واشنگٹن مونٹریال اور مونٹریال نیویارک ۔ جب دو لاکھ کا خرچہ 12 گھنٹے میں 15 ہزار کا ہوگیا

پیر 26 جولائی 2021

Dr Obaid Ali

ڈاکٹر عبید علی

اکتوبر 2011 ۔ اس دفعہ بھی قدرت ایک بار پھر ہم پر مہربان تھی۔ ہم دونوں یکے بعد دیگرے دو مختلف بین الاقوامی ٹریننگ کیلئے میزبان کی جانب سے منتخب اور دعوت نامہ حاصل کر چکے تھے۔ ایک امریکی ایف ڈی اے تھی، جسکا پروگرام واشنگٹن ڈی سی سے جڑی امریکی ریاست میری لینڈ میں منعقد ہو رہا تھا جبکہ دوسری کینیڈین حکومت کی ہیلتھ کینیڈا تھی، جو دارالحکومت اوٹاوا کے ڈاؤن ٹاؤن میں انعقاد کر رہی تھی ۔

کیا حسین اتفاق تھا کہ ٹھیک دو دن بعد ہم ایک اور معلوماتی سفر پر دنیا کی سب سے بڑی ادویاتی کمپنی کے ہیڈ آفس نیویارک کا دودہ کر رہے تھے اور اگلے روز ہمیں امریکی ریاست  میشی گن میں چند دنوں کیلئے وہاں کی ادویہ ساز کمپنی کی سہولیات کا تفصیلی مطالعہ اور انکی قیادت سے تکنیکی معاملات سمجھنا تھی۔

(جاری ہے)


اس طرح کے پروگراموں میں تیسری دنیا سے ہمارا انتخاب ہمارا اعزاز تھا۔

ان پروگرام میں آنے جانے کا خرچ خود برداشت کرنا ہوتا تھا۔ ہم نے درجنوں بار سفر کیا اور ٹرینینگ حاصل کی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امریکہ کے علاوہ چائنہ جاپان، سنگاپور، جرمنی، انگلینڈ، کینیڈا، افریقہ سعودی عربیہ، یورپ غرض تمام ترقی یافتہ دنیا سے وفد آتے تھے اور ایک ہفتے کے سیشن میں تقریباً 25 سے 40 لوگ ہوتے تھے۔ شرکا کا انتخاب وفاقی حکومتی افسران تک محدود رہتا تھا۔

یعنی جو اپنے ملک میں ریگولیشن کی پریکٹس کا تجربہ رکھتے تھے۔ ہر شرکاء کا خصوصی خیال اسکے ملک کی متعلقہ ایجنسی اور ایمبیسی بھی رکھتی تھی اور تمام اخراجات وہی اٹھاتی ٹھی۔ ہم جب بھی جانے کی اجازت مانگیں تو ہمیں چھٹی دی جاتی تھی اور ہر دفعہ یہ چھٹی حاصل کرنا ایک بہت بڑا پہاڑ کھودنا ہوتا تھا۔ ہمارے دو سے تین ماہ کی تنخواہ ہماری اس عیاشی میں ہرسال خرچ ہو جاتے تھے جسے ہم بہ خوشی قبول کرتے۔

میزبانوں کے اصرار پر بھی ہم نے کبھی ان سے مدد نہ لی تاکہ کبھی بھی کوئ ہمارے وطن سے جائے تو وہ شان سے کھڑا ہو سکے۔ اداروں کی یاداشت اگر انھیں سننے کا موقع ملے تو ان کے لئے فخر کا باعث ہو۔ اس بار بھی ہم چھٹی کی منظوری کی تگ و دو کئی ہفتوں سے روزانہ کی بنیاد پر کر رہے تھے اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے سفر کی بہت سی بکنگ کرنے سے قاصر تھے۔

کیونکہ سستی پیشکش اکثر ناقابل واپسی ہوتی تھی۔ کی بار آخری موقعوں پر چھٹی روکنے کی وجہ سے ہم احتیاط کرتے اور میزبان کو مطلع رکھتے تھے۔
 قدرت کیسے مزے کرواتی ہے، اج اس مضمون کے لکھنے کا مقصد خوشگوار حیرت کی کہانی سنانی ہے۔ اگر تکلیف سے گزر کر بہت کچھ حاصل کریں تو لطف کیا اور کیسا ہوتا ہے آپ بھی سنیے اور محسوس کیجیے۔ اس وقت یعنی اکتوبر 2011 میں پاکستان سے امریکہ تک کے سفر تک کا دوطرفہ کرایہ ایک آدمی کا 80 ہزار سے ایک لاکھ اور کراچی اسلام آباد کا دو طرفہ سفر 8 سے 10 ہزار کا تھا۔

میں نے سوائے واشنگٹن سے اوٹاوا اور اوٹاوا سے واشنگٹن کے بقیہ تمام سفری معاملات طے کئے ہوئے تھے۔ ایک قوی اندازہ تھا کہ اس سفر میں زیادہ سے زیادہ بیس ہزار پاکستانی روپے لگیں گے۔ ادھر ہم امریکہ میں کسی اور ریاست میں مقیم دوست کے گھر دو دن اسکی بھرپور خواہش پر رکے اور اسکے تاریخی "محبت کے شہر" اور اسکے اطراف کے تاریخی مقامات گھومتے ہوئے وقت مقررہ سے ایک دن قبل میری لینڈ کے مخصوص ہوٹل پہنچ گئے۔

کیا دولت ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں دوست احباب اور شاگرد رہتے ہیں جنکی عقیدت و محبت ہمارا انمول سرمایہ ہے۔
آج پڑھائ کا پہلا دن تھا۔ رات پڑھائ کی۔ تیار ہوکر الصبح ناشتے کے بعد میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر اگلے ہفتے یہاں واشنگٹن سے اوٹاوا پہنچنے اور مقررہ وقت پر نیویارک واپس پہنچنے کی فلائیٹ ڈھونڈ رہا تھا۔ ہمارے پاؤں تلے زمین نکل چکی تھی کہ دستیاب فلائیٹ 80 ہزار پاکستانی کے لگ بھگ تھیں اور ایک رات ہوٹل کا اضافی 15 سے 20 ہزار کا خرچ کے علاوہ کوئ چارہ نہ تھا۔

جب میں نے پاکستان سے کچھ ہفتے پہلے یہ فلائیٹ دیکھی تھیں تو یہ اٹھ اور دس ہزار کی پڑ رہی تھیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ اگر ہم پاکستان واپس آکر اوٹاوا جائیں تو بھی قیمت وہی تھی جو پڑوس کے واشنگٹن سے اوٹاوا تک کے سفر کی تھی۔  کالج پارک کا کھلا علاقہ ویسے ہی ٹھنڈا تھا اور کم ازکم میرے ہاتھ پاؤں مزید سرد ہو چکے تھے۔ ہم یہ سفر اور ٹرینینگ چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے۔

علم، وقار اور اعتماد کا معاملہ سر پر سوار ہو چکا تھا۔ چھوڑنے کے دکھ کا احساس تمام پہاڑوں سے وزنی تھا۔ کوئ راستہ نہ تھا سوائے  کہ مہنگی سیٹ بک کرا کر محفوظ کرنے میں مزید دیر نہ کی جائے۔ گہری ٹھنڈی سانس لی۔ کمرے کے ٹیبل سے اٹھ کر کمرے کے دروازے کھولنے تک کچھ اللّہ سے بات کی اور کمپیوٹر ویسے ہی کھلا چھوڑ کر نیچے سیشن میں حصہ لینے پہنچ گئے۔

  خوش آمدید کہنے کیلئے ایف ڈی اے کے حکام بالا خود موجود تھے۔ چند منٹ سفر کا احوال ایک دوسرے کا سنا اور جیسے ہی گھڑی مسکرائ۔ سائنس اور سائنس۔ دھڑا دھڑ پڑھائ جاری رہی اور میرا کچھ منجمد دماغ منقسم رہا۔ بحث میں حصہ لینا ہمارا بہترین مشغلہ اور میزبان کی توقع تھی۔ چائے کے وقفے میں تیزی سے اوپر دوبارہ کمرے میں آکر ایک بار پھر معلومات اور قیمتوں  کو کھنگالنے کی کوشش کی اور پتہ نہیں کیوں، مستقل بڑھتی ہوئ قیمت دیکھ کر مطمئین ہوگئے کہ ہم تقریبآ دو لاکھ کے اضافی پھیرے میں اب آگئے ہیں۔

خیر کمپیوٹر کو پھر کھلا ہی چھوڑ کر جلد ہی واپس نیچے ہال میں پہنچا۔ چائے کا مختصر وقفہ ختم ہو رہا تھا اور بیگم صاحبہ لوگوں سے مل کر میری کمی دور کر رہی تھیں۔ کچھ آنکھیں ملیں۔ کچھ ہاتھ ہلے۔ کچھ گلے لگے۔ نیک تمناؤں، مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا اور ہم نے دوبارہ اپنی نشست سنبھال لی۔ ہم دونوں ساتھ بیٹھے تھے۔ نیا سیشن شروع ہو چکا تھا اور میں جوابات دینے کیلئے ذہنی طور پر چاق و چوبند تھا۔

ہم دونوں ایک دوسرے سے بغیر ہمکلام ہوئے شاید بہت ساری باتیں کر رہے تھے۔ نہ گلہ تھا اور نہ ہی افسردگی۔ پتہ نہیں کیوں بہت مطمئین تھے اور مسکراہٹ لبوں میں نمایاں تھی۔
شام ڈھلنا شروع ہوئ اور 5 بجے سیشن ختم ہوا۔ دس منٹ میں لوگوں سے مل ساتھ کافی پینے کے وعدے پر اجازت چاہی اور ہم کمرے میں واپس آگئے۔ چپ چاپ رات کے کھانا کھانے کا فوری فیصلہ کیا اور 6 بجے سے پہلے ہوٹل سے آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ایک پاکستانی کھانے کی جگہہ کی طرف رواں دواں ہوئے۔

میزبان نے ہمیں حیرانگی سے دیکھ کر گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ ہمیشہ کیطرح ہمارے لئے مزےدار کڑاھی بنائ اور مرچوں والی کڑھائی کے بعد گرماگرم دودھ پتی چائے کا لطف آج بھی بھلائے نہیں بھولتا۔ ہم واپس پیدل 8 بجے کے بعد کمرے میں پہنچ چکے تھے۔ کمپیوٹر صبح سے کھلا تھا اور جوتے اتارے بغیر میں نے دوبارہ کچھ ڈھونڈنا شروع کیا ۔ قسمت کی دیوی مہربان تھی۔

ایمٹریک ریل میں ہم دنوں کی سیٹیں پاکستانی پندرہ ہزار روپے کے عوض ہماری کللک کا انتظار کر رہی تھیں۔ ہر وقت ساتھ کھڑے رہنے والی ہماری بیگم صاحبہ جھٹ سے بیٹھیں، آنا فانا انھوں نے تمام تفصیلات پاسپورٹ دیکھ کر پر کیں اور یوں ہمارا ٹکٹ بک ہو چکا تھا۔ ایک دن ہوٹل کا کرایہ بھی ختم کیونکہ ریل کا سفر 14 گھنٹے لمبا تھا۔ سکون ہی سکون تھا ایسا لگ رہا تھا کہ صبح اب ہوئ ہے۔

ہمیں کوئ تھکن نہیں۔ دوبارہ آئس کریم کھانے نکل پڑے ۔
ریل گاڑی چلتی رہی۔ ہم مونٹریال اترے۔ ہمارے بڑے بھائیوں کیطرح کالج کے پرانے دوست ہمارا ایک مشترکہ دوست کے ہمراہ بیتابی سے انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ ہم واپس اسی ریل میں جب نیویارک پہنچے اور ہمارے دوسرے شفیق بڑے بھائیوں کیطرح ایک ذی وقار مصروف شخصیت باہر ہمارا انتظار کر رہی تھی ۔

۔۔ نہ ہمارے پاس فون تھا نہ اس وقت واٹس اپ۔ ہاں وائیبر اور گوگل کال کی سہولت تھی مگر اس کے لئے انٹرنیٹ چاہیے تھا ۔ یہ صرف وقت کا صحیح تعین اور پرخلوص تعلقات تھے کہ سب کچھ  بہت آرام دہ اور سہل ہی رہا ۔۔۔ انشاللہ زندگی رہی تو پھر کبھی لکھوں گا کہ 14 گھنٹے سے زائد ریل کا یہ سفر کتنا حسین تھا کتنا دلکش تھا کتنا یادگار کتنا آرام دہ تھا ۔۔
اللّہ آپ سب کو بہت اچھا رکھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :