
کتابیں اور اکیسویں صدی
جمعہ 24 اپریل 2020

ڈاکٹر راحت جبین
اس شوق کے بیمار صرف ہم ہی نہ تھے بلکہ کلاس فیلوز اور رشتہ دار سب ہی مبتلاٸے کتاب عشق تھے۔
(جاری ہے)
ہم بچے تو خصوصاً اخبار میں بچوں کے صفحے کے متلاشی ہوتے اور ہر ایک کو یہ جلدی ہوتی کہ وہ یہ اخبار سب سے پہلے پڑھے۔
اسکول اور کالج میں ایک دوسرے سے کتابیں ادھار لے کر بھی پڑھنے کا چسکا لگا رہتا تھا. اپنے اسی شوق کے مدنظر ایک دوسرے کو تحفہ دینے کے لیے بھی کتاب ہی ہماری پہلی چواٸس ہوتی تھیں۔ ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ سیکنڈ اٸیر کی پارٹی کے لیے فیصلہ ہوا کہ سارے ٹیچرز کے لیے گفٹ لینا چاہئے.گفٹ کے لیے سب کا فیصلہ کتاب ٹہرا. پیسے جمع کرنے کے بعد سارے ٹیچرز کے لیے کتابیں خریدیں . مگر مسٸلہ اسوقت پیدا ہوا کہ اسلامیات کے ٹیچر کو اسلامی کتاب کے بجاٸے شاعری کی کتاب گفٹ میں دے دی اور جواب میں اس ٹیچر نے جو ہماری کلاس لی وہ الگ کہانی ہے۔۔کتب بینی کی اس محبت میں میری ذاتی لاٸبریری میں کتابوں کی کثیر تعداد جمع ہوگٸی تھی. چھوٹے بھاٸی نے ان کتابوں سے اسطرح فاٸدہ اٹھایا کہ ان کی چھوٹی سی پبلک لاٸبریری بنا ڈالی۔ مگر افسوس کہ جب میں ہاسٹل میں تھی, گھر والے بدین سے کراچی شفٹ ہوئے تو کتابیں ادھر ادھر ہوگئیں جس کا مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا.
ادبی محفلیں تو اس وقت کی رونق ہوا کرتی تھیں۔ کسی ادیب کی نٸی کتاب کی رونماٸی میں بڑے بڑے دانشور اور صحافی، سکالرز ہوتے تھے اور سب کتاب پر تبصرہ اور تجزیہ کرتے اور حوصلہ افزاٸی کرتے اور ہم ٹی وی پر ایسے پروگرام دیکھ کر خوش ہوتے.
مگر وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹیکنالوجی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔مجھے یاد ہے کہ اسکول کے زمانے میں, میں نے اخبارات کی کٹنگ سے مزین دو رجسٹر بنایے تھے۔ ایک میں مستقبل کی ایک انوکھی ایجاد موباٸل کی خبر بھی تھی مگر یہ نہیں اندازہ تھا کہ یہ موباٸل اتنی جلدی ہم سب کی ایکٹیوٹیز کو دیمک کی طرح چاٹ لے گا. اس موباٸل نے جہاں کلینڈر, گھڑی, ٹارچ, ٹی وی ,سینما, فوٹو البم,الارم اور کئی دوسری ضروریات زندگی کو اپنے اندر مدغم کیا وہیں کتابوں کو بھی اپنے اندر سمو لیا ۔ کہیں پی ڈی ایف اے کی شکل میں تو کہیں ویب ساٸیٹس کی شکل میں. جہاں ایک طرف اب کتابیں پہنچ سے نزدیک ہوگئیں وہیں مطالعے سے دور ہوگئیں. جو کتاب پہلے طلباء کو ایک ایک روپے جمع کرکے خریدنی پڑتی تھیں اب پانچ منٹ کے سرچ کے بعد ہماری الیکٹرانک لاٸیبریری کا حصہ بن جاتی ہیں مگر انہیں کھول کر پڑھنا بمشکل ہی نصیب ہو پاتا ہے . اکثر اوقات تو یہ کتابیں جگہ کی کمی کے باعث ڈلیٹ کی نذر ہوجاتی ہیں یہی سوچ کر کہ ضرورت پڑنے پر دوبارہ ڈاٶن لوڈ کر لیں گے.
اسی طرح اخبار کا مطالعہ بھی لطف کا ذریعہ ہوتا تھا۔ گھر میں کبھی کبھار ایک وقت کے کھانے کا ناغہ ہو سکتا تھا مگر اخبار کا ناغہ گوارا نہ تھا اور اخبار کی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی خبر کا پڑھنا تو جیسے فرائض میں شامل تھا۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی نے اخبارات کو بھی پی ڈی ایف اے کی شکل میں نگل لیا ۔ ہمیں ہر جگہ موباٸل کی دکانیں ملیں گی اور ان میں لوگوں کا رش اس بات کی دلیل ہے کہ یہ زہر لوگوں کے دل و دماغ میں بری طرح سراٸیت کرگیا ہے ۔ مگر وہیں دوسری جانب کتابوں کی دکانیں تو اب نظر نہیں آتی. کتابوں کی بڑی دکانیں جو علاقے کی جان ہوتی تھیں اب وہاں کوئی اور قابل منافع اشیاء کی دکانوں نے لے لی ہیں۔ لاٸیبریری جو آلہ ادب کا خزینہ کہلاتی تھیں, وہاں لوگوں کا رحجان بالکل بھی نظر نہیں آتا۔ اگر کہیں کہیں پہ لاٸیبریری زندہ ہیں اور سانس لے رہی ہیں تو وہ ہیں صرف تعلیمی اداروں کے لاٸبریری وہ بھی طلبہ کی مجبوری ہیں ورنہ تو بڑے بڑے شعرا اور ادباء کی کتابیں تو اکثر گردو غبار اور جالوں کی نذر ہوجاتی ہیں .
کہا جاتا ہے کہ یہ صدی کتاب بینوں کے لیے آخری صدی ہوگی کیونکہ موجودہ دور میں کتاب بینی کہیں کہیں زندہ ہے, ایک موہوم سی امید کے ساتھ. لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ واقعی یہ صدی کہیں کتاب بینی کے لیے آخری صدی نہ ہو. جہاں ایک جانب لیپ ٹاپ اور موباٸل نے اسے گھاٸل کردیا ہے وہیں ہمارے نظام تعلیم پر بھی اس کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے ۔ کیونکہ ہمارے نظام تعلیم میں بچوں پر بھاری بستے کا جو اضافی بوجھ لادا جاتا ہے ۔ وہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرتا ہے. اس کی وجہ یہ ہے اس پہاڑ نما بستے میں بہت سی کتابیں غیر متعلقہ ہوتی ہیں جن کو پورے سال میں ایک بار بھی کھلوانے کی نوبت نہیں آتی ۔ غیر ضروری کتابوں کے انبار اور وقت سے پہلے موباٸل کےاستعمال سے بچے کتابوں کے قریب آنے کے بجاٸے ان سے دور ہوجاتے ہیں ۔
اس کے علاوہ غم دوراں اور غم روزگار کے چکروں میں وقت کی کمی بھی ایک اہم وجہ ہے کتب بینی سے دور ہونے کی. اسکے علاوہ مہنگاٸی نے بھی ایک حد تک اس مشغلے کو پس پشت ڈال دیا ہے. کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک مہنگا شوق بن چکا ہے اس لیے وہ کتابیں خریدنے کے بجائے پیڈی ایف سے پڑھنا زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں.
موباٸل کے تعلیمی حوالے سے کٸی فاٸدے ہونے کے باوجود کتب بینی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں. جیسا کہ ولیئم سو مرسٹ نے کہا ہے کہ ” زندگی کی بدصورتیوں سے پناہ لینے کا طریقہ کتب بینی کی عادت ہے“۔
کتابوں سے دوستی رکھنے والا کبھی بھی تنہا نہیں ہوتا اور اسے کسی دوست کی ضرورت بھی کم ہی پڑتی ہے. اس کے علاوہ کتابیں انسان کی شخصیت کو نکھارنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اب ہم سب کو مل کر ادب کو مرنے سے بچانا ہوگا اور کتابوں کو شیلف کی زینت بنانے کے علاوہ پڑھنا بھی ہو گا .اس کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں اخبارات کا مطالعہ اور اس پر بحث و مباحثہ کو عادت بناٸیں . گھر میں کتابوں کی دستیابی اور مطالعہ کو اپنی روزمرہ کا معمول بناٸیں ۔ دن میں کم سے کم کچھ وقت کتب بینی کے لیے مختص کریں ۔ لازم نہیں ہے کہ ہم کتاب پڑھنے کے لیے لاٸبریری جاٸیں بلکہ اپنے دلوں کو ان کتابوں کی لاٸبریری بناٸیں ۔ اور بچوں کو ان معمولات میں اپنے ساتھ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور ان میں شوق مطالعہ کو فروغ دینے کے لیے کتانوں کے تحاٸف بھی دیں۔ اس کے ساتھ ہی سکول اور جامعات کے لیول پر ایسے مقابلے منعقد کرنے چاہئیں جن میں کتب بینی کو فروغ دیا جاسکے۔ ساتھ ساتھ طلباء کی تحریر ی رجحان کو فروغ دینا چاہیے۔ لوگوں میں بین الاقوامی ادب کو متعارف کرانے کے لیے ان کی معیاری کتابوں کا مقامی زبانوں میں ترجمہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ رعایتی قیمت میں کتابوں کے میلے منعقد کرانے سے بھی کسی حد تک اس شوق کو تقویت دی جاسکتی ہے۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر راحت جبین کے کالمز
-
"سرطان کا عالمی دن"
جمعہ 4 فروری 2022
-
"کیا ہم مردہ پرست قوم ہیں؟"
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
"استاد اور معاشرتی رویہ"
منگل 5 اکتوبر 2021
-
لٹل پیرس کا گورنر ہاؤس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
رشتے کیوں ٹوٹتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
یوم آزادی، کیا ہم آزاد ہیں ؟
بدھ 11 اگست 2021
-
شریکِ جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے
بدھ 28 جولائی 2021
-
"عید الاضحی کے اغراض و مقاصد"
جمعہ 23 جولائی 2021
ڈاکٹر راحت جبین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.