ایران امریکہ جارحیت، پاکستان کیلئے نئے امتحان کا پیش خیمہ

جمعہ 10 جنوری 2020

Ehtesham Ullah

احتشام اللہ

ایران امریکہ تعلقات میں تناؤ اس خطے کیلئے کوئی نئی بات نہیں، امریکی صدور کو جب بھی ملکی سیاست میں مشکلات یا بالخصوص مواخذے کی تحریک  کا سامنا ہوتواس سے توجہ ہٹانے ہٹانے کیلئے ان کے پاس آخری آپشن کسی کمزور ریاست کے خلاف دہشتگردی کی آڑ میں فوجی کاروائی  ہی ہوتا ہے جس کا نشانہ ہمیشہ مسلم ریاستیں ہی بنتی ہیں۔ایران پر ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی عالمی پالیسی کی خلاف ورزی کے الزامات لگا کر دھکمی آمیز بیانات جاری کرنا ہر امریکی صدر کا وطیرہ رہا ہے جس کی بدولت ایران امریکہ تعلقات ہمیشہ کشیدہ ہی رہے ہیں۔


لیکن اس کشیدگی میں پہلی بار بڑا بریک تھروجولائی 2015ء میں آیا جب یورپی یونین سمیت  6 عالمی طاقتوں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، چین اور ایران کے مابین جوہری معاہدہ "جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن" کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس معاہدےکے تحت ایران یورینیم کے افزود شدہ ذخائر کو 15 سال کیلئے محدود کرے گا اور یورینیم افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے سینٹری فیوجز کی تعداد کو 10 سال کے عرصے میں بتدریج کم کرے گا۔

اس معاہدے کے بعد اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیاں اٹھا لی گئیں  اور ایران امریکہ حالات میں کشیدگی کافی حد تک کم ہو گئی۔
لیکن صرف 4 سال کے بعد 9 مئی 2019ء کو امریکا نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پرعلیحدگی کا اعلان کردیا۔ امریکہ کی طرف سے موقف اپنایا گیا کہ ایران ریاستی دہشت گردی کی سر پرستی کر رہا ہے، ایران، شام  اور یمن میں کارروائیاں کر رہا ہے اور دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے، ایران سے جوہری معاہدہ نہیں ہوناچاہیے تھا، معاہدے کو جاری رکھا تو ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی، اور اس کے ساتھ ہی ایران کو 90 سے 180 روز میں اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنے کی دھمکی بھی دی۔


امریکہ کی معاہدے سے دستبرداری کے ردعمل میں ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ امریکی صدر کا اعلان عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے تاہم امریکا کے بغیر بھی جوہری معاہدہ جاری رہے گا۔ معاہدے کے فریق تمام ممالک نے امریکی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اسے افسوسناک قرار دیا۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا فیصلہ افسوس ناک ہے، فرانس، جرمنی اور برطانیہ اس فیصلے پر افسردہ ہیں۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موغرینی نے کہا کہ ایران ایٹمی معاہدے پر عمل کررہا تھا، معاہدے کے ثمرات مل رہے ہیں، یورپ ایران سے جوہری معاہدے کے تحفظ کیلئے متحد ہے ، ایران کے ساتھ معاہدہ جاری رہے گا۔ اقوام متحدہ میں روس کے نائب سفیر دمتری پولیانسکی نے کہا کہ روس کو ٹرمپ کے اس فیصلے سے مایوسی ہوئی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے امریکی فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ امریکا کے بغیر بھی معاہدے پر عملدرآمد ہوسکتا ہے، ایران سے جوہری ڈیل جاری رکھی جائے۔

صرف اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے امریکی اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈٹرمپ نے دلیرانہ اقدام کیا۔ لیکن معاہدے کی فریق عالمی طاقتوں سمیت اقوام متحدہ نے بھی اس معاہدے کی پاسداری کیلئے امریکہ پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالا اور بات افسوس اور لفظی مذمت تک ہی محدود رہی۔
امریکی اقدامات کے بعد ایران امریکہ حالات دوبارہ کشیدہ ہو گئے۔

مئی 2019ء  میں ہی متحدہ عرب امارات کے قریب کھلے سمندر میں 4 آئل ٹینکرز پر حملے کئے گئے ، جس پرامریکی  قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن نے  کہا کہ یہ امریکہ کو تیل کی سپلائی سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے جس کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔حالات اس حد تک کشیدہ ہو گئے کہ امریکہ نے کسی بھی ممکنہ کاروائی کیلئے اپنا جنگی بیڑا خلیج میں تعینات کر دیا۔


   14 ستمبر 2019ء کو سعودی عرب میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والی دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو کے 2 پلانٹس پر ڈرون حملے ہوئے جس کی ذمہ داری حوثی باغیوں نے قبول کی لیکن امریکہ اور سعودی عرب نے الزام عائد کیا کہ ایران اس میں براہ راست ملوث ہے۔ اس حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کا ردعمل دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن نے اہداف لاک اور لوڈ کرلیے ہیں۔


 31 دسمبر 2019ء کو بغداد میں ہزاروں مظاہرین اور ملیشیا کے جنگجوؤں نے امریکی سفارتخانے کے باہر پر تشدد احتجاج کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ امریکہ نے الزام عائد کیا کہ مظاہرین کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے  اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 1 جنوری 2020ء کو ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو اس حملے میں ہونے والے کسی بھی جانی اور مالی نقصان کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی، یہ محض وارننگ نہیں بلکہ دھمکی ہے۔

اس کے ردعمل میں امریکہ نے  3 جنوری 2020ء کو عراق  میں ڈرون حملے کے ذریعے ایرانی پاسداران انقلاب  کی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا اور صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ میرے حکم پر امریکی افواج نے دنیا کے نمبرون دہشتگرد کو ہلاک کیا جو کہ امریکی  سفارتکاروں اور فوجیوں پر حملے کی منصوبہ بندی اور ایران میں حکومت مخالف مظاہروں میں شریک شہریوں کے قتل میں بھی ملوث تھا۔


امریکہ کے حالیہ اقدامات کےبعد ایران بھی جوہری معاہدے سے دستبردار ہو چکا ہے اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے امریکہ سے بدلہ لینے کے اعلان کے ساتھ ایران کے پاسداران انقلاب کے سینئر کمانڈر جنرل غلام علی ابو حمزہ کی طرف سے 35 امریکی اہداف کے ساتھ اسرائیلی دارلحکومت تل اببیب کو تباہ کرنے کی دھمکی نے خطے کے جنگ کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔

ایران کی طرف سے ایسی کاروائی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کو باون مقامات سے نشانہ بنانے اور سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے ایرانی وزیرخارجہ جوادظریف کو ویزہ نہ جاری کرنے کے امریکی اقدامات نے حالات مزید کشیدہ کر دیے ہیں۔
ایران امریکہ ممکنہ جنگ کی صورت میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہو گا اور ممکن ہے کہ حکومت کو نہایت مشکل فیصلے کرنا پڑیں کیونکہ اس وقت دنیا دو بلاکس میں تقسیم نظر آرہی ہے اور ان دونوں بلاکس کے حامیوں کی کثیر تعداد پاکستان میں پائی جاتی ہے۔

ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے کسی پرائی جنگ کا حصہ نہ بننے اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم کا اعادہ تو کیا ہےلیکن یہ کتنا مضبوط اور موثر ثابت ہوگا یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے البتہ سیاسی قیادت کے فیصلوں کی پختگی کا اندازہ کوالالمپورسمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک میں جارحیت پاکستان کو ایک نئے امتحان سے دوچار کرسکتی ہےجس سے نبردآزما ہونے کیلئے پاکستان کو داخلی طور پر مضبوط، تمام ریاستی اداروں سمیت حکومت اور اپوزیشن کا ایک پیج پر ہونا بہت ضروری ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن کے ساتھ تمام مسالک کی مذہبی جماعتوں کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر بنائے اور وقت آنے پر سب کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :