"2021 کا پاکستان زمینی حقائق کی روشنی میں"

ہفتہ 9 جنوری 2021

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

اسے ہم انسانی نفسیات کہہ لیں کہ ہر گزرے ہوئے سال کے احداف, تجربات اور حاصل شدہ مقاصد ,کی روشنی میں آنے والے سال کا جائزہ لیا جاتا ہے  اور یہ امید بندھتی ہے کہ شاید نیا سال گذشتہ سال کے مقابلے میں نئی امیدیں اور خوشیاں لائے مگر  سال گزرتے گزرتے  زیادہ تر توقعات اور خواب  ہمیشہ کی طرح ناآسودہ  ہی رہتے ہیں . اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جہاں تمام اداروں اور لوگوں کے مبینہ اور غیر مبینہ کرپشن کی وجہ سے ترقی کی رفتار ظاہر سے زیادہ صرف فائلوں میں بڑھ رہی ہے مگر درحقیت  ہم دن بدن ترقی سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں.

سالانہ عالمی رپورٹس اور زمینی حقائق اس بات کی بھرپور عکاسی و ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں. اسی طرح اگر ایک بار پھر 2020 کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ پاکستان کو درپیش نئے سال کے چیلنجز وہی ہیں جو پچھلے سال بھی  تھے . پاکستان سمیت دنیا بھر میں پچھلا سال کورونا کی وبا کے باعث  اس صدی کا سب سے زیادہ پریشان کن اورتکلیف دہ سال رہا .

صرف یہی نہیں کورونا کی اس سنگین صورحال کے پیش نظر نئے سال میں بھی مزید نئے  ممکنہ مسائل کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے.
      پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو  پچھلے ستر سالوں میں ملکی مخدوش صورت حال جو تھی سو تھی لیکن اگر ہم تبدیلی کے پچھلے چند سالوں کا تفصیلی جائزہ لیں تومعاشی استحکام کا جو خواب تحریک انصاف کی حکومت نے پچھلے بائیس سال سے مسلسل دکھایا تھا,  اب دو ڈھائی سال وفاقی حکومت  اور تقریباً آٹھ سال خیبر پختونخوا کی حکومت میں رہ کر  ہاتھ اٹھا دیے کہ یہ ان کے  بس کا کام نہیں .

تجربہ اور تیاری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی معاشی ٹیم اس سلسلے میں تیار نہیں تھی . وزیراعظم کے اس بیان کی روشنی میں اب تو آگے معاشی اعتبار سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا خواب بھی دیوانے کا خواب لگنے لگا ہے.
اس وقت بھی  نئے سال کے نام پر صرف ایک ہندسہ ہی بدلہ تھا جب ملک کو نئے پاکستان اور ریاست مدینہ کا نام دیا گیا مگر حقیقت میں وہی پرانا پاکستان ہی رہا.  ضمیر نئے پاکستان میں بھی بکتے رہے اور پارلیمنٹ میں تخت نشین چہرے بھی وہی پرانے رہے .

سیکیورٹی کے نام پر پرٹوکول اب بھی لیا جاتا رہا. غریب عوام کو دکھایا گیا اعلی معیار زندگی کا خواب بھی محض خواب ہی رہا. نئے پاکستان میں مہنگائی عروج پر رہی مگر تنخواؤں میں خاطر خواہ اضافہ بھی نہیں کیا گیا. ان سالوں میں بھی بھوک , افلاس  اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام نے خودکشیاں کی. ناحق خون اب بھی بہتا رہا, ٹارگٹ کلنگ کے نام پر  ماورائے عدالت مسخ شدہ لاشیں اب بھی گرتی رہیں.

پھول جیسی معصوم بچیاں اور عورتیں نئے سال میں بھی نفسیاتی افراد کی جنسی ہوس کا شکار ہوتی رہیں. اور تو اورانصاف کے نام پر آئی حکومت میں انصاف غریب عوام کے لیے شجر ممنوعہ قرار پائی. جہالت اب بھی عروج پر رہی اور تعلیم کے ساتھ سوتیلا پن اب بھی ویسے ہی دکھایا جاتا رہا.  دواؤں کی قیمتوں میں تین سو فیصد سے اوپر اضافہ کرکے صحت کی ضروریات غریب عوام کی دسترس سے مزید دور کردی گئیں.

ایکسیڈنٹ  بھی اسی رفتار سے ہوتے رہے  بلکہ اب تو زندگی کے ساتھ ساتھ موت بھی مہنگی کی گئی. کشکول توڑنے کی بات کرکے آئی ایم ایف اور کئی دیگر ممالک سے بھیک اب بھی مانگی جاتی رہی.  چمن ,ایران اور افغانستان کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اب کرتار پور راہ داری بھی کھول دی گئی . اس سال تو باقی رہی سہی کسر کورونا اور ٹڈی دل نے پوری کردی.
اس سلسلے میں اگر سیاست کی بات کی جائے تو وہ سوائے سیاسی اکھاڑوں اور ان کی شعبدہ بازیوں کے اور کچھ بھی نہیں.

پارلیمانی ممبر عوام کو بے وقوف بنا کر اور ان کے ووٹوں سے سلیکٹ ہو کر پارلیمان میں  آ تو جاتے ہیں مگر یہاں آکر عوام اور ان کے خدمت کا جذبہ ہوا ہو جاتا ہے اور  ان کے پارٹی منشور کی دہجھیاں بکھر جاتی ہیں. ان کا کام  صرف اور صرف کرپشن کے ذریعے اپنی جائیدادیں بنانا اور سیاسی پارٹیوں کے ذاتی اختلافات  تک رہ جاتا ہے. یہ لوگوں کو لفظوں اور ہندسوں کے جال میں دھکیل کر اپنی ذاتی معاشی اور سیاسی پوزیشن  مستحکم کرتے ہیں.  کچھ دن پہلے حکومت کے ترجمان و وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ "وزیراعظم چوروں کے لیے تھانیدار اور عوام کے تعبدار ہیں".

ان کی کارکردگی کو دیکھ کر لگتا تو نہیں ہے کہ وہ عوام کے  تعبدار ہیں اگر ایسا ہوتا تو آج عوام کے قدم خودکشی کی طرف نہ بڑھتے.  وہ  بھی پچھلے حکمرانوں کی طرح صرف اور صرف اپنی ان خواہشات کا تعبدار ہیں, جس کے لیے بائیس سال محنت کی یعنی وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنا اور بس . جنہیں خود انہوں نے  چور, ڈاکو اور قاتل کہا انہیں ڈپٹی اسپیکر , وزیر داخلہ اور اپنے اتحادی بنانے والا تو تھانیدار ہر گز نہیں ہوسکتا.

ویسے اگر ایک پاکستانی بن کر سوچا جائے تو شبلی فراز نے کچھ غلط بھی نہیں کہا کیونکہ پاکستان میں تھانیدار ویسے بھی رشوت خور ہیں اور چور باہر اور معصوم عوام اندر ہیں. موجودہ اور گذشتہ سیاسی جماعتوں کی اس تھانیداری اور تعبداری کی ہی وجہ سے ہی کرپشن کا مسئلہ جو ہر جگہ جڑ پکڑ چکا ہے  اس کو اکھاڑ پھینکنا اب تقریباً ناممکن  نظر آنے لگا ہے اور تبدیلی کا دکھایا جانے والا خواب بھی محض سیاسی شعبدہ بازی ہی لگتا ہے.
گذشتہ ماہ سال کی کارکردگی اور وبائی صورت حال کے پیش نظر  آتے ہیں ان چیلنجز کی طرف جو 2021 میں پاکستان کو درپیش ہیں.

سال نو کے شروع ہوتے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ, اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں اسامہ ندیم کا بہیمانہ قتل,  کراچی میں عورت کی بچے سمیت چھت سے کود کر خودکشی کی کوشش,  مچھ میں گیارہ ہزارہ کان کنوں کا اغوا اور ٹاگٹ کلنگ اور اسکولوں کی مسلسل بندش  اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس سال بھی صرف ہندسہ ہے بدلا ہے, حالات اسی مقام پر رہیں گے.
اگر کورونا کے حوالے سے بات کی جائے تو اس وبائی بیماری کی وجہ سے باقی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بھی کمر ٹوٹ چکی ہے.  زندگی کے ہر شعبے میں اس کی وجہ مسائل پیدا ہوئے ہیں.

معاشی بحران سے لے کر اقتصادیات, صحت, تعلیم اور لوگوں کے روزگار متاثر ہوئے ہیں. لیکن اس کے پیچھے یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان کو اتنا نقصان کورونا نے نہیں پہنچایا جتنا اس کے پیچھے کی گئی سیاست نے پہنچایا. وبائی صورت حال سے فائدہ اٹھا کر باقی ممالک نے تیل اور پٹرولیم کے ذخائر بڑھائے مگر ہماری گورنمنٹ نے یہاں بھی گھاٹے کا سودا کیا جس کا براہ راست اثر 2021 میں معیشت کو نقصان کی صورت میں  اٹھانا پڑے گا.

اس سال بائیس کروڑ سے اوپر عوام کے لیے کورونا ویکسین کی فراہمی بھی ایک بہت بڑا چیلینج ہے اور معیشت پر ایک اضافی بوجھ بھی . اس سلسلے میں کم قیمت کو مد نظر رکھ کر امریکہ کے بجائے چائنا کی ویکسین کے لیے ٹینڈر منظور کیے جا رہے ہیں. اس بات کا بھی کم امکان ہے کہ ایمانداری سے یہ ویکسین اسی سال بائس کروڑ عوام تک پہنچ بھی پائے گا یا یہاں بھی کرپشن کی اعلی مثالیں قائم ہوں گی .
2021 میں مہنگائی کی بات کی جائے تو گورنمنٹ کی جانب سے عوام کے لیے نئے سال کے پہلے دن کا تحفہ پٹرول مزید 2.31 روپے, ڈیزل 1.80روپے ,مٹی کا تیل 3.36 روپے اور ایل پی جی 16 روپے مہنگائی کی صورت میں دیا گیا.

اس اقدام سے وزیراعظم عمران خان کے اس دعویٰ کی قلعی بھی کھل گئی جو 2020 کے لیے کیا گیا تھا کہ "گزشتہ سال معاشی استحکام کا سال تھا اور ان شاء اللہ موجودہ سال معاشی ترقی کا سال ہوگا۔

(جاری ہے)

جس میں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مل سکیں گے۔ سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور اشیاء کی قیمتوں میں توازن آئے گا"
ماہ دسمبر 2020 میں معیشتوں کی درجہ بندی کرنے والے ادارے موڈیز نے کہا ہے کہ آئندہ دو سالوں میں پاکستان کا معاشی نمو 4.3 اور 4.7 فیصد رہے گا  جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال (21-2020) کے دوران پاکستان کی معاشی بحالی 2 فیصد رہنے کا امکان ہے.

جو کہ گذشتہ اعداد شمار کے مطابق 5.8 فیصد سے منفی 1.2 فی صد تک پہنچا تھا. ایشیائی ترقیاتی بینک کے ہی اعداد شمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں معاشی نمو 4.9 فیصد سے بڑھ کر 7.1 فیصد تک ہوگا. چین میں  7.3 فیصد سے بڑھ کر 7.7 فی صد,  بھارت میں 5-6 فیصد سے بڑھ کر 8 فیصد اور بنگلہ دیش 6.8 فیصد تک متوقع  ہے. اس سلسلے میں پاکستان میں یہ 2 فیصد بھی وبائی صورت حال کی کمی پر منحصر  ہے.

دوسری جانب  اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی جی ڈی پی کے 2.4 فیصد پر رہنے کا خدشہ ہے.
اسی طرح 2021 میں غربت, عام شخص کا معیار زندگی, تعلیم کی روز بروز  گرتی ہوئی پریشان کن صورت حال, صحت کے مسائل , انصاف کی عدم دستیابی ,امن و امان کی سنگینی , اسٹریٹ کرائمز ,  بڑھتی ہوئی بیروزگاری, دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیت زندگی کی کمی بھی ایک ایٹمی طاقت والے ملک کے لیے بہت بڑھے چیلیجز ہیں.

مستقبل میں ان تمام مسلئوں اور چیلینجز سے نپٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ترجیحات طے کر لیں. ہمیں سیاست اور ذاتیات سے نکل کر پورے خلوص اور ایماندری سے کام کرنا ہوگا . معیشت, اقتصادیات, زرعت, صنعت و تجارت اور برامدات میں اضافہ کرکے روپےکی قدر  میں اضافہ کرنا ہوگا. عام آدمی کی بقا اور خوشحالی کے لیے تعلیم, صحت اور بنیادی ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ انصاف کی فراہمی کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا.  شخصی پاور کو بڑھانا ہوگا یعنی نوجوانوں کو ہنر مند بنانا.

بہتر تعلیمی اصلاحات لانی ہوں گی. عام آدمی کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہوگا . صحیح معنوں میں افراد کے ہاتھوں میں قوم کی تقدیر دینی ہوگی ساتھ ہی چیک ایڈ بیلنس کا نظام بہتر کرنا ہوگا. سب سے بڑھ کر انصاف کے نظام کو دباؤ سے آزاد کرنا ہو گا.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :