لوگ کیا کہیں گے

پیر 2 اگست 2021

Esha Saima

عیشا صائمہ

ہم اپنی زندگیوں پر نظر دوڑائیں. تو ہمیں محسوس ہوگا. کہ ہم بہت سے کام نہ چاہتے ہوئے بھی ایک نعرے کو لے کر  کرتے ہیں. اور نیک کاموں کے کرنے میں تو ہم اس نعرے کو ضرور مدنظر رکھتے ہیں. لیکن برائی کرتے وقت اس نعرے اور اپنے رب کو بھول جاتے ہیں.
. اور وہ نعرہ ہے. "لوگ کیا کہیں گے" بیٹی کی پیدائش سے لے کر اس کی تعلیم و تربیت غرض کہ ہر معاملے میں ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.

کہ "لوگ کیا کہیں گے".
اس" لوگ کیا کہیں گے" کے چکر میں ہم اکثر صحیح راستے سے بھٹک کر غلط راستے کا انتخاب کرتے ہیں.اور دوسروں کے ڈر سے اپنی زندگی کو داؤ پہ لگا دیتے ہیں. محض اس لئے کہ لوگ باتیں بنائیں گے. یہ سوچے بنا کہ لوگوں کا تو کام ہے باتیں بنانا.

(جاری ہے)

وہ نہ تو کسی کو خوش دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کی کامیابی پر تالیاں بجا کر اسے داد دے سکتے ہیں.
چھوٹے معاملے سے لے کر زندگی کے بڑے معاملات  کو لیا جائے.

تو یہی سوچ  کارفرما نظر آتی ہے. کہ اپنے زہن و دل کو سکون دینے کی بجائے دوسرے لوگوں کا خیال کیا جاتا ہے. ہم سب کسی نہ کسی طور اس خوف اور ڈر کو اپنے دل میں بسائے جی رہے ہیں. کہ ہمارے کسی عمل سے ہمارے اردگرد کے لوگوں پر کیا فرق پڑے گا. اور وہ اس بارے میں کیا کہیں گے. چاہے وہ عمل خالصتا ہماری اپنی   ذات کے لیے ہی  کیوں نہ ہو.
ہم اکثر اپنی ذات کے حوالے سے فیصلہ کرتے ہوئے بھی یہی سوچ رہے ہوتے ہیں.

کہ ہمارے اس عمل پر لوگ نکتہ چینی تو نہیں کریں گے. ہم باقی سب پہلوؤں کو پس پشت ڈال کر صرف اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں. کہ" لوگ کیا کہیں گے". اور پھر ہم زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کی بجائے پیچھے رہ جاتے ہیں.
بچوں کے سکول، ان کی تعلیم اور تربیت میں بھی ہم "لوگ کیا کہیں گے" کے نعرے کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ لیتے ہیں. بڑا ہو یا چھوٹا اس ایک جملے کی زد میں ایسا آچکا ہے.

کہ اس سے نکلنا ان کے لیے ناممکن سا ہو گیا ہے.
ہر عمل کو ہمارے بڑوں نے اسی بات  کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے. اور آنے والی نسلیں بھی اس ایک جملے "لوگ کیا کہیں گے "کی چکی میں پستی نظر آرہی ہیں. بڑے اپنی ذاتی دلچسپی کو بھول کر لوگوں کا ڈر لئے زندگی گزار رہے ہیں.
اور بچوں کے تمام فیصلے بھی اسی "لوگ کیا کہیں گے" کی نظر  ہو رہے ہیں.
کیونکہ کچھ صحیح فیصلے اگر لوگوں کے ڈر کی وجہ سے وقت پر نہ کئے جائیں.

تو ان کا خمیازہ پوری زندگی نقصان اٹھا کر بھگتنا پڑتا ہے.
ضروری نہیں. کہ کوئی فیصلہ آپ نے لیا وہ غلط ہو. یہ بھی ہو سکتا ہے. جس فیصلے  کو آپ نے لوگوں کے ڈر کی وجہ سے بدل دیا. وہ آپ کی پوری زندگی کو ایک مثبت انداز میں بدل کر رکھ دیتا. آپ کو اس راستے پر چل کر کامیابیاں ملتیں. لیکن آپ نے اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کی بجائے ان لوگوں کے بارے میں سوچا.

جنہیں سرے سے آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا.
جب کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر ہم کیوں دوسروں کے بارے میں اتنا سوچتے ہیں.
مثال کے طور پر آجکل موبائل وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے. بچے اسے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرتے نظر، آتے ہیں. لیکن بچوں کی وہ تعداد جو ابھی کچے ذہن کے مالک ہیں. انہیں مائیں موبائل اس لئے تھما دیتی ہیں.

کہ ہمیں یہ بات نہ سننا پڑے. کہ آپ کے بچے کو اس جدید ٹیکنالوجی سے آگاہی نہیں. پھر اس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں. کہ بچہ کام کے بعد کون سی گیمز اور سرگرمیوں میں مصروف ہے. نتیجہ پھر یہ ہوتا ہے. اکثر بچے بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں. ان کی زہنی  عمر جسمانی عمر سے بڑھ گئ ہے. اور اس کے اثرات بہت دور رس ہو سکتے ہیں.
ایسے ہی جب لڑکیوں کی تعلیم کی بات آتی ہے.

تو کچھ بچیوں کو میٹر ک سے آگے پڑھنے نہیں دیا جاتا. کہ خاندان والے باتیں بنائیں گے. اور اگر چاروناچار انہیں اعلیٰ تعلیم دلوا دی گئ ہے. تو ان کی نوکری پر پابندی لگا دی جاتی ہے. کہ جب وہ گھر سے باہر نکلیں گی. تو لوگ کیا کہیں گے. اور ان کی چھپی صلاحیتوں کو اور ان کی  تعلیم کو زنگ لگا دیا جاتا ہے. جب کہ خواتین پردے میں رہ کر بھی اپنے آپ اور اپنی صلاحیتوں کو منوا سکتی ہیں.


اور  جب ان کی شادی کی بات آتی ہے. تو لڑکیوں کو شعور دینے کے بعد ان کی مرضی معلوم نہیں کی جاتی. اس پر بھی یہ خیال کیا جاتا ہے. کہ اگر کسی وجہ سے لڑکی نے انکار کر دیا. اور بات باہر نکلی تو لوگ کیا کہیں گئے.یہی نہیں رشتے نہ ہونے کی وجہ سے ہم بچیوں کو فیشن کے نام پر بے حیائی کی طرف ماہل کرتے نظر آتے ہیں. کہ آجکل باپردہ لڑکی کو کوئی نہیں پسند کرتا.


اور شادی طے ہونے کے بعد بھی فضول رسومات کو محض اسلئے اپنایا جاتا ہے. جن کا سرے سے اسلام میں تصور ہی نہیں. کہ لوگ کیا کہیں گے. اس لئے سب سے بڑی  لعنت جہیز پر بھی بات نہیں کی جاتی. لڑکی والے بھی کھل کر بات نہیں کرتے. کہ ہم جہیز دینے کے متحمل نہیں. اور نہ لڑکے والے اس کو تسلیم کرتے ہیں. کہ جہیز کے بنا کوئی لڑکی سسرال آئے. کہ لوگ کیا کہیں گے.

اسی جہیز کے نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں اپنی عمر کا زیادہ حصہ اپنے والدین کی دہلیز پر ہی گزار دیتی ہیں. کہ ان کے والدین آگے بڑھ کر بات نہیں کرتے. اور لوگوں کی فکر میں خود کو گھلا کر بہت اہم فیصلے نہیں کر پاتے. اور بعد میں پچھتاتے پھرتے ہیں.
اک لمحے کے لیے ہم سوچیں کہ ہم کسی بھی معاملے میں اپنے دین اسلام کی تعلیمات اور اپنے پیارے آقا   صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خیال کو دل میں لاتے ہیں.

کہ ہم جو عمل کر رہے ہیں. اس کا جواب ہم کل انہیں کیسے دیں گے. لیکن ہم تو لوگ کیا کہیں گے کے چکر میں دین سے بھی دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں.
جب کہ ہونا تو یہ چاہئے. کہ بحیثیت مسلمان ہر فیصلہ اسلامی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے. کیونکہ ہم نے اپنے ہر عمل کا جواب اللہ کو دینا ہے. نہ کہ لوگوں کو.
ہم نے بحیثیت مسلمان یہ سوچا ہی نہیں.

کہ ہم اگر  یوں ہی غلط راستوں پر چلتے رہے. تو پیارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کیا جواب دیں گے. جو ایک مکمل دین لے کر ہمارے پاس آئے. اور مکمل ضابطہ حیات دیا.
پھر ہم ان تعلیمات سے رہنمائی لینے کی بجائے"" لوگ کیا کہیں گے "" کے پروگرام پر عمل کرتے کیوں نظر آتے ہیں. جس کی وجہ سے نہ صرف ہمیں دنیا بلکہ ٓآخرت میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا.


ہم اگر "لوگ کیا کہیں گے" کی بجائے یہ سوچ لیں کہ ہمارا رب اور ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے بارے میں کیا کہیں گے. تو بہت سے مسائل یہی حل ہو جائیں گے. اور یہ ایک ڈر ہمارے لئے  دنیا وآخرت میں کامیابی کا ضامن ہو گا.
پھر ہر فیصلہ چاہے وہ تعلیم سے لے کر  لڑکی کی نوکری، شادی، جہیز،  اور اس کی فرسودہ  رسومات ہی کیوں نہ ہوں سب ختم ہو جائیں گی. اور ہر کسی کی زندگی میں سکون اور خوشی کا راج ہو گا.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :