ہم اور ہماری انا

جمعرات 17 جون 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

ہماری انا ہماری شخصیت میں پوشیدہ ہے لیکن  یہ نظر آنا چاہتی ہے، سامع چاہتی ہے، عزت کی خواہاں اور ہر وقت اہمیت دئے جانے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ گھر، دوستوں کے درمیان، ملازمت پر، غرضیکہ ہم جہاں بھی ہوں ہمیں اہمیت ملے۔ یہ ہماری ایک نفسیاتی طلب ہے اور اس کا تعلق طاقت سے ہے۔ ہماری انا جتنی بڑی یا توانا ہو گی، ہمیں یہ باور کرائے گی کہ ہم نہیں دیگر لوگ ہماری  زندگی میں مسائیل پیدا کر رہے ہیں۔


انا کے لئے انگلش میں قریب ترین لفظ ' ایگو' استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک لکھاری کے مطابق"ہماری انا یا ایگو ہماری اپنی ذات کا تصور ہے جسے ہم اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ عموماً یہ ایک بے عیب تصویر ہوتی ہے جو ہم خود دیکھتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ لوگ بھی اسی تصویر کو اس طرح دیکھیں جیسے ہم دیکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

نہ صرف دیکھیں بلکہ تعریف بھی کریں ہماری یہ خود ساختہ تصویر کتنی بھی غیر حقیقی ہو لیکن ہم ا سے ہر حال میں برقرارکھنا چاہتے ہیں۔

اگر کوئی اسے چیلنج کرتا ہے  یا اسے اختلاف کرتا ہے تو ہمیں یہ بات بہت نا گوار گزرتی ہے۔
  بھگوت گیتا کے مطابق "یہ ایک جھوٹی شناخت ہے جسے خود کو ہر وقت اور ہر جگہ اہم سمجھے جانے کے لئے تخلیق کیا گیا ہے"
اپنی انا کو پہچاننے اور اس کی چالوں سے بچنے کے لئے خاصی محنت اورشعوری کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ بہت ہوشیار اور بھیس بدلنے میں بھی بہت مہارت رکھتی ہے۔

اکثر اوقات آپ کو اپنے جذبات کو آپ کےسامنے اس طرح پیش کرتی ہے کہ آپ کو لگے کہ وہ آپ کے اپنے جذبات ہیں۔آپ کو اس بات سے خبردار ہونا چاہئے کہ آپ کا سب سے بڑا اور چھپا دشمن آپ کی اپنی ایگوہے۔آپ کو دھوکا دینے کے لئے آپ کی ایگو کے پاس یوں تو کئی پوشیدہ ہتھیار ہیں لیکن اس میں سے موثر دو ہتھیار سمجھے جاتے ہیں ایک تو انسانیت کی علمبرداری اور دوسرے مذہب کی خدمت جسے وہ اپنے فائدے کے لئے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔

ایگو رکھنے  والے  لوگ خود کو مذہب کا ایک ادنیٰ خادم قرار دیتے ہیں اپنے انداز میں مذہب کا پرچار کرتے ہیں اور اس سے اختلاف کرنے والوں کو مطعون کرتے اور انہیں گمراہ قرار دیتے ہیں۔
آپ کی ایگو آپ کو یہ باور کراتی ہے کہ آپ لوگوں کا بہت خیال کرتے ہیں،ان کے حقوق  کے علم بردار ہیں، سماجی انصاف پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور اسکے چیمپین ہیں اور اسی وجہ سے آپ اپنے طور پر اس بات کا بھی کریڈٹ لیتے ہیں کہ آپ اربابِ اختیار کو چیلینج بھی کرتے رہتے ہیں اور موجودہ سسٹم کی خامیوں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔

آپ اس بات کی بھی نشاندہی کرتے رہتے ہیں کہ سسٹم میں کہا ں کہا ں کمزوریا ں اور خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں اورنقصان اٹھا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ لوگوں کے سامنے خیالی ا ور کتابی مفروضے قابلِ عمل حل کی شکل میں پیش بھی کرتے رہتے ہیں اور ارباب و اختیار کی عقل پر ماتم بھی کرتے رہتے کہ وہ آپ کے ان انقلابی خیالات سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا رہے۔

یوں آپ خود کو ایک طرح سے موجودہ سسٹم سے الگ کر لیتے ہیں، ایک طرح کا باغی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سسٹم کو ٹھیک کرنے کی جدو جہد میں تنہا مصروف ہے۔ اس تمام تگ ودو سے آپ اپنی بہت سی خامیوں پر کامیابی سے پردہ ڈال دیتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ دوسری طرف منتقل کر دیتے ہیں اور اپنے بہت سے خوف اور تحفظات سے وقتی طور پر محفوظ ہو جاتے ہیں۔
انا پرست لوگ خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے یا اپنی اہمیت جتانے کے لئے بھی کئی طریقے استعمال کرتے ہیں۔

مثلاً کسی ایسی آبادی یا ایسے علاقے میں رہائش اختیار کرنا  پسند کریں گے،جس کا نام سنتے ہیں لوگ مرعوب ہو جائیں۔ ایک ممتاز ایڈریس پر رہائش اختیار کرنے کے لئے اگر ان کے وسائل نہیں بھی ہیں تب بھی وہ اس کے لئے کوشش کریں گے۔ بڑے بڑے لوگوں سے اپنے تعلقات کا اظہار کرتے رہیں گے اور آپ کو بتاتے رہیں گے کہ وہ اس طرح کے لوگوں سے کتنے قریب ہیں۔

وہ آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ ان کے بچے دوسرے بچوں سے تعلیم، ادب آداب، کھیل اور دیگر نصابی سرگرمیوں میں دوسرے بچوں سے کتنے بہتر ہیں، ان کے بچوں کا دوسروں کے بچوں سے کوئی مقابلہ ہیں نہیں ہے
انا پرستوں اور ایگو زدہ لوگوں کا ماننا ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے بہتر ہیں، اس لئے کوئی بھی شخص ان کو نئی بات نہیں سکھا سکتا اور یوں وہ اپنے اور سیکھنے اور آگے بڑھنے کے دروازے بند کر لیتے ہیں لیکن خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرتے رہنے کے لئے ڈینگیں مارتے رہتے ہیں اور زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں۔

خاص طور سے وہ لوگ جن کی شخصیت کمزور ہے، اندرسے خوفزدہ ہیں یا ان کے پاس خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے کسی قسم کی ا ہلیت نہیں، وہ اپنی کمزور یوں کو چھپانے اور اپنی انا کی تسکین کے لئے اکثر دروغ گوئی یا دھونس دھڑلے سے کام لیتے ہیں۔
وہ تمام لوگ جو خود کو بہتر انسان بنائے کے خواہاں ہیں، اپنی انا سے ہوشیار اور چوکنا رہتے ہیں اور اپنے بارے میں کسی منفی رائے سے بر انگیختہ ہونے کے بجائے اپنی زات کا تجزیہ کرتے ہیں اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :