مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

جمعرات 27 فروری 2020

Ehtesham Ullah

احتشام اللہ

وہ ایک سادہ سی طبیعت کی لڑکی تھی، شام ڈھلنے سے تھوڑا قبل وہ  اپنی والدہ سے 10 روپے لے کر دکان سےٹافیاں لینے کیلئے گھر سے نکلی اور پھر لوٹ کر نہ آئی۔ جب اس کی واپسی میں تاخیر حد سے زیادہ بڑھ گئی تو گھر والوں نے پریشانی کے عالم میں گاؤں کی مساجد میں گمشدگی کے اعلانات کرائے اور کہیں سے خبر نہ ملنے پر مقامی تھانے میں رپورٹ درج کرا دی۔

اگلے روز فجر کی نماز کیلئے جانےوالے نمازیوں نے جھاڑیوں کی اوٹ میں ایک بچی کی لاش دیکھ کر تھانے میں اطلاع دی۔ اس وقت تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ ننھی کلی دکان سے ٹافیاں لے کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہو چکی ہے۔ یہ کہانی ملک کے طول وعرض میں روزانہ کی بنیاد پرغیرت کے نام پر قتل ہونے والی، ونی کی بھینٹ چڑھنے والی، تیزاب گردی اور ہراسمنٹ کا شکار ہونے والی اور زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بیٹیوں میں سے ایک بدنصیب مدیحہ کی ہے جسے خیبرپختونخوا کی تحصیل ٹل کے ایک گاؤں سروخیل میں قتل کر کے جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا۔

(جاری ہے)

ڈی پی او شاہد احمد خان کے مطابق قاتل اس کا چچا زاد بھائی الیاس ولد رحمان گل ہے جسے 19 فروری 2020ء کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ملزم  نے مدیحہ سے زیادتی کے بعد تشدد ، گلا دبا کر اور گولی مار کر قتل کا اعتراف جرم کر لیا ہےجبکہ اس سے  واردات میں استعمال ہونے والی پستول بھی برآمد کر لی گئی ہے۔
خواتین پر تشدد  اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عالمی سطح پر پاکستان کے اعدادوشمار بہت خوفناک ہیں۔

ایشیا اینڈ دی پیسیفک پالیسی سوسائٹی کےمطابق خواتین کی سیکیورٹی انڈیکس کے لحاظ سے پاکستان کا عالمی سطح پر 167 میں 164 واں نمبر ہے، اس رینکنگ میں پاکستان سے نیچے تین ممالک شام، افغانستان اور یمن ہیں جو کہ جنگی صورتحال سے دوچار ہیں، جبکہ جینڈر انڈیکس کے حوالے سے پاکستان کا عالمی سطح پر 129 میں سے 113 واں نمبر ہے۔ تھامسن رائٹرز فاونڈیشن کے سروے کے مطابق خواتین کے لیے خطرناک ترین ثابت ہونے والے ممالک میں پاکستان  دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک ہے۔

پاکستان میں 70 فیصد (نوکری پیشہ)خواتین کو زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی یا جسمانی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد سالانہ ایک ہزار واقعات پیش آتے ہیں۔
باقی صوبوں کے حالات خیبرپختونخوا سے بھی برے ہیں۔ پنجاب پولیس کی رپورٹ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے اعدادو شمار آبادی کے تناسب کے سے بھی زیادہ ہیں۔

2014ء سے 2019ء تک  خواتین کے ساتھ زیادتی اور قتل کے کیسز میں ہوش ربا اضافہ ہوا اور اس دوران خواتین پر تشدد، زیادتی، قتل، اور تیزاب پھینکنے کے15ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔ سال 2014ء میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے دوہزار دو سو اٹھائیس، 2015ء میں دوہزار چھے سواٹھارہ، 2016ء میں دوہزار سات سو چھیالیس،2017ء میں دوہزار نو سو اٹھانوے، 2018ء میں دوہزار نو سو سینتیس جبکہ 2019ء کے 10 ماہ میں تین ہزار تین سو ستاسی کیسز رپورٹ ہوئے۔

2018ء میں 198 جبکہ 2019ء کے 10 ماہ میں 149 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ 2018ء میں تیزاب گردی کے 37 جبکہ 2019ء کے 10 ماہ میں تیزاب گردی کے 36 واقعات ہوئے۔ پاکستانی کمیشن برائے انسانی حقوق کےمطابق 2004 سے 2016 تک 7734 خواتین کو جنسی تشدد یا زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
پولیس سرجن رپورٹ کے مطابق صرف کراچی شہر میں سال 2019ء کے دوران خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے 407 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں وزارت داخلہ نے اعتراف کیا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سال 2019ء  کے دوران زنا بالجبر کے واقعات میں 160 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایف آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق ادارے کو سال 2019ء میں  خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق 7 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔
پاکستان میں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور تیزاب گردی جیسے دیگر واقعات کے تدارک کیلئے بہت سے قوانین موجود ہیں جن میں سے وومن پروٹیکشن بل، ایسڈ اینڈ برن کرائم بل،  پری وینشن آف اینٹی وومن پریکٹسز ایکٹ، ڈومیسٹک وائیلنس، کریمینل لاء  (غیرت کے نام پر قتل)  ایکٹ 2016ء اور خواتین کے کام کی جگہ پر ہراسمنٹ سے تحفظ کا بل قابل ذکر ہیں۔

تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 509 کے تحت عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنا قانوناً جرم ہے۔ جنسی زیادتی کرنے پر زیادہ سے زیادہ تین سال قید یا پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ عورتوں کو کام کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون کے تحت ہر کمپنی کو تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنانی ہو گی جس میں ایک عورت کا ہونا لازمی ہو گا اور کمیٹی  درج کی گئی شکایات سے 30 دن کے اندر نمٹے گی اور سات دن کے اندر کمپنی کو کمیٹی کے نتائج کا نفاذ کرنا ہو گا۔


ان سب سخت قوانین کی موجودگی میں بھی ایسے واقعات میں اضافہ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اصل مسئلہ ان قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں پیچیدگیاں بھی ایسے پے در پے واقعات کا موجب بن رہی ہیں۔ مقتول مدیحہ کے والد عمر خان کے حکومت سے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کے مطالبے نے سوشل میڈیا پر پھر سے نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے جس نے ایسے مجرم کوسرعام پھانسی دینے کے بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد جنم لیا تھا۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسے مجرمان کو قرارواقعی سزا دلوائے کیونکہ ملک کی  48.76 فیصد آبادی کو نہ توایسے مجرمان کے رحم و کرم پہ چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی عدم توجہی کی بدولت انہیں غیر فعال کر کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں وزارت برائے انسانی حقوق کی آگاہی مہمات قابل ستائش ہیں ، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیری مزاری کا کہنا ہے  کہ ایسی خواتین جنہیں تشدد کا سامنا ہو وہ ہماری وزارت کی  فری ہیلپ لائن  1099 پر کال کر کے اپنی شکایت درج کرائیں تاکہ اس کا ازالہ کیا جا سکے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے بعض قانونی معاملات میں صوبائی حکومتوں کے عدم تعاون کا شکوہ بھی کیا۔

صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وفاق کے ایسے اقدامات کی نہ صرف حوصلہ افزائی کریں بلکہ انسانیت کی خاطر سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے بالاتر ہو کر بھرپور تعاون بھی کریں اور سکولزکی سطح پر ایسی کلاسز کا اہتمام کریں جس سے ایسے واقعات کی روک تھام میں مدد ملے ۔سب سے اہم اور بڑی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے کیونکہ ان کی شراکت اور فرض شناسی کے بغیر حکومت کے تمام قوانین کے ثمرات عوام کی پہنچ سے ہمیشہ دور رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :