بحر الکاہل پار کرنے کے دوران استنبول کے چار دن

ہفتہ 31 جولائی 2021

Dr Obaid Ali

ڈاکٹر عبید علی

وہ کون ہے جسکی چھتری کبھی نظر سے اوجھل اور اکثر ہمارے سر پر تنی مستعد نظر آتی ہے۔ ابر آلود بادل جب ساتھ ہوں تو ہونے والی یقینی بارش زندگی کا لطف اور سفر کا مزہ دوبالا کرتی ہے۔ یہ  اپریل 2011 ہے، ہمیں واشنگٹن میں طےشدہ عالمی ریگولیٹرز کی پانچ روزہ فورم میں شرکت کرنی ہے۔ وقت سے ایک ہفتے پہلے ہی تمام منظوری اور دستاویزات تیار ہو چکی ہیں۔

ٹکٹ کی قیمت پر نظر رکھی ہوئ تھی۔ قطر ایئر لائن، ایمیریٹس، اتحاد کی قیمتیں آس پاس تھیں۔ 5 سے 10 فیصد فرق کے درمیان فیصلہ کرنا تھا۔ ہر اسٹاپ چاہے یہ دبئ ہو یا ابو ظہبی یا دوحہ، ہر جگہہ پرانے دوست، احباب اور رشتہ دار مقیم ہیں۔ جب تک سرکاری منظوری نہیں ہوتی تھی ہم سواے محدود احباب کے بیرون ملک اپنے سفر سے کسی کو آگاہ نہیں کرتے تھے۔

(جاری ہے)

ہماری دلی خواہش ہوتی تھی کہ ہر سفر میں زمین کے کسی اور حصے کو بھی دیکھ لیں، نئی مساجد میں نماز پڑھ لیں اور ادھر ہمارے ہر کرم فرما کی خواہش ہوتی تھی کہ کچھ ایام اس کے شہر اسکے گھر میں گزارے جائیں اور ایسا شاید دو یا تین بار ہوا ہو جب سیدھا گئے اور سیدھا آئے ہوں، ہمیشہ روانگی یا آمد کے دوران کسی نہ کسی احباب کی مہربان مہمان نوازی کا لطف اٹھایا۔

آپ بھی بہتر سمجھتے ہیں کہ مشکل وقت اور خصوصی لڑکپن کے دوستوں کا گھر تو اپنا ہی گھر لگتا ہے۔ اور طالبعلمی و نوجوانی کا وقت تو مشکلات سے بھرا پڑا ہے اور پر خلوص دوستوں کی میری زندگی میں اللّہ نے بہتات رکھی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں ہمارے یار دوست مستقل مقیم ہیں اور وہ جہاں رہتے ہیں وہاں ایک مشترکہ مزاج والوں کا ایک حلقہ رکھتے ہیں جن میں بسا اوقات براہ راست یا بلواسطہ جاننے والے اور  چاہنے والے مل جاتے ہیں۔


اب فیصلہ یہ کرنا تھا کہ کہاں اور کس شہر میں مختصر قیام کے لئے رکا جائے، ایجنٹ کے دفتر میں ٹکٹ پر سوچ و بچار کر ہی رہے تھے کہ بیگم صاحبہ نے خاموشی سے یاد دلایا کہ ہماری روزانہ گھر واپسی کے راستے میں آنے والے پل کے اختتام پر  ترکش ائیر لائن کا کراچی سے نیویارک سفر کا اشتہار لگا ہوا ہے اور قیمت دوسرے ائیر لائنز سے تقریبآ تیس فیصد کم تھی، کیوں نا ہم ترکش ائر لائن میں نشستیں دیکھیں۔

اب معاملہ صاف تھا۔ ہم نے اپنے ایجنٹ سے فورا بات دہرائی اس نے بتایا کہ یہ ترکش ایئر لائن والے ترکی کی سیاحت کی فروغ کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔ وہ مسافروں کو استنبول کی سیر کروانے کیطرف رغبت دلانا چاہتے ہیں اس لئے یہ پیشکش دستیاب ہے۔ ویسے یہ مردہ ٹکٹ ہے یعنی اس ٹکٹ میں ایک بار خریدنے کے بعد تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ کسی بھی صورت میں پیسے واپس نہیں مل سکتے۔

مزید یہ بہت مشکل اور امریکہ تک پہنچنے کیلئے خاصا لمبا سفر ہے۔ اس میں تین دن جاتے ہوئے اور تین دن آتے ہوئے استنبول میں رکنا پڑے گا۔ اور وہاں دونوں دفعہ ترکی میں داخلے کیلئے ویزے کی فیس بھی ادا کرنی ہوگی۔ اسطرح آپ کا بہت وقت ضائع ہوگا۔ اس (ایجینٹ) کی بات میں وزن تھا۔ ہم اطمینان سے سنتے رہے اور کہا کہ یہ تین دن زیادہ ہے، کچھ وقفہ کم کردیں تو ہمارے لئے سودا ہلکا ہو جائیگا۔

پتہ نہیں کیوں، وہ ہمیں اتحاد ایئر یا قطر ایئر سے سفر کے انتخاب پر راضی کرنے کو تلا تھا مگر ہمارا ذہن استنبول میں پہنچ چکا تھا۔ ایجنٹ کا خیال تھا کہ ہم وقفے کی وجہ سے ترکش کو رد کر دیں گے، اس لئے شاید موصوف   استنبول میں زیادہ ایام کے قیام کی مجبوری پر بات کر رہے تھے۔ ہم  نے واپس ایمیریٹس ایئر اور اتحاد ایئر کے ممکنہ تاریخ سفر پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا کہ تینوں ٹکٹ کے پرنٹ آؤٹ نکالیں۔

ہم نے دیکھا کہ ترکش تقریبآ 25 فیصد واضح کم ہے لیکن وہاں پہنچنے پر چند سو روپے کا ویزہ لینا پڑے گا اور سفر کی واپسی پر بھی ویزہ کی فیس ادا کرنی ہوگی۔ خیر جناب ہم نے ایجنٹ صاحب سے کہا کہ کوئ بات نہیں آپ ترکش ایئر لائن کی نشستیں ہمارے لئے کنفرم کردیں۔ وہ حیران ہوا اور اس نے بتایا کہ آج ہی رات سفر کرنا ہوگا۔ ہمیں اچھی طرح پتہ تھا کہ قیام کروانے کی ذمہ داری ائیرلائن کی ہوتی ہے اور ائیرلائن کا قیام فائیو اسٹار ہوٹل سے کم نہیں ہوتا۔

اور یوں ہم تقریبآ 25 فیصد کم قیمت پر ناقابل واپسی دو الگ الگ ٹکٹ خرید چکے تھے۔ اور اس ٹکٹ میں دو راتوں کا جاتے ہوئے اور دو راتوں کا آتے ہوئے استنبول میں قیام شامل تھا۔  
ہم رات اپنے سفر پر روانہ ہوئے اور استنبول کے ایئر پورٹ پر زندگی میں پہلی بار اترے۔ امیگریشن سے پہلے ہم ویزہ لینے والی قطار میں کھڑے ہوئے، فوراً ہی باری آگئی۔ گوکہ ہمارے دسترس میں سرکاری نیلا پاسپورٹ تھا لیکن ہم اپنے سبز پاسپورٹ پر سفر کسی وجہ سے زیادہ پسند کرتے تھے۔

نادرا کے ریکارڈ کے مطابق ہم دونوں سینئر گورنمنٹ آفیسر تھے اس لئے یہ بات ہمارے سبز پاسپورٹ پر بھی نمایاں تھی۔ ہم نے فیس ادا کی اور ویزا لیکر ایمیگریشن کیلئے پہنچے۔ ایمیگریشن آفیسر نے پاسپورٹ دیکھتے ہی کہا کہ آپ نے ویزا کی فیس کیوں ادا کی ہے آپ واپس لے لیں۔ میں نے بتایا کہ ایئر لائن والوں نے کہا تھا، ٹکٹ پر لکھا ہے اور ویزا دینے والے نے پاسپورٹ دیکھا تھا۔

اس نے کہا نہیں آپ پر ویزا فیس لاگو نہیں ہوتی۔ میں نے فوراً بتایا کہ اگلے کاونٹر پر بیگم صاحبہ بھی ہیں انھوں نے بھی فیس ادا کر کے ویزا لیا ہے۔ وہ اگلے کاونٹر پر گیا اور بیگم صاحبہ کا پاسپورٹ دیکھ کر  اس نے کہا آپ دونوں آئیں اور فیس واپس لیں۔ ہم اس کے ساتھ ہو لئے مگر فیس واپس لینے میں کچھ تکنیکی مراحل تھے جسکی کوفت اس کے چہرے پر ابھری نظر آرہی تھی اور اس کام کیلئے کچھ وقت بھی درکار تھا ۔

ہم نے ایمیگریشن افسر کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ائیرلائن والے باہر ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ فیس کی واپسی رہنے دیں۔ اس نے افسردگی سے کہا کہ واپسی پر یہ فیس مت ادا کیجیے گا ۔ آپ دونوں پر ویزا فیس کا اطلاق نہیں ہوتا ۔
ہم باہر آئے۔ ہماری مدد کیلئے موجود ائیر لائن کا نمائندہ ہمیں ساتھ والے ترکش ائیر کے ایک کاؤنٹر پر لے گیا جہاں کاونٹر پر مصروف شخص نے ہم سے پاسپورٹ اور ٹکٹ کی نقل مانگی۔

اسکے بعد اس نے بتایا کہ اس کے پاس ہمارے لئے دو پیشکش ہیں جن میں سے ایک کا ہم انتخاب کر سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ دو راتوں کے قیام کا  ٹوکن لے لیں۔ صبح کا ناشتہ ہوٹل میں مفت ہوگا آپ پرسوں اتنے بجے ہوٹل کی لابی میں آجائیے گا ہماری گاڑی آپ کو واپس ائرپورٹ لے آئیگی۔ دوسرا یہ کہ آپ ہوٹل جائیں۔ اپنی مرضی سے جہاں چاہے ٹھریں۔ ہم استنبول شہر گھمانے کا ٹوکن دیتے ہیں۔

اس ٹوکن سے آپ مفت استنبول کی سیر کرینگے اس میں ناشتہ، دوپہر اور شام کے کھانے کے علاوہ بیچ میں چائے کافی بھی ہوگی۔ ایک ہی سانس میں اس نے ہمیں اپنی بات سنادی۔ میں نے کہا کہ ہم میں سے ایک کو ہوٹل کا کمرہ اور ایک کو گھومنے والا ٹوکن دے دیں۔ یہ سن کر وہ ایسا بلبلایا جیسے ہم نے اسکا کوئ ذاتی نقصان کر دیا ہو ۔ اس نے فوراً جواب دیا یہ نہیں ہوسکتا، آپ میاں بیوی ہیں اس لئے ہم اپ کو ایک کمرے کا ٹوکن دیں گے یا گھومنے کا ٹوکن دیں گے ۔

ملے گا کوئ ایک۔ میں اشتہار و پیشکش کی تفصیلات مکمل پڑھ کے گیا تھا ۔ اطمینان سے میں نے وقت دیکھا اور بتایا کہ ہمارے پاس دو الگ الگ ٹکٹ ہیں میری مرضی میں جو پسند کروں۔ بیگم صاحبہ کی مرضی وہ جو پسند کریں۔ پھر دریافت کیا کہ آپ کو ہماری پسند میں ناراضگی کا اختیار کہاں حاصل ہے۔ ایئرلائن کا بندہ جو ہمارا انتظار کررہا تھا اور کاونٹر تک لے کر آیا تھا وہ چاہتا تھا کہ ہم جلدی کریں اور بس میں جاکر بیٹھ کر اسکی الجھن کم اور ذمہ داری ختم کریں۔

میں نے پھر گھڑی دیکھی اور کاونٹر والے سے کہا کہ آپ نہ دیں۔ میں یہاں اسی وقت شکایت لکھنا چاہوں گا۔ وہ میرے گھڑی دیکھنے سے مزید بلبلایا اور کسی اور سے بات کرنے چلا گیا۔ چند ہی لمحوں میں واپس آکر کہتا ہے ۔ کہ ناشتہ ایک کو ملے گا۔ ایک دن میں گھومنے کیلئے صرف ایک ٹوکن استعمال ہو سکتا ہے اور دو ٹوکن گھومنے کے اور دو ٹوکن دو دن ہوٹل میں ٹھرنے کے دے دیے۔

اور ہم مسکراتے ہوئے باہر کیطرف نکل پڑے جہاں بس ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ ہم بس میں آکر بیٹھ گئے۔ ہمیں لانے والے جہاز میں ہماری طرح کے دو پاکستانی نژاد  میاں بیوی اور سفر کر رہے تھے ایک میری عمر کے سندھ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ڈاکٹرز میاں بیوی اور ایک ہم سے معمولی عمر دراز این ای ڈی سے تعلیم یافتہ انجنیر میاں صاحب اور ڈاؤ میڈیکل کالج کی فارغ التحصیل ڈاکٹر بیوی صاحبہ تھیں۔

یہ چاروں یہاں بھی بس میں بیٹھے، آخر مسافر یعنی ہمارے بس میں پہنچنے کے منتظر تھے۔ ہماری ان سے ملاقات کراچی لاونج اور جہاز میں دوران کراچی تا استنبول سفر ہوئ تھی اور کچھ گفتگو بھی رہی تھی۔ اب ہمیں پتہ چلا کہ ہم ایک ہی طرح کے مسافر ہیں اور سب نے آخر میں واشنگٹن ہی پہنچنا ہے۔ وہ چاروں وہاں کے شہری تھے اور ہم وہاں کے پردیسی۔ انھوں نے کاونٹر والا معاملہ سنا اور ہمیں معلوم ہوا کہ وہ واپسی کے راستے پر ہیں۔

پاکستان اتے وقت بھی انھوں نے ائیر لائن کی پیشکش سے صرف کمرہ لیا تھا اور اب بھی صرف کمرہ لیا ہے۔ باقی انھوں نے خود اپنا گھومنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ پہلے بھی استنبول کا سفر کر چکے ہوں۔ خیر میری روداد سن کر محظوظ اور بہت خوش ہوئے۔ راستے میں ہم نے آپس میں فیصلہ کر لیا تھا کہ قافلے میں گھومنے نہیں جائیں گے اور آزاد اکیلے گشت کریں گے، شہر گھومنے کا  ہم دونوں کو اچھا خاصہ تجربہ بھی تھا۔

آدھے پون گھنٹے بعد اب ہم ایک اونچائی پر واقع ایک بڑے ہوٹل میریٹ پہنچ چکے تھے جو استنبول کا ڈاؤن ٹاؤن لگتا تھا۔ جب فرنٹ ڈیسک پر پہنچے تو احساس ہوا کہ شہر گھمانے کے انتظام کا تعلق بھی اسی ہوٹل سے ہے۔ فرنٹ ڈیسک والے نے سفر کے بارے میں خیریت پوچھی۔ ہم نے مسکراتے ہوئے ایئرپورٹ کی روداد بھی سنائ۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اسے ہم نے بتایا کہ ہم صرف ٹھہرنے میں دلچپسی رکھتے ہیں۔

شہر اکیلے گھومنا چاہتے ہیں۔ اس نے ہمیں ایک ایگزیکٹو سویٹ کی چابی دی جو واقعی ایک بہترین بڑا پر آسائش کمرہ تھا۔ شام دھیمی دھیمی بوندا باندی میں ہم ہوٹل کے اطراف میں گھومتے رہے۔ ناشتے پہ انھوں نے ہمارے کہنے کے باوجود کوئ قیمت نہیں لی۔ اکیلے چہل قدمی کے ہم عادی تو تھے، کمپیوٹر پر بیٹھے ای میلز کا بکس کھولا۔ خطوط لکھے۔ جوابات دیے۔

پیغامات بھیجے۔ وائبر کو موبائل پر ایکٹو رکھا وغیرہ وغیرہ ۔ گوگل سے نقشے نکالے، فرنٹ ڈیسک سے معلومات حاصل کیں۔ ہوٹل کا کارڈ رکھا اور دن کاٹنے نکل پڑے۔ ہلکی ہلکی بارش۔ ہاتھ میں چھتری، اونچے نیچے راستے، صاف ستھری شاہراہیں، ٹھنڈا موسم اور پھیکے کباب آج بھی ان کی یادیں محسوس کر سکتا ہوں۔ ادھر ادھر سڑکوں پر استنبول کی جامعہ میں، بازار میں وغیرہ وغیرہ اور شہر کے اندر خوب چہل قدمی کی۔

ہوٹلوں پر اور ٹیکسیوں میں ہمارے پاکستانی ہونے کا سن کر وہاں کے شہریوں کے دلوں میں اضافی عزت و تکریم پاکستان کے لئے محسوس کی۔۔۔
امریکہ سے واپسی پر ویزہ فیس دینی پڑی نہ ہی کسی تشریح کی ضرورت۔ ہمارے کراچی کے ایک عزیز دوست نے اپنے استنبول کے رہائشی کسی دوست کو ہماری مہمان نوازی کرنے کو کہا وہ ہمارے عزیز کا دوست واقعی بہت ہی مہمان نواز تھا اس نے کسی مقامی جاننے والے کی ذمہ داری لگادی جو ہمیں ہوٹل سے صبح صبح لیکر نکلیں اور رات تک استنبول کا تاریخی یادگار سفر کروایا۔

عزیز دوست کا وہ مہمان نواز دوست خود اس دن اس شہر میں نہیں تھا اور اس نے آخر تک ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا بعد میں پتہ چلا کہ وہ اس وقت استنبول میں نہیں ہے ورنہ وہ خود ساتھ ہوتا۔ ترکش ائیرلائن کا سفر بہت آرام دہ، بہت حسین اور بہت یادگار رہا۔ ان کی مہمان نوازی بھی ہم نے بہت اعلیٰ پائی ۔ اور ٹکٹ 25 فیصد سستا رہا۔ چار دن کی مفت استنبول کی سیر کسی کی منصوبہ بندی تھی جسکی چھتری کبھی نظر سے اوجھل اور اکثر ہمارے سر پر تنی مستعد نظر آتی ہے۔ اللّہ آپ سب پر زندگی کے مراحل آسان اور پرلطف رکھے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :