فلسطین اسرائیل کا تنازع کیا ہے؟؟

جمعہ 28 مئی 2021

Ehtesham Ullah

احتشام اللہ

یروشلم مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے بہت مقدس مقام ہے۔ مسلمانوں کیلئے بیت المقدس قبلہ اول اور فلسطین انبیاء کی سرزمین ہونے کی وجہ سے اس خطے کی حرمت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اسرائیل دراصل حضرت ابراہیم کے پوتے اور حضرت اسحاق کے بیٹے  حضرت یعقوب کا عبرانی لقب تھا۔ حضرت اسحاق کے 12 بیٹوں کی اولادیں  اور قبیلے انہی علاقوں میں آباد ہوئے جو کہ بنی اسرائیل کہلاتا تھا۔

ان علاقوں میں فلسطین، عراق، شام، اردن، لبنان، کویت ، ترکی، مصر اور سعودی عرب کے علاقے شام ہیں۔ یہودی  ان تمام علاقوں کو ازل سے یہودی ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں جو متعدد جنگوں کی صورت میں ان سے چھین لئے گئے۔ اب انکا یہی منصوبہ ہے کہ ان علاقوں کو دوبارہ سے فتح کر کے گریٹر اسرائیل کے نام سے ایک ریاست بنائی جائے جہاں سے پوری دنیا کوکنٹرول کیا جائے۔

(جاری ہے)


اس منصوبے کی تکمیل کیلئے سب سے پہلا مرحلہ عرب میں یہودی ریاست کا قیام تھا۔ اس مقصد کیلئے سب سے پہلے ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف سازش کی گئی کیونکہ اسکے ہوتے ہوئے یہودی ریاست کا قیام ناممکن تھا۔ خلافت عثمانیہ کو کمزور کرنے کیساتھ یہودیوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر  فلسطین میں زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے سازباز شروع کر دی۔ انیسویں صدی کے آخر تک فلسطین میں یہودیوں کی آبادی صرف 5 فیصد تھی جس وجہ سے  یہودی ریاست کا قیام بہت مشکل ٹاسک تھا،اس مقصدکے حصول  کیلئے بہت طاقتور لابی تیار کی گئی جسکی قیادت 2 زائنسٹ رہنماء چیم وزمین اور نہوم سکولو کر رہے تھے۔


 پہلی عالمی جنگ کے دوران انکی کوششوں اور برطانوی قیادت کیساتھ خفیہ ملاقاتوں کی بدولت 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ  آرتھر جیمز بیلفور نےاینگلو جیوش کمیونٹی کے سربراہ لائنل والٹررُتھس چائلڈ کے نام ایک خفیہ خط میں یہودیوں کو مملکت کا درجہ دیتے ہوئےانہیں فلسطین کی آدھی سرزمین پر یہودی ریاست کی آبادکاری کیلئے پیشکش کی، عالمی ادارہ برائے زائنسٹ نے اس پر آمادگی ظاہر کردی، برطانیہ کے اتحادی بھی اس منصوبے کے حامی تھے اسلئے بعدازاں 24جولائی  1922ء کولیگ آف نیشن نے ایک قراردار کے ذریعے اس کی منظوری دیدی۔


2 نومبر 1917ء کے اس خط کو بیلفور ڈیکلیریشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ فلسطین سمیت دیگر عرب اور مسلم ممالک اسے ایک سازش سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ یہ صرف یہودیوں کی برطانیہ کے ساتھ ملی بھگت سے کیا گیا اور اس معاملے کے سب سے بڑے فریق عرب ممالک کو کسی سطح پر بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
1939ءمیں جب دوسری عالمی جنگ کے بادل منڈلانے لگے اور برطانیہ پرعرب ممالک کا دباؤ بھی بڑھنے لگا تو  مئی 1939ء کو برطانیہ نے مشرق وسطیٰ کے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرکے ایک وائٹ پیپر جاری کر دیا۔

وائٹ پیپر کمیونیکیشن کے ذریعے برطانیہ نے مزید  75000 یہودیوں کو امیگریشن کی اجازت دیتے ہوئے اگلے پانچ سال کیلئے امیگریشن پر پابندی عائد کر دی، اور مزید امیگریشن کا عمل فلسطین میں موجود عرب رہائشیوں کی رضامندی سے مشروط کر دیا، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ برطانیہ کو مسلمانوں کی حمایت درکار تھی تاکہ دوسری جنگ عظیم میں اسے شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اسی لئےزائنسٹ رہنما ؤ ں نے اسکی  بھرپورمخالفت کی،  اوراسے بیلفورڈیکلیریشن کی خلاف ورزی اور عرب ریاستوں کی حمایت قرار دیا، اسی چپقلش میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا، برطانیہ اور اسکے اتحادیوں کو شکست ہوئی اور 14مئی 1948ء کو اسرائیل نے خود ساختہ طور پر یہودی ریاست کا اعلان کر دیا۔
فلسطینی اس واقعے کو النکبہ یعنی تباہی کے نام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر کے اسرائیلی ریاست کا وجودعمل میں لایا گیااور انہیں اپنی سرزمین پر واپس بھی نہیں جانے دیا گیا۔

اسرائیلی ریاست کے قیام سے اب تک عرب اسرائیل کی متعدد جنگیں ہو چکی ہیں  جن میں 1948ء کی پہلی عرب اسرائیل جنگ، 1967ء کی 6 روزہ جنگ جون، 1973ء کی جنگ کپور اور 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ قابل ذکر ہیں۔ 5جون 1967ء کو  اسرائیل نے مصر اور یمن کی جنگ اور عرب ممالک کی آپسی تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر پر غیراعلانیہ جنگ مسلط کر دی، 6 دن کی مختصر جنگ میں عرب اتحاد کو شکست ہوئی اور اسرائیل نے شام میں گولان کی پہاڑیوں، مصر کے پورے جزیرہ نمائے سینہ اور مغربی بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا۔


6 اکتوبر 1973 ء کو یہودیوں کے تہوار یوم کپور کے موقع پر مصر اور شام نے اپنے علاقے واپس حاصل کرنے کیلئے اسرائیل پر حملہ کر دیا، اسرائیل کو پسپائی ہوئی اور عرب اتحاد نے اپنے کافی علاقے واپس حاصل کر لئے۔ لیکن اس کے بعد سرائیلی افواج نے وقتا فوقتا مزید علاقوں پر قبضہ کرلیا جس میں غربِ اردن، یروشلم اور شام کی گولان کی پہاڑیاں شامل ہیں۔

اور ساتھ ہی غیر قانونی طور پرمغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر شروع کر دی جو کہ تاحال جاری ہے۔
فلسطینی تنظیم الفتح کے بانی یاسر عرفات کی بیک ڈور ڈپلومیسی کی بدولت ناروے کی مدد سے 6 سالہ مذاکرات کے نتیجے میں 3 ستمبر 1993 ء کو ایک امن معاہدہ کیا گیا جس کے تحت فلسطین لبریشن آرگنائزیشن [پی ایل او]نے اسرائیل اور اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا۔

یہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے پہلابڑا بریک تھرو تھا۔طے کیا گیا کہ فلسطینیوں کی جانب سے عدم تشدد کی صورت میں 1967 ء کی جنگ میں قبضہ کئے گئے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلاء کیا جائے گا اور اسکے نظم و نسق کیلئے فلسطینی اتھارٹی قائم کی جائے گی اور مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے پر بھی اتفاق رائے کیا گیا۔ لیکن  بعدازاں اسرائیل یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدہ ہو گیا اور مقبوضہ علاقوں سے فوجوں کے انخلاء سے انکار کرتے ہوئے مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیاں تعمیر  کرنے کا اعلان کردیا۔

1967ء کی جنگ میں اسرائیل کیطرف سے قبضہ کئے گئے علاقوں میں اسرائیل 145 سے زائد یہودی بستیاں اور 110 سے زائد آؤٹ پوسٹیں قائم کر چکا ہےجس میں 6 لاکھ 30 ہزار سے زائد یہودی آباد ہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے28 جنوری 2020ء کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئےمشرق وسطٰی میں قیام امن کیلئے یکطرفہ منصوبے کا اعلان کیا، اس منصوبے کے خدوخال صدرٹرمپ کے داماد جیر ڈکشنرنے بڑی رازداری سے تیار کئے جس میں مغربی یروشلم کو اسرائیل کا غیر مشروط اور غیر منقسم دارالحکومت تسلیم کر لیا گیا جسے فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔

اس کیساتھ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل کیطرف سے قبضہ کئے گئے علاقوں پر بھی اسرائیل کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ فلسطینیوں کو عالمی قوانین کے مطابق تسلیم شدہ علاقوں میں سے بھی صرف 15 فیصد علاقے پر حق دیتے ہوئے اجازت دی گئی کہ فلسطینی مسلمان مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بناتے ہوئے اس علاقےپر اپنی ریاست قائم کرلیں۔ اس معاہدے کو ڈیل آف سینچری کا نام دیا گیا جسے فلسطین، عرب ریاستوں، مسلم ممالک سمیت تمام اعتدال پسند ممالک نے مسترد کردیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 9/128 کی بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی جس میں امریکہ کے ان  اقدامات کی شدید مذمت کی گئی۔
پاکستان کا اسرائیلی ریاست کے متعلق موقف
پاکستان اسرائیل کے قیام کو غیر قانونی سمجھتا ہے اور اس کو ریاست تسلیم نہیں کرتا۔پاکستان نے ہمیشہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور سلامتی کونسل و جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق مشرق وسطٰی میں امن کیلئے دو ریاستی  فارمولے  کی حمایت کی ہے۔

پاکستان کا اس کے متعلق بڑا واضح اور دو ٹوک موقف ہے  کہ1967ء کی  عرب اسرائیل جنگ سے قبل کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی مسلمانوں کیلئے ریاست بنائی جائےجس کا دارالحکومت بیت المقدس [یروشلم]ہو۔  اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے  پاکستان پر بارہا دباؤ ڈالا گیا لیکن پاکستان تسلسل کیساتھ اپنے اصولی موقف پر قائم ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو ریاست کا جائز حق ملنے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :