیسے کے عوض کلکتہ پہنچاتے اور پہنچنے کے بعد خیریت کا خط لکھواتے اور واپس پہنچ کر یہ خط چاہنے والوں کے حوالے کرتے اور پھر ایک اور خطیر رقم کا حصہ لیتے ۔

لاش تو کسی کی نہ ملتی ۔ راستے میں قتل ہونا معمول تھا بدقسمتی تھی ۔ زبردستی خیریت کا خط لکھوا کر مار دینا یا بیچ میں چھوڑ دینا کوئ غیر متوقع بات نہیں تھی ۔ بالائے ستم ان بے گناہ مقتولوں کے  چاہنے والوں سے ان خطوط کے بدلے میں مزید رقم لینے والوں میں اپنے مسلمان بھی تھے ۔ جان اٹکی رہتی تھی جب تک سرحد پار مقیم احباب یا رشتہ دار پیاروں کی خیریت کی تحریری اطلاع نہ  بھیج دیں ۔

زندگی ادھر بھی  قید تھی مگر کم ازکم  قتل ہونے کے خدشات نہ تھے ۔ پکڑ دھکڑ تھی ۔ جیل تھی ۔ غرض ہر سانس گراں تھی ۔  دونوں جانب  تشویش تھی ۔ فکر تھی ۔ زخم کا دکھ تھا ۔ لٹ جانے کا سانحہ تھا ۔ مر جانے والوں کا غم تھا ۔ گمشدہ کا بین تھا ۔ کیا سنائیں ۔ کیا سنتے سنتے جواں ہوئیں ہیں ہم ۔ آپ آنکھیں بند کریں ۔ اپنے پیاروں کو اس کردار میں دیکھیں ۔

آپ کے آنسو آپ کو بہت ہلکا کریں گے ۔
اسمگلروں کے حوالے کئے جانے والے بچوں کے21 سالہ بڑے بھائ یہی سفر کرکے محفوظ مقام پر پہنچ چکے تھے ۔ ان بچوں کے دودھ پیتے بھانجوں کے 22 سالہ چچا بھی اسی راستے سرحد پار کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے ۔ بھانجوں کی دادی جس جگہ تھیں وہاں بھانجوں کے والد کو ڈھونڈنے والے ہاتھوں میں بم لیکر گشت کیا کرتے تھے ۔

محفوظ مقام پر ان دونوں بھائیوں کے بڑے بھائ اور ساکن رشتےداروں کو بذریعہ خط آگاہ کردیا گیا تھا اور وہ بھی بےچینی سے منتظر تھے ۔ ادھر ان دونوں کی باری اور قسمت تھی ۔ نیا دلال تھا ۔
 
کدھر جارہے ہو ۔ قریب ہی جارہے ہیں ۔ (کوت تو جاسئ ۔۔ ایت تی جاسی) 12 سالہ چھوٹے بھائ کا ناکام کوششش سے واپسی پہ سوال پوچھنے والوں کو جواب ۔ ہر طرف جان کے لالے پڑے ہوے تھے ۔

کوئ پولیس تھی نہ کوئ انصاف کا چوک ۔ جانوروں کیطرح سماج کے رحم و کرم پر تھے ۔ جو چاہے ۔ جہاں چاہے ۔ جب چاہے ۔ جسطرح چاہے ۔ پاکستان منتخب کرنے والے باشندوں اور ان کی اولادوں کو خون میں نہلا سکتا تھا ۔ اور ہر آنکھوں میں ہی خون اترا ہوا تھا ۔ بتائے گیے راستوں میں کھیت کھلیان آتے تھے ۔ سانپ، بچھو، گیڈر، کتوں کی بہتات تھی۔ سورج کی روشنی میں سفر آگ میں مٹی کا تیل ڈالنے کے مترادف تھا ۔

ہوا یوں کہ جیسے ہی یہ سرحد پار کرنے والے تھے وہ اسمگلر شاید واقعی کسی مشکل میں اگیا ورنہ کسے پیسہ اچھا نہیں لگتا ۔ اکثر دلال مشکل صورت میں اپنی جاں بچانے کی خاطر مسافروں کو قتل کر دیا کرتے تھے اور نشانیاں مٹا دیا کرتے تھے ۔ ایک جھونپٹری میں ان دونوں بھائیوں کو واپسی کے سفر کی ہدایات دی گئیں، راستے کا نقشہ سمجھایا گیا اور شاید ضروری رہنمائ کی گئ۔

ان کے ساتھ چند اور اسی عمر کے زندگی کے مسافر بھی تھے۔ ہدایات کی مطابق بڑے بھائ کی شکل بنگالی نہیں لگتی تو اسکے راستے میں قتل ہونے کا زیادہ خطرہ ہے ۔ چھوٹا بھائ کا لہجہ میں پکڑ کے امکانات کم ہیں اس لیے اسے کم خطرہ ہے ۔ دنوں بھائیوں کے واپسی کے سفر میں دس گھنٹے سے زائد کا وقفہ تھا ۔ بچے اپنے والد کے دیے گئے پیسوں کا دلالوں کے کارکنوں سے پوچھ نہیں سکتے تھے نہ سرحد پار نہ کرا نے کا شکوہ ۔

کیوں کہ اسکا نتیجہ صرف ان کا قتل تھا ۔ بڑے خنجر ان کو سوال کرنے پر دکھا دیے گئے تھے اور ہولناک نتائج سے آگاہ کردیا گیا تھا ۔ بحرکیف  بوجھل زندگی کے اس نئے سفر میں آگے بھی موت ناچتی نظر آتی اور پیچھے بھی سایے کیطرح تعاقب کرتی ۔ زندگی بوجھ تھی صرف بوجھ اور اوپر سے پیاروں کی فکر کا سینے پہ ایک پہاڑ ۔ مستقبل سیاہ ترین نظر آتا تھا ۔ اکیلے اس بہادر بچوں کا حوصلے کے ساتھ اکیلا سفر  دو راتوں اور تین دنوں پر مشتمل تھا ۔

راستے کے لہلہاتے کھیتوں سے کچھ کھانے کا خدا دے ہی دیا کرتا تھا ۔  کان کےاوپر بیڑی (سگریٹ نما خاکی بتی) رکھے ۔ کان میں گول سکا پھنسائے لنگی کو دوبارہ اٹھا کر کمر میں کھونس کر راستہ کاٹ رہے تھے ۔ بھیس بدل کر بنگالی مزدور ہونے کا رنگ دینا وقت کا بدترین ستم تھا ۔ خونخوار لوگوں سے مڈبھیڑ اگر ہو جاتی اور ان کو شک گزرتا تو مادری زبان کا لہجہ جانچنے کی خاطر دور سے چلا کر وہ پوچھتے کوت تو جاسئ - ایت تی جاسی (کدھر جارہے ہو ۔

قریب ہی جارہے ہیں) ۔ لہجہ، حلیہ اور خوف جانچ لیا جاتا۔ بہادری کے ساتھ بہادر بچوں نے موت کی وادی کا رات میں لمبا اور پیدل سفر مکمل کیا۔
ادھر ڈھاکہ سے دریا کے اس پار سیعدپور میں والد اور بہن خریت سے پہنچنے کی اطلاع سننے کے لیے بیتاب تھے ۔ ادھر بچوں کے بڑے بھائ اور رشتہ دار سرحد کے اس طرف بےچین ۔ خط رابطے کا واحد زریعہ تھا اور ہاتھ کی لکھائی و جملوں سے شناسائی سب کچھ تھا ۔

اچانک دن میں گرد وغبار میں لپٹا تھکن سے چور چھوٹا بیٹا گھر پہنچا تو گھر والوں کو اطمینان نصیب ہوا لیکن اسکے ساتھ جانے والے بڑے بھائ کے انتظار کی شدت میں ابال آگیا ۔ اگر کوئ اس راستے میں مار دیا جائے تو نہ لاش ملتی نہ تدفین نہ جنازہ ۔ کیسا کڑا امتحان تھا ۔ کیسی سخت سزا تھی ۔ کیسی بےیاری و مددگاری تھی ۔ وقت گزرتا گیا اور الحمداللہ وہ بھی رات گیارہ بجے واپس زندہ پہنچ گیا ۔یوں سمجھیے یہ قبرستان میں جنگ کے دوران ہماری ایک اور پرسوز عید تھی ۔ لوگوں نے بہت سخت اور کئی سو گنا مشکل حالات کا سامنا کیا ۔ مقابلہ کیا ۔ آج اللہ تعالیٰ نے بہت اچھا رکھا ہے مگر کچھ آج بھی کیمپوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ اللّہ رب العزت پاکستان کی لاج رکھ لے ۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :