ٹورنٹو کا حاجی۔ قسط 4

بدھ 20 اکتوبر 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

مکہ کے پہلے 5 دن
مکہ میں پہلے پانچ دن حج کی تیاری کے لئے بہت مفید ثابت ہوئے۔ ہمارے گروپ کے ساتھ سرکاری طور پر ایک عالم دین بھی ہمراہ تھے۔ وہ  علماء کے روائتی پروفائیل کے حساب سے کافی کم عمر تھے، مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے اور ماشا اللہ کئی حج کر چکے تھے۔ حج شروع ہونے سے پہلے مکہ میں ان کے کئی لکچر ہمارے لئے بہت مفید ثابت ہوئے اور ان لکچروں نے ہمیں ذہنی طور پر حج کی تیاری میں بہت مدد دی۔

یوں تو ہم میں سے زیادہ تر لوگ کتابوں اور دیگر تعلیمی مواد کی مدد سے کافی تیاری کر کے آئے تھے، لیکن ظاہر ہے کہ حج کا تجربہ بہت کم لوگوں کو تھا۔ اسلئے خود اعتمادی کی بھی بہرحال کمی تھی۔ یہ کمی عالم صا حب کے لکچروں نے پوری کر دی،ہمیں  یہ احساس دلانے میں بہت مدد کی کہ حج کی اہمیت کیا ہے اور ہم ایک بہت اہم فریضہ ادا کرے جا رہے ہیں اور اس عظیم مرحلہ سے کامیابی سے گزرنے کے لئے کیا کچھ ضروی ہے۔

(جاری ہے)

رخت سفر تو بہت لوگ تیار کر لیتے ہیں لیکن، موقع، تو فیق اور کامیابی تو قسمت سے ملتی ہے۔ ان کے لیکچروں سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ اگر وہ ہمارے ساتھ نہ ہوتے تو شائید ہم حج کی فضیلیت سے ا تنی زیادہ آگاہ نہیں ہو سکتے تھے۔
شروع میں ہمارا 5دن کا قیام مکہ میں تھا۔ اس میں ہمارا پہلا عمرہ بھی شامل تھا۔
مکہ میں مشکل سے تین چار گھنٹے کی نیند ہوتی تھی۔

سوتے سوتے دیر ہو جاتی تھی لیکن رات میں دو ڈھائی بجے آنکھ کھل جاتی تھی، لیکن لگتا تھا کہ بالکل تازہ ہیں۔ اٹھنے کے بعد یہ تو ناممکن تھا کہ حرم شریف میں حاضری نہ دی جائے۔ عموماً تہجد کے وقت سے فجر کی نماز تک کا وقت حرم شریف میں گزرتا۔ فجر کے بعد ہوٹل واپس آجاتے کہ اس وقت سے ہوٹل والوں کے ناشتے کا ٹائم شرو ع ہو جاتاتھا۔
مکہ پہنچنے کا بعد ایک کندھے پر لٹکانے والا بیگ بنا لیا تھا۔

یہ بیگ بہت کارآمد رہا۔حج کے دوران ہر وقت میرے ساتھ رہا، حرم شریف میں، مسجد نبوی میں، منیٰ میں، عرفات کے میدان میں، مزدلفہ میں۔ فقط اس کے سامان میں ضرورت کے مطابق تھوڑڑا بہت ردو بدل ہوتا رہا۔  اس میں ایک جاء نماز، چپل رکھنیے کی گنجائش (عموماً چپل آپ پہنے ہوتے ہیں لیکن جب حرم شریف یا مسجد نبوی میں جاتے ہیں تو اسے جھولے میں رکھ لیتے ہیں)، ایک چھوٹی پانی کی بوتل، ایک بسکٹ کا پیکٹ یا دیگر اسنیک، اپنی ضروری دوائیں، ایک چھوٹی تولیا،یا ٹشو، جلد کو غیر ضروری سختی سے محفوظ رکھنے کی کریم۔

منیٰ میں ہیں تو چپل پہن لی اور اس میں دعاؤں کی کتاب اور قران شریف رکھ لیں۔ عرفات گیا تو اس میں ایک چھوٹی دستی چھتری بھی رکھ لی۔ کچھ تصویریں یادگار کے طور پر بنانا تھیں تو ا س میں ایک کیمرہ کی بھی گنجائش ہے۔ اس کی افادیت اس طرح سمجھیں کہ مکہ میں دوسرے  دن میرا یہ جھولا ہوٹل کے ڈائنگ روم میں رہ گیا۔ آپ یقین کریں مجھے ایسا لگا جیسے اندھے کی لاٹھی کھو گئی ہے۔

خیر جب دوسری صبح ناشتے کے وقت یہ جھولا ڈائنگ روم سے دووبارہ دستیاب ہوا تو جان میں جان آئی۔
حج مختصر مختصر
حج کے دن فقط پانچ ہیں جو آپ کو منیٰ میں گزارنے ہیں۔ اس میں بھی تیسرے دن آپ  جمرات میں کنکریاں مارنے، قربانی اور بال ترشوانے کے بعداحرام اتار کر اپنے روزمرہ  کے کپڑوں میں آجاتے ہیں اور اسکے بعد اگلے دو دون صرف جمرات میں کنکریاں مارنے کا کام باقی رہ جاتا ہے۔


حج کے ان پانچ دنوں میں آپ منیٰ میں آپ کا قیام خیمہ میں ہوتا ہے، دوسرے دن آپ وہاں سے عرفات چلے جاتے ہیں، پورا دن عرفات میں گزار نے کے بعدرات مزدلفہ میں بسر کرتے ہیں اور تیسرے دن صبح کو مزد لفہ سے منیٰٰ واپس آجاتے ہیں۔ باقی دنوں میں آپ رمی کے لئے جمرات جاتے ہیں اور کسی ایک دن طوافِ زیارت کے مکہ(حرم شریف) جاتے ہیں اور پھر منیٰ آجاتے ہیں۔


نمازوں کی ترتیب کے ساتھ ہمیں جو پروگرام بتایا گیا تھا وہ اس طرح تھا
٭8 ذی الحج۔
فجر کے بعد مکہ سے منیٰ کو روانگی۔
منیٰ میں پہلے دن تین نمازیں ظہر، عصر
منیٰ میں رات کا قیام
٭9 ذی الحج۔ فجر کے بعد منیٰ سے عرفات کو روانگی
ظہر اور عصر عرفات میں (یہاں دونوں نمازیں ملا کر پڑھی جاتی ہیں)
مزدلفہ کو روانگی۔ مغرب اور عشاء کی نماز م (یہاں بھی  دونوں نمازیں ملا کر پڑھی جاتی ہیں)
٭ 10 ذی الحج۔

رات مزدلفہ میں گزار کر  فجر کے بعد منیٰ کو واپسی
منیٰ سے جمرات (پیدل)  تیسرے، چوتھے اور پانچویں دن
منیٰ سے مکہ۔ طواف زیارت کے لئے
اور آخری دفعہ طواف الوداع کے لئے
حاضری غیر حاضری
لبیک،لبیک اللہ ہم لبیک۔ یعنی  حاضر ہوں، حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں۔  یہ ہیں وہ الفاظ جو حج کے لئے لازم اور ملزوم ہیں۔

ذہنی اور جسمانی حاضری ہی حج کا لازم حصہ ہیں۔ جسمانی حاضری  تو آپ کی ہو گئی، لیکن ذہنی حاضری کا مطلب ہے کہ ہر اس چیزسے پرہیز کیا جائے جس سے توجہ بٹ جانے کا احتمال ہو۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ جب ہم حج کے دوران کسی بات کی شکایت کرتے ہیں تو ہماری توجہ حج کے ارکان سے ہٹ  جاتی ہے اور دیگر مسائیل کی طرف چلی جاتی ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو شکایات سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔

کہنے کو یہ ایک معمولی سی بات ہے اور حج شروع ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی ہمارے گروپ لیڈر اور گروپ کے مولانا کی طرف سے بھی اس کا بار بار اعادہ کیا گیا لیکن افسوس کہ حج کے دوران اکثر دوستوں کی طرف سے شکایات کا دفتر کھلا رہا۔ جب لوگوں کو سمجھایاجاتا ہے کہ بھئی یہ تو حج کی مشکلات کا حصہ ہیں اور صبر سے کام لیں تو  اکژ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حج کی مشکلات نہیں ہیں یہ ایجنٹ کی نا اہلی ہے اور اس نا اہلی کی وجہ سے ہمار ے حج میں مشکلات آرہی ہیں۔

 
مشکلات کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں
1۔ منیٰ کا قیام، عرفات میں دن گزارنا، مزدلفہ میں رات کا قیام، ٹرانسپورٹ کا انتظار،  ٹریفک جام، موسم، طبیعت کی خرابی، بیماری، جسمانی مشقت جس کے ہم جیسے تن آسان لوگ روز مرہ زندگی میں عادی نہیں رہے۔ یہ  سب مشکلات حج کی تکا لیف کا حاصل ہیں اور ان کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہئے

آپ کے ایجنٹ کی طرف سے غیر ذمہ دار، انتظامات میں خرابی اوردیگر عوامل کی طرف سے بھی مسائیل پیدا ہو سکتے ہیں
3۔ آپ کی ذاتی مشکلات، غیر موثر پلانگ، بہت زیادہ سامان یا سامان کی کمی۔ بعض دفعہ موقع پر ضروری سامان کا دستیاب نہ ہونا مثلا تولیا چاہئے، تولیا سوٹ کیس میں ہے اور سوٹ کیس بس کے نچلے حصے میں ہے۔ اب آپ کر لیں جو کچھ کرنا؟ صبر کر لیں یا چیخ چلا کر اپنا دل ہلکا کر لیں اور حج خراب کر لیں۔

انتخاب آپ کا اپنا ہے۔
مکہ،منیٰ، عرفات،  اورمزدلفہ کے درمیان فاصلہ بہت کم ہے لیکن ان کے درمیان سفر کے لئے بسیں استعمال ہوتی ہیں، اور ان بسوں کے نظام الاوقات کسی کے بس میں نہیں۔  رش بہت ہوتا ہے اور دو سے 3 گھنٹے کا ٹریفک جام ایک عام بات ہے۔ ایک محدود وقت میں 35، سے 40 لاکھ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہوتا ہے، اس سے آپ حالت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

لوگوں کو بسوں سے متعلق ہی سب سے زیادہ شکایت اپنے ایجنٹ سے ہوتی ہیں، اور ا سی وجہ سے اکثر تلخ کلامی دیکھنے  میں آتی ہے۔
وہ تما م لوگ جو اللہ کے فضل و کرم سے آسائیش کی زندگی گزار رہے ہیں اور انہوں نے  وطنِ عزیز میں کبھی عوامی ٹرانسپورٹ یا ریل میں سفر نہیں کیا، عوامی بیت ا لخلا ء استعمال نہیں کئے،  زمین پر نہیں سوئے، عوام کے ساتھ طعام اور قیام میں شریک نہیں ہوئے، ان کے لئے منیٰ میں قیام آسان کام نہیں ہیں۔

اور یہی حج کا  اصل حسن ہے۔ یہیں انسان کے صبر کا امتحان ہوتا ہے اور اسے یاد دلایا جاتا ہے کہ تمہیں جو فی زمانہ آسائشیں حاصل ہیں تم ان کا اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتے رہے، آؤ اور آج شکر ادا کرو کہ یہ تمہیں یہ سب کچھ حاصل ہے۔ اور اگر منیٰ میں ۵ دن یہ آسائشیں تم سے چھین لی گئیں ہیں تو  شور مت مچاؤ اور شکر ادا کرو۔
اس مقام پر بہت کرو۔ سے لوگ صبر کا دامن کھو بیٹھتے ہیں اور کبھی سعودی حکومت کے انتظامات میں نقص نکلاتے ہیں، کبھی اپنے ایجنٹ کو کوس کر دل کی بھڑاس نکلاتے ہیں، لیکن یہ نہیں مانتے کہ  ان سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو پا رہا ہے، ہمارے ایک ساتھی تو اس قدر غصہ میں تھے کہ انہوں ا علان کر دیا تھا کہ واپس پہنچتے ہیں اپنے ایجنٹ خلاف مقدمہ کر دیں گے
منیٰ میں قیام
حج کی ابتداء منیٰ کے قیام سے شروع ہوتی ہے۔

ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ ذی الحج کی 8 تاریخ کو ہمیں منیٰ کے لئے روانہ ہوناہے۔  
سامان کے متعلق بہت واضح ہدایات تھیں کہ صرف ایک چھوٹا سا ہینڈ کیری ساتھ لے جاسکتے ہیں کہ منیٰ میں خیموں میں قیام ہوگا۔  ایک ایک خیمہ میں 40 لوگ ہونگے اور اس مناسبت سے وہاں سامان کے لئے بہت مختصر جگہ ہو گی۔ہم اگلے پانچ دن کی ضرورت کی تمام چیزیں، کپڑے، ذاتی ضروریات کا سامان، قران شریف، دعاؤں کی کتابیں، سیل فون اور دوائیں  وغیرہ اپنے ہینڈ کیری میں رکھ لیں کہ اگلے 5 دن تک آپ کا کل اثاثہ یہی ہینڈ کیری ہی ہے۔

جن کے پاس سلیپنگ بیگ ہیں وہ اسے اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں، جو منیٰ میں تو نہیں لیکن مزدلفہ میں چاہئے ہوگا۔ بقیہ سامان کے لئے ہدایت تھیں کہ 8 تاریخ کو صبح  سویرے یہ سامان آپ اپنے کمرے کے باہر رکھ دیں یہ سامان اب آپ کو مدینہ میں ملے گا۔
 ہمیں کہا گیا تھا کہ ذی الحج کی 8 تاریخ کو منیٰ روانہ ہونے کے لئے ناشتہ کر کے اور نہا دھو کر احرام پہن کر ہوٹل  کے لاؤنج میں آجائیں اور صبر سے بسوں کا انتظار کریں۔

یہ بسیں آپ کو منیٰ لے جائیں گی اور آپ کو آپ کے الاٹ شدہ خیموں کے بالکل نزدیک اتاریں گی۔ بسیں کب آئینگی کچھ نہیں کہا جا سکتا؟تین چار گھنٹے کا ٹریفک جام عام بات ہے۔ عورتیں الگ بس میں جائیں گی  اور مرد الگ۔ انشااللہ ظہر کی نماز منیٰ میں ہوگی
ہدایات بہت واضح تھیں، لیکن بے صبری، افواہ سازی اور جلد بازی کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ہر جگہ ایسے افراد ہوتے ہیں جو منفی پہلو کو زیادہ  نمایاں کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔

میرا خیال تھا کہ شائد حج پر اس طرح کی خرافات سے پرہیز ہو گا لیکن یہ میری خوش فہمی ہی رہی۔ حج کے دوران بھی ان  پر قابو پانا مشکل نظر آیا۔  
 ناشتے کے بعد نوبجے تک سب لوگ ہوٹل کے لاؤنج میں آ گئے اور بسوں کا انتظار شروع ہو گیا۔ بہت کم لوگ تھے جو کسی عبادت میں مشغول تھے، زیادہ تر لوگ ہوٹل کے اندر باہرآ جا رہے  تھے، اور ہر نئی آنے والی دوسرے گروپوں کی بس پر لپک رہے تھے۔

نو سے دس بجا، گیارہ بجا پھر 12 بھی بج گیا تو زیادہ تر لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظام ٹھیک نہیں ہے(جب کہ ہمارے گروپ لیڈر پہلے ہی خبردار کر چکے تھے)۔ افواہ سازوں اور بے صبروں نے اپنے ترکش کے تیر نکال لئے اور اپنے کام میں لگ گئے
خدا خدا کر کے ایک بجے کے نزدیک بسوں کی آمد کی اطلاع ملی۔ اس اعلان کے ساتھ ہی لوگوں کی  بے صبری اور جوش و خروش میں اضافہ ہوگیا۔

ایک خیال یہ تھا کہ دیر سے پہنچیں گے تو شائد خیموں میں مناسب جگہ نہ ملے، جو پہلے  پہنچے گا وہ فائدہ میں رہے گا۔ کہا تو یہ گیا تھا کہ مرد اور خواتین ا لگ بسوں میں جائیں گے، لیکن بسوں کے آتے ہی لوگ اپنے اہلِ خانہ اور سامان سمیت بسوں میں بھرنا شروع ہو گئے۔ جن لوگوں کے بڑے بڑے ہینڈ کیری تھے اور ساتھ میں سلیپنگ بیگ اور چھتریاں بھی تھیں، انہیں اپنا سارا سامان گود میں رکھنا پڑ رہا تھا، کیونکہ بس  کے اندر سامان رکھنے کی گنجائش قطعی نہ تھی۔

کچھ لوگوں نے راستہ میں سامان رکھ دیا تو آنے جانے والوں کا راستہ رک گیا۔  
ہم بھی ایک بس میں سوار ہو نے کی کوشش میں لگ گئے۔ احرام کے ساتھ سامان اٹھانا اور بس کی سیڑھیوں پر چڑھنا آسان کام نہیں ہے۔ سمجھہ میں نہیں آتا کہ خود کو سنبھالیں، احرام کو سنبھالیں، سامان سنبھالیں یا ایمان سنبھالیں۔  یہ سب کچھ بہرحال آپ کی قوتِ برداشت کا امتحان ہے، اور حج کا حصہ ہے۔

اس بس میں منیٰ میں استعمال ہونے والا سامان بھی چڑھایا جانے لگا اور اس طرح روانگی میں مزید تاخیر ہونے لگی۔ موسم کافی گرم تھا لیکن چونکہ بس ایئر کنڈیشنڈ تھی اس لئے موسم کی سختی کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔
سامان رکھا جا چکا تو پھر بس کی روانگی عمل میں آئی۔ مکہ سے منیٰ کا فاصلہ زیادہ نہیں ہے، لیکن ٹریفک کی وجہ سے  بسوں کی رفتار کم تھی۔

پھر بھی تقریبا ً ایک گھنٹے میں منیٰ پہنچ گئے۔
ہم پڑھتے اور سنتے  تھے کہ منیٰ کو خیموں کا شہر کہتے ہیں۔ منیٰ میں داخل ہوئے تو باکل ایسا ہی پایا جیسا سنا اور پڑھا تھا۔ ہر طرف ایک ہی طرح کے خیمے لگے ہوئے تھے۔ ساری سڑکیں بھی ایک جیسی لگ رہی تھی جن پر بس مڑ رہی تھی۔ یہ بات طے تھی کہ اگر آپ کبھی منیٰ میں کھوئے گئے تو صرف نشانیوں سے اپنی خیمہ تک پہنچنا مشکل ہو گا۔

اس بات کے لئے ہمیں پہلے ہی ہمارے گروپ لیڈر نے ہو شیار کر دیا تھا۔
خیموں کو بلاکوں کے  حساب سے ترتیب دیا گیا تھا۔ ہر بلاک میں خیموں کی اپنی لائنیں تھیں اور راہداریاں تھیں، جن  پر سرخ قالین ڈال دئے تھے۔ہر بلاک میں مناسب فاصلے پر چائے کافی کے پانی کیلئے سٹیل کے الیکٹرک ٹینک تھے، جن میں  دن کے وقت گرم پانی رہتا تھا۔ ان ہی بلاکس میں لائین سے کثیرالمقاصد عوامی غسل خانے بنے ہوئے تھے اور ان کے باہر لائین لگی ہوئی تھی۔

   باہر ی حصے میں وضو کرنے کے لئے نلکے لگے ہوئے تھے۔  
ہمارے گروپ کے پاس تین خیمے تھے۔برابر  برابر دو خیمے مردوں کے لئے اور ایک عورتوں کے لئے۔  ہر خیمے میں تقریباً 40 لوگوں کے ٹھیرنے کی گنجائش تھی۔ ہرشخص  کے لئے ایک فولڈنگ بیڈ تھا، جسے فولڈ کر کے صوفہ کی شکل دی جا سکتی تھی۔ اسی صوفہ کم بیڈ کے پیچھے اپنا ہینڈ کیری رکھنے کی مختصر سی جگہ تھی۔

ہر فرد  کے لئے ایک تکیہ، بچھانے کے لئے چادر اور اوڑھنے کے لئے ایک کھیس بھی دیا تھا۔
خیمے لگانے کے لئے جو لکڑیاں لگائی گئیں تھیں ان میں سے ایک دو کے اوپر سیل فون چارج کرنے کے لئے پوائنٹس بنے ہوئے تھے۔ سارے خیمے فائیر پروف اور ائیر کنڈیشن تھے۔  ائیر کنڈیشن کا کنٹرول بھی خیمے میں ہی تھا تاکہ آپ موسم کے مطابق خود ہی درجہء حرارت کو کم یا زیادہ کر لیں، لیکن یہ سہولت بھی بعد میں اکثر و بیشترتنازع کا باعث بنتی رہی۔

کچھ لوگ  ائرکنڈیشنڈ چالو رکھنا چاہ رہے تھے اور کچھ اسے بند رکھنے پر مصر تھے
 ہم سے پہلے ہمارے گروپ کی ایک بس پہنچ چکی تھی اسلئے کافی لوگ خیمہ میں پہنچ چکے تھے، اور اپنی جگہیں لے چکے تھے۔ چونکہ جگہوں پر نام نہیں لکھے تھے اور نہ ہی کوئی نمبر الاٹ کیا گیا تھا، اسلئے جو جہاں چاہے  جگہ لے سکتا تھا۔ میں نے خیمہ ایک چکر لگایا تو تقریباً تمام جگہوں پر کسی نہ کسی کا سامان رکھا تھا اسلئے میں نے خود سے جگہ تلاش کرنے کا ارادہ ترک کر کے انتظامیہ کے افراد سے مدد چاہی، اور اس طرح مجھے ایک  فولڈنگ بستر یا صوفہ جو کچھ کہیں دستیاب ہو گیا۔

میں نے ادھر ادھر دیکھا تو سب ہی لوگ اپنا پنے بیڈ کھول کر لیٹ گئے تھے یاآرام کر رہے تھے نماز کا وقت تنگ ہو رہا تھا اسلئے سامان رکھتے ہی واش روم کی تلاش شروع ہوئی۔
منیٰ میں گروپ سے بچھڑنے کے واقعات عام ہوتے ہیں، لیکن جس کے ساتھ ہوتا ہے اس کو کافی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ ایک تو وہاں سارے خیمہ ایک جیسے ہیں، دوسرے  عارضی انتظامات کی وجہ سے سڑکوں کے نقشے و غیرہ بھی دستیاب نہیں اور سب سے بڑا زبان نہ جاننے کا مسئلہ ہیں پوچھیں تو کس سے پوچھیں۔

زیادہ تر لوگ خود ہماری طرح  باہر سے حج پر آئے ہوئے ہوتے ہیں۔اس احتیاط کے پیشِ نظر میں آتے ہوئے میں واش روم کی تلاش میں نکلا تو راستے کی تمام نشانیاں ذہن میں ر کھتا ہوا آیا تھا کہ کہیں کھو نہ جاؤں۔ میں نے ایک نلکہ سے جلد ی جلدی وضو کیا اور واپس اپنے خیمے میں پہنچ گیا۔  جماعت تو شائد پہلے ہو چکی تھی، اسلئے میں نے اپنے بیگ سے جاء نماز نکالی اور ایک کونے میں نماز ادا کر لی۔

رات کے کھانے میں ابھی دیر تھی۔میں بھی اپنا فولڈنگ بیڈ کھول کر اس پر دراز ہو گیا۔ اور آس پاس کا جائزہ لینے لگا۔
گروپ کے انتظامات  کے مطابق وہ ہمیں صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا  دینے کے پابند تھے، اور دوپہر کے کھانے کی ان پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ گروپ ممبرز جیسے چاہیں اپنے کھانے کا بندوبست کر  سکتے تھے۔ لیکن لوگوں کی آسانی کے لئے کافی، چائے، جوس، پھل، اور بسکٹ وغیرہ ہر وقت وافر مقدار میں موجود رہتے تھے۔

کافی لوگ دوپہر کا کھانا ویسے بھی نہیں کھاتے تھے۔
ہر سفر میں کچھ  نہ کچھ دلچپ واقعات ہو ہی جاتے ہی ہیں چاہے  حج کا سفر ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ ہمارا منیٰ میں غالباًچوتھا دن تھا۔ کچھ لوگوں نے گروپ لیڈر سے کہا کہ دو تین دن سے رات کے کھانے کا مینو تقریباً یکساں ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس میں کوئی تبدیلی ہو جائے (مجھے من وسلویٰ کا واقعہ یاد آ گیا) گروپ لیڈر نے کہا کہ کوشش کرتے ہیں۔

شام کے وقت گروپ لیڈر نے کہا کہ اس نے البیک(وہاں کا ایک مشہور ریسٹوران جو اپنے بیکڈ چکن کے لئے مشہور ہے) سے بات  کی ہے لیکن رش کی وجہ سے آج تو مشکل ہے لیکن کل کے لئے پروگرام پکا ہے۔  
بات آئی گئی ہو گئی۔ عموماً رات کا کھانا عشاء کی نماز کے کافی بعد تقریباً ۹ بجے رات میں  پیش کیا جاتا تھا۔ تقریباً ۸ بجے ایک شخص ہمارے خیمہ کے دروازے کے سامنے کھانے سے بھری ہوئی پلیٹ لئے آواز لگاتے ہو گزرا کہ کھانا آ گیا ہے ، آپ لوگ صدر دروازے پر لائین لگا لیں کھانا وہیں سے تقسیم ہو رہاہے۔

عورتوں کے خیمے میں بھی کہہ دیا گیا ہے۔
یہ بات روزمرہ کے انتظام سے ذرا مختلف تھی۔ کیونکہ روازنہ ناشتہ اور کھانا  خیمہ میں ہماری سیٹوں پر ہی سرو کیا جاتا تھا۔ لیکن ہم میں سے اکثر نے سوچاکہ شائد البیک والوں نے کل کے بجائے آج ہی بھیج دیا
  اور شائید اسی لئے  لائین لگانی ہو گی۔ میں نے اور کچھ اور  دوستوں نے سوچا کہ جلدی کیا ہے ذرا رش ختم ہو جائے اور عورتوں بھی لے لیں تو چلتے ہیں۔


کچھ حضرات  اٹھ کر کھانا لینے  چلے گئے۔ کچھ دیر کے بعد ایک دو حضرات بھنائے ہوئے آئے کہ کیا ہمیں فقیر سمجھا ہوا ہے،  دینے والے دونوں ہاتھوں سے ڈیگ میں سے چاول نکال رہے اور تقسیم کر ہے ہیں۔ ہم توا س طرح سے کھانا نہیں لے سکتے، بھلے بھوکے رہ جائیں۔ ہم ابھی گروپ لیڈر سے بات کرتے ہیں۔ بات البیک کی ہوئی تھی، یہ کس ملباری کے ہوٹل سے کھانامنگا کر تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ہم ابھی گروپ لیڈر سے بات کرتے ہیں، بعد میں پتہ چلا کہ یہ کسی ادارے کی طرف سے لنگر کا کھانا تھا، اور کسی نے غلط فہمی میں  آواز لگا دی کہ یہ گروپ کا کھانا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :