
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- ڈاکٹر عبید علی
- واشنگٹن مونٹریال اور مونٹریال نیویارک ۔ جب دو لاکھ کا خرچہ 12 گھنٹے میں 15 ہزار کا ہوگیا
واشنگٹن مونٹریال اور مونٹریال نیویارک ۔ جب دو لاکھ کا خرچہ 12 گھنٹے میں 15 ہزار کا ہوگیا
پیر 26 جولائی 2021

ڈاکٹر عبید علی
(جاری ہے)
اس طرح کے پروگراموں میں تیسری دنیا سے ہمارا انتخاب ہمارا اعزاز تھا۔
قدرت کیسے مزے کرواتی ہے، اج اس مضمون کے لکھنے کا مقصد خوشگوار حیرت کی کہانی سنانی ہے۔ اگر تکلیف سے گزر کر بہت کچھ حاصل کریں تو لطف کیا اور کیسا ہوتا ہے آپ بھی سنیے اور محسوس کیجیے۔ اس وقت یعنی اکتوبر 2011 میں پاکستان سے امریکہ تک کے سفر تک کا دوطرفہ کرایہ ایک آدمی کا 80 ہزار سے ایک لاکھ اور کراچی اسلام آباد کا دو طرفہ سفر 8 سے 10 ہزار کا تھا۔ میں نے سوائے واشنگٹن سے اوٹاوا اور اوٹاوا سے واشنگٹن کے بقیہ تمام سفری معاملات طے کئے ہوئے تھے۔ ایک قوی اندازہ تھا کہ اس سفر میں زیادہ سے زیادہ بیس ہزار پاکستانی روپے لگیں گے۔ ادھر ہم امریکہ میں کسی اور ریاست میں مقیم دوست کے گھر دو دن اسکی بھرپور خواہش پر رکے اور اسکے تاریخی "محبت کے شہر" اور اسکے اطراف کے تاریخی مقامات گھومتے ہوئے وقت مقررہ سے ایک دن قبل میری لینڈ کے مخصوص ہوٹل پہنچ گئے۔ کیا دولت ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں دوست احباب اور شاگرد رہتے ہیں جنکی عقیدت و محبت ہمارا انمول سرمایہ ہے۔
آج پڑھائ کا پہلا دن تھا۔ رات پڑھائ کی۔ تیار ہوکر الصبح ناشتے کے بعد میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر اگلے ہفتے یہاں واشنگٹن سے اوٹاوا پہنچنے اور مقررہ وقت پر نیویارک واپس پہنچنے کی فلائیٹ ڈھونڈ رہا تھا۔ ہمارے پاؤں تلے زمین نکل چکی تھی کہ دستیاب فلائیٹ 80 ہزار پاکستانی کے لگ بھگ تھیں اور ایک رات ہوٹل کا اضافی 15 سے 20 ہزار کا خرچ کے علاوہ کوئ چارہ نہ تھا۔ جب میں نے پاکستان سے کچھ ہفتے پہلے یہ فلائیٹ دیکھی تھیں تو یہ اٹھ اور دس ہزار کی پڑ رہی تھیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ اگر ہم پاکستان واپس آکر اوٹاوا جائیں تو بھی قیمت وہی تھی جو پڑوس کے واشنگٹن سے اوٹاوا تک کے سفر کی تھی۔ کالج پارک کا کھلا علاقہ ویسے ہی ٹھنڈا تھا اور کم ازکم میرے ہاتھ پاؤں مزید سرد ہو چکے تھے۔ ہم یہ سفر اور ٹرینینگ چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے۔ علم، وقار اور اعتماد کا معاملہ سر پر سوار ہو چکا تھا۔ چھوڑنے کے دکھ کا احساس تمام پہاڑوں سے وزنی تھا۔ کوئ راستہ نہ تھا سوائے کہ مہنگی سیٹ بک کرا کر محفوظ کرنے میں مزید دیر نہ کی جائے۔ گہری ٹھنڈی سانس لی۔ کمرے کے ٹیبل سے اٹھ کر کمرے کے دروازے کھولنے تک کچھ اللّہ سے بات کی اور کمپیوٹر ویسے ہی کھلا چھوڑ کر نیچے سیشن میں حصہ لینے پہنچ گئے۔ خوش آمدید کہنے کیلئے ایف ڈی اے کے حکام بالا خود موجود تھے۔ چند منٹ سفر کا احوال ایک دوسرے کا سنا اور جیسے ہی گھڑی مسکرائ۔ سائنس اور سائنس۔ دھڑا دھڑ پڑھائ جاری رہی اور میرا کچھ منجمد دماغ منقسم رہا۔ بحث میں حصہ لینا ہمارا بہترین مشغلہ اور میزبان کی توقع تھی۔ چائے کے وقفے میں تیزی سے اوپر دوبارہ کمرے میں آکر ایک بار پھر معلومات اور قیمتوں کو کھنگالنے کی کوشش کی اور پتہ نہیں کیوں، مستقل بڑھتی ہوئ قیمت دیکھ کر مطمئین ہوگئے کہ ہم تقریبآ دو لاکھ کے اضافی پھیرے میں اب آگئے ہیں۔ خیر کمپیوٹر کو پھر کھلا ہی چھوڑ کر جلد ہی واپس نیچے ہال میں پہنچا۔ چائے کا مختصر وقفہ ختم ہو رہا تھا اور بیگم صاحبہ لوگوں سے مل کر میری کمی دور کر رہی تھیں۔ کچھ آنکھیں ملیں۔ کچھ ہاتھ ہلے۔ کچھ گلے لگے۔ نیک تمناؤں، مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا اور ہم نے دوبارہ اپنی نشست سنبھال لی۔ ہم دونوں ساتھ بیٹھے تھے۔ نیا سیشن شروع ہو چکا تھا اور میں جوابات دینے کیلئے ذہنی طور پر چاق و چوبند تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بغیر ہمکلام ہوئے شاید بہت ساری باتیں کر رہے تھے۔ نہ گلہ تھا اور نہ ہی افسردگی۔ پتہ نہیں کیوں بہت مطمئین تھے اور مسکراہٹ لبوں میں نمایاں تھی۔
شام ڈھلنا شروع ہوئ اور 5 بجے سیشن ختم ہوا۔ دس منٹ میں لوگوں سے مل ساتھ کافی پینے کے وعدے پر اجازت چاہی اور ہم کمرے میں واپس آگئے۔ چپ چاپ رات کے کھانا کھانے کا فوری فیصلہ کیا اور 6 بجے سے پہلے ہوٹل سے آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ایک پاکستانی کھانے کی جگہہ کی طرف رواں دواں ہوئے۔ میزبان نے ہمیں حیرانگی سے دیکھ کر گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ ہمیشہ کیطرح ہمارے لئے مزےدار کڑاھی بنائ اور مرچوں والی کڑھائی کے بعد گرماگرم دودھ پتی چائے کا لطف آج بھی بھلائے نہیں بھولتا۔ ہم واپس پیدل 8 بجے کے بعد کمرے میں پہنچ چکے تھے۔ کمپیوٹر صبح سے کھلا تھا اور جوتے اتارے بغیر میں نے دوبارہ کچھ ڈھونڈنا شروع کیا ۔ قسمت کی دیوی مہربان تھی۔ ایمٹریک ریل میں ہم دنوں کی سیٹیں پاکستانی پندرہ ہزار روپے کے عوض ہماری کللک کا انتظار کر رہی تھیں۔ ہر وقت ساتھ کھڑے رہنے والی ہماری بیگم صاحبہ جھٹ سے بیٹھیں، آنا فانا انھوں نے تمام تفصیلات پاسپورٹ دیکھ کر پر کیں اور یوں ہمارا ٹکٹ بک ہو چکا تھا۔ ایک دن ہوٹل کا کرایہ بھی ختم کیونکہ ریل کا سفر 14 گھنٹے لمبا تھا۔ سکون ہی سکون تھا ایسا لگ رہا تھا کہ صبح اب ہوئ ہے۔ ہمیں کوئ تھکن نہیں۔ دوبارہ آئس کریم کھانے نکل پڑے ۔
ریل گاڑی چلتی رہی۔ ہم مونٹریال اترے۔ ہمارے بڑے بھائیوں کیطرح کالج کے پرانے دوست ہمارا ایک مشترکہ دوست کے ہمراہ بیتابی سے انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ ہم واپس اسی ریل میں جب نیویارک پہنچے اور ہمارے دوسرے شفیق بڑے بھائیوں کیطرح ایک ذی وقار مصروف شخصیت باہر ہمارا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ نہ ہمارے پاس فون تھا نہ اس وقت واٹس اپ۔ ہاں وائیبر اور گوگل کال کی سہولت تھی مگر اس کے لئے انٹرنیٹ چاہیے تھا ۔ یہ صرف وقت کا صحیح تعین اور پرخلوص تعلقات تھے کہ سب کچھ بہت آرام دہ اور سہل ہی رہا ۔۔۔ انشاللہ زندگی رہی تو پھر کبھی لکھوں گا کہ 14 گھنٹے سے زائد ریل کا یہ سفر کتنا حسین تھا کتنا دلکش تھا کتنا یادگار کتنا آرام دہ تھا ۔۔
اللّہ آپ سب کو بہت اچھا رکھے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر عبید علی کے کالمز
-
نیک خواہشات افغانستان کا حق اور عالمی ذمہ داری ہے
جمعہ 20 اگست 2021
-
بحر الکاہل پار کرنے کے دوران استنبول کے چار دن
ہفتہ 31 جولائی 2021
-
مغربی رفقا کے ساتھ کیکڑوں کی دعوت اور کالج پارک
بدھ 28 جولائی 2021
-
واشنگٹن مونٹریال اور مونٹریال نیویارک ۔ جب دو لاکھ کا خرچہ 12 گھنٹے میں 15 ہزار کا ہوگیا
پیر 26 جولائی 2021
-
بیرون ملک سفر اور اجازت نامہ
پیر 19 جولائی 2021
-
آہ اے کیو جاوید
پیر 8 فروری 2021
-
آنکھیں بند کریں اور منظر دیکھیں
جمعہ 18 دسمبر 2020
-
سولی پہ اٹکی جان (کوت تو جاسی ۔۔ ایت تی جاسی)
بدھ 16 دسمبر 2020
ڈاکٹر عبید علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.