"عید الاضحی کے اغراض و مقاصد"

ہفتہ 1 اگست 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

عید الاضحی صرف ایک مذہبی تہوار ہی نہیں بل کہ ایک عظیم الشان قربانی کی یاد ہے جو ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ سلام اور حضرت اسمعیل علیہ سلام کے مابین اس  قربانی کا احاطہ کرتی ہے جس میں ابراہیم علیہ سلام اپنے بیٹے سے اس خواب کا ذکر کرتے ہیں جس میں اللہ تعالی خلیل اللہ کو اپنا بیٹا  ذبح  کرنے کا حکم دیتے ہیں . جواب میں حضرت اسماعیل علیہ سلام اللہ کے حضور قربان ہونے کے لیے خوشی  خوشی راضی ہوتے ہیں .

نہ ابراہیم علیہ سلام کے ہاتھ کانپتے ہیں اور نہ ہی تختہ دار کی طرف بڑھتے ذبیح اللہ, حضرت اسماعیل علیہ سلام کے قدم ڈگمگاتے ہیں. عین قربانی کے وقت تختہ دار پر رب کے حکم سے دنبہ آتا ہے . یہ ہے اطاعت اور بندگی کا وہ عظیم جذبہ جس نے پیغمبروں کو باقی انسانوں سے الگ اور اونچا رتبہ عطا کیا .اس لیے اسے سنت ابراہیمی بھی کہتے ہیں اور تب سے یہ فرائض حج  میں شمار ہونے لگا ہے اور حج بھی سنت ابراہیمی کا ہی احاطہ کرتی ہے.
مگر افسوس مسلمان ہونے کے ناطے  ہمیں سنت ابراہیمی ادا کرنا تو  یاد ہے مگر اس کے پیچھے کے اغراض و مقاصد ہم بھول گئے ہیں .

ہم ہر عید کو بہت پرجوش انداز میں قربانی کرتے ہیں . قربانی کا جانور خریدتے وقت اور قربانی کرتے وقت خود کو قابل فخر سمجھتے ہیں مہنگے سے مہنگا جانور خریدنے کی کوشش کرتے ہیں. مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالی کو یہ عمل پسند آئے گا کہ ہم قربانی کے لیے لاکھوں میں جانور خریدیں . مگر مجھے نہیں لگتا کہ مہنگا جانور خریدنا قربانی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول ہے .

اس سے بہتر ہے کہ ایک اچھا جانور جو  قربانی کے معیار پر پورا اترے قربان کرکے باقی پیسوں سے آس پاس کسی بھی سفید پوش ضرورت مند کی مدد کی جائے اس سے قربانی قبول ہوگی .
ہمیں قربانی کا جانور خریدنے کے ساتھ ساتھ اپنے  ڈیپ فریزر اور فرج کی بھی فکر ہونے لگتی ہے . اور گوشت کا زیادہ تر حصہ ان کی نذر ہوجاتا ہے . اس طرح قربانی کا بنیادی مقصد بالکل فیل ہوجاتا ہے.
عید الضحی منانے اور قربانی کرنے کے لیے سب سے اہم بات اس کے اغراض و مقاصد سے پوری طرح آشنا ہونا اور  ان پر عمل کرنا بہت ضروری ہے.
قربانی کا سب سے پہلا اور اہم مقصد تو یہی ہے کے سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے خلوص نیت سے صرف اور صرف رب کی رضا کے لیے قربانی کی جائے اور اس میں دکھاوے کا عنصر بالکل بھی نہ ہو , پھر چاہے وہ انتہائی کم قیمت جانور ہی کیوں نہ ہو وہ دربار خداوندی میں قابل قبول ہوگا کیونکہ سب اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہیں اور اس کے لیے کوئی بد تر یا برتر جانور نہیں.
قرآن مجید کے سورۃ حج میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کردیا ہے تاکہ لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔

(جاری ہے)

پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اسی کے تم مطیع فرمان بنو۔‘‘ (الحج:34 )
یعنی اصل مقصد زمان اور مکان نہیں بلکہ خلوص نیت سے قربانی ہے.

اللہ کے نزدیک قربانی کو اسلامی عبادات کا ایک ضروری حصہ بنادیا گیا ہے اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ سلام کی قربانی کو تا قیامت امر کردیا گیا ہے اور اسی دن کی مناسبت سے حج کے موقع پر  نہ صرف مکہ مکرمہ میں بلکہ پوری امت مسلمہ کو اس بات کا پابند بنا دیا گیا  ہے کہ وہ بھی شریک عبادت رہیں اور ثواب دارین سے محروم نہ رہیں . اس دن کو عالم اسلام میں عید الاضحی منائی جاتی ہے یعنی یہ مسلمانوں کے لیے خوشی کا مقام ہے کہ باپ پیغمبر کے ہاتھ ایک بیٹا پیغمبر ذبحہ ہونے سے بچ گیا.
سورۃ حج میں ہی ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں .
(ترجمہ) ’’اور  اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھلائی ہے۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے ان کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو۔‘‘(الحج:36۔37 )
یہاں مراد یہی پے کہ خون گرانے اور گوشت کی نیت سے یہ قربانی نہیں کرنی چاہیے بلکہ تقوی کی بنیاد پر کیونکہ رب کائینات کو خون اور گوشت سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا .

بلکہ یہ اس بات کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کا ہی ہے اور ہم اللہ کے حکم سے ہی قربانی کرتے ہیں . اور پھر اس کے تین حصے کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں اپنے اردگرد غریبوں اور رشتہ داروں کا بھی خیال رکھنا چاہیے. جن کی حیثیت نہیں ہے کہ وہ قربانی کرسکیں یا پھر پورا سال گوشت تو الگ باقی کھانے وغیرہ سے محروم رہتے ہیں.

قربانی کے نتیجنے میں جہاں ایک طرف  ان کے گھر میں بھی چولہا جلتا ہے. تو دوسری طرف آپس میں محبت اور یگانگت کا درس بھی ملتا ہے . یعنی ہمیں حج , قربانی اور عید کے اس تہوار سے حقوق اللہ اور اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ایک ساتھ موقع ملتا ہے.
اس قربانی کا ایک اور اہم مقصد اللہ تعالی کی بڑائی کو ماننا اور ہمیشہ اس کے ہر حکم کی پاسداری کرکے سر تسلیم خم کرنا بھی ہے.

اورجان نثاری  تابعداری کرنا اور حق بندگی ادا کرنے میں بالکل بھی نہیں جھجکنا شامل ہے . ساتھ ہی اس کی عطا کردہ نعمتوں کا دل سے شکر گزار ہونا بھی ان شعائر میں شامل ہے
اس لیے ہمیشہ قربانی کرتے وقت اس کے بنیادی مقاصد اور اغراض کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی قربانی کرنی چاہیے  اور حق بندگی پورے جوش اور ولولے سے ہی ادا کرنا چاہیے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :