ادبی محفل کا انعقاد

بدھ 8 ستمبر 2021

Esha Saima

عیشا صائمہ

زبان محض اظہار خیال کا ذریعہ نہیں بلکہ اس قوم یا ملت کی تمام روایات و اقدار کی حامل بھی ہوتی ہے. ہماری قومی زبان چونکہ اردو ہے. اس لئے اس کی ترویج و اشاعت کے لئے تمام مصنفین کو اپنا کردار ادا کرنا ہے.
ہماری قومی زبان اردو جو سب سے آسان زبان سمجھی جاتی ہے.  برصغیر پاک وہند میں اردو نہ صرف بولی جاتی ہے بلکہ  سمجھی بھی جاتی ہے.یہ  آریائی زبان کہلاتی ہے.

اردو کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے. اس کو فروغ دینے کے لئے شروع ہی سے اردو ادب کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے.
قیام پاکستان کے بعد اردو ادب کو پاکستان میں نمایاں مقام حاصل رہا.1947ء یہ وہ سال تھا. جب مملکت پاکستان وجود میں آئی.  ایک انقلابی تقسیم کے نتیجے میں بہت سی چیزیں معرض وجود میں آئیں. اور اردو ادب میں داخل ہوئیں.ان میں ایک اردو ادب کے لئے مصنفین کی وہ کاوشیں تھیں.

جنہوں نے ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا.
یوں سمجھ لیجیے کہ پاکستان میں جو  اردو ادب سامنے آیا. وہ اپنی الگ خصوصیات کا حامل تھا. اور بھارت میں تخلیق کیے جانے والے اردو ادب سے مختلف رہا.
 چونکہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے. اور یہاں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا. شروع کے ادوار میں پاکستانی مصنفین کے ایک گروہ کے لئے اس حقیقت کو ماننا یا قبول کرنا آسان نہ تھا.

لیکن رفتہ رفتہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اردو ادب میں نمایاں خدمات انجام دینے لگے.  یوں بہت سی اصناف سامنے آئیں. جن میں غزل، نظم، افسانہ ،ناول،ڈرامہ، سوانح اور سرگزشت، رپورتاژ اور انشائیہ، سنجیدہ مضامین، سفر نامے جیسے کارنا مے سامنے آئے.
 اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کلاسیکی ادب کے تراجم کو بھی اردو ادب میں نمایاں مقام حاصل رہا.


یہ کہنا بجا ہو گا کہ پاکستان کا ادب پڑوسی ملک سے نہ صرف  مختلف ہے. بلکہ اس کی اپنی نمایاں خصوصیات رہی ہیں.
اور  پاکستانی ادیبوں کی اپنی ایک الگ پہچان رہی ہے.
 سب سے اہم بات پاکستان کا ایک نظریاتی ریاست ہونا ہے. جس کا مقصد اسلامی ریاست کا قیام تھا. یہ وہ وجوہات تھیں. جنہوں نے اردو ادب کی صفات کو نمایاں کیا.  اردو زبان کا  اسلام سے ایک گہرا تعلق رہا ہے.  دنیا کی کسی بھی اور زبان میں اسلام سے متعلق اتنا سرمایہ موجود نہیں.

جتنا اردو زبان میں ہے.
 اس سلسلے میں بہت سے لوگوں نے اردو میں شاعری، افسانے، ناول، نظم نگاری جیسی صفات میں اپنا، کمال دکھایا.
اردو زبان و ادب کو فروغ دینے کے لئے بہت سے قلم کار سامنے آئے.
جنہوں نے اردو کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا.
 اس دور اور نئے آنے والوں کے لئے بہترین ادب چھوڑا.
اس سے نہ صرف اردو زبان کو اہمیت حاصل ہوئی.


بلکہ ایسا ادب سامنے آیا جس نے نوجوانوں میں نئ روح پھونکی.
آج بھی بہت سے لوگ اردو ادب سے منسلک ہیں. اور اس کی ترویج کے لئے کوشاں بھی ہیں.
اس کے ساتھ نئے لکھاری بھی  سامنے آرہے ہیں.
جو اردو ادب میں اپنا کردار، ادا کر رہے ہیں.
ان نئے قلم کاروں نے چونکہ ابھی اس راستے پہ قدم رکھا ہے.
انہیں رہنمائی کی اشد ضرورت ہے. اس کے لئے ان کے پاس سئنیر قلم کاروں کی تصانیف موجود ہیں.

جن سے وہ استفادہ کر سکتے ہیں. اور کر رہے ہیں.
ضرورت اس امر کی ہے. کہ ان سئنیر قلم کاروں سے براہ راست رہنمائی
کا، موقع لیا جائے.
اس کے ساتھ ساتھ  ان نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے.تاکہ وہ بہتر انداز میں سامنے آ سکیں. اور اپنی صلاحیتوں کو منوا سکیں.
دور حاضر میں ان نئے لکھنے والوں کی تحریروں کو بہت سے رسائل اور اخبارات جگہ دے رہے ہیں.

ان کے لئے بہت سے پلیٹ فارم ایسے بھی ہیں. جو مختلف مقابلوں کا انعقاد کروا کر ان کو مختلف انعامات سے بھی نواز رہے ہیں.
لیکن اس کے علاوہ ادب کی مزید ترقی اور، عروج کے لئے مختلف ادبی محافل کا انعقاد ضروری ہے. کہ نئے آنے والوں کو اپنے سئنیر قلم کاروں سے ملنے کا، موقع بھی ملے.  ان لوگوں کے تجربے سے بہت کچھ سیکھنے، اور ان کے تجربے کی روشنی میں اپنی تحریروں کو پرکھنے کا بھی موقع ملے.


 ان ملاقاتوں کے ذریعے نئے لکھاری اپنی تحریروں کو پرکھ سکیں.
نئے قلم کار نہ صرف ان سے براہ راست رہنمائی لے سکیں. بلکہ اپنے لکھنے کی صلاحیت میں مزید بہتری لا سکیں.
اور بہتر طور پر اردو ادب کے فروغ میں حصہ لے سکیں.
اردو ادب  میں صرف معاشرتی مسائل کو ہی اجاگر نہ کیا جائے.
بلکہ بچوں کے حوالے سے بھی اخلاقی تصانیف کو جگہ دی جائے.

جو ان کے اخلاق و کردار میں نمایاں تبدیلی لا سکے.
آجکل چونکہ میڈیا کا دور ہے.
اور آنے والی نئ نسل بہت زیادہ سوشل میڈیا پر سرگرم نظر آتی ہے.
اس کے لئے ضروری ہے. کہ بچوں کو مصروف رکھنے کے لئے اور ان کی مثبت انداز میں تربیت کے لئے بچوں کے ادب کو بھی فروغ دیا جائے.
جو لوگ یا جو لکھاری جن کے پاس قلم کی طاقت ہے. وہ اسے معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ بچوں کی صحیح خطوط پر تربیت کے حوالے سے بھی استعمال کر سکتے ہیں.


تاکہ آنے والی نسل کو  غیر نصابی کتابوں سے روشناس کرایا جا سکے. اور ان کی کتابوں میں دلچسپی کے ساتھ دوستی بھی ہو سکے.
 وہ ایک اچھی اور معیاری کتب کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق و کردار میں بھی تبدیلی لا ئیں.
یہ اسی صورت میں ممکن ہے. کہ بزم ادب  کو سجایا جائے. اور ادبی محافل کا انعقاد کر کے اردو ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا جائے.


یوں نئے لکھاریوں کو اپنی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں سب کے سامنے لانے  کا موقع بھی ملے گا.
وہ اپنےسیئنرز  سے بہت اچھا سیکھ بھی سکیں گے.
ہر ماہ نہیں تو کم ازکم سال میں کچھ نشستیں اسی حوالے سے رکھی جائیں.
کہ نئے قلم کاروں کو سئنیر قلم کاروں سے ملنے، ان کی محنت کو سراہنے کے ساتھ ساتھ، ان کے تجربات اور مشاہدات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے.
 سئنیر قلم کار جب تک نئے قلم کاروں کو ملنے کا شرف نہیں بخشیں گے.
وہ براہ راست ان کی فہم و فراست سے استفادہ نہیں کر سکیں گے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :