سوشل ویلفیرپالیسی

منگل 14 ستمبر 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

سوشل ویلفئرپالیسی یا سماجی فلاحی پالیسی ایک ایسے سسٹم، طریقہ کار یا حکمتِ عملی کو کہا جاتا ہے جس کا مقصد عام لوگوں کو ان کی بنیادی  مالی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے میں  یا سماجی مسائیل کو حل کرنے میں مدد دینا ہے۔ سوشل پالیسی، سماجی ترجیحات کی ایک  بڑی تصویر پیش کرتی ہے اور سماجی انصاف، مساوات، انسانی حقوق اور ماحولیات جیسے معاملات کا بھی احاطہ کرتی ہے۔


عام فہم الفاظ میں سماجی فلاح و بہبود  یا سوشل ویلفئرکا مطلب ہے کہ ان لوگوں کے لئے کیا خدمات موجود ہیں جو کسی ناگہانی یا اتفاقی حالات مثلاً بے روزگاری، بیماری، معذوری یا بے گھری وغیرہ کاشکار ہوتے ہیں اور انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کی صورتِ حال کا شکار ہونے والے کو  فوری اور بعض دفعہ طویل مدتی مالی امداد کی  ضرورت ہوتی ہے۔

(جاری ہے)


کوئی بھی معاشرہ مثالی اور ہر لحاظ سے یکساں نہیں ہوسکتا، اس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ امیر، غریب، برسرِ روزگار،بے روزگار، عمر رسیدہ لوگ، طالب علم، گھر میں بیٹھنے والی خواتین، عارضی کارکن، چھوٹے کاروباری لوگ، بے گھر، سماج کے پچھڑے  اور ٹھکرائے ہوئے لوگ  وغیرہ۔اور یہی کچھ تمام معاشروں میں سماجی ناہمواری  کی بنیادی وجہ ہے، چاہے وہ امیر ترین ممالک ہوں یا تیسری دنیا کے غریب ترین ممالک،  امیرممالک میں بھی  بدترین غربت  پائی جاتی ہے اور غریب ممالک میں بھی متمول ترین طبقہ ہوتا ہے۔


وہ لوگ جو امیر ہیں، وسائیل رکھتے ہیں اور جن کو عزت و احترام نصیب ہے، وہ  اس صورتِ حال سے مطمئن رہتے ہیں اور اسے ایسا ہی رکھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں  یعنی(Status quo)  کے قائیل ہیں۔کم وسیلہ، غریب اور بے بس لوگ اس صورتِ حال سے دل برداشتہ ہوتے ہیں اور اسے بدلنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اسے یوٹوپین  سوچ (Utopian thinking)  کہا جاتا ہے۔
عوام اپنے سماجی مسائیل اور ان سے جڑے ہوئے مالی اور معاشی مسائیل کے حل کے لئے حکومت کی طرف ہی دیکھتے ہیں، اور  حکومت کے لئے ان مسائیل کا حل اس کی اپنی سوشل پالیسی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

  ہر ملک کو سماجی مسائیل سے احسن طریقے سے عہدا براہونے کے لئے ایک کثیرالجہتی اور عوامی امنگوں کے مطابق ایک اچھی سماجی فلاح و بہبود کی پالیسی کی ضرورت  ہوتی ہے، چاہے وہ ترقی ترقی یافتہ ملک ہو یا  تیسری دنیا کا کوئی غریب ملک۔
 سوشل ویلفئر پالیسی کیسی ہونی چاہئے؟
کسی بھی ملک کی سوشل پالیسی اس  بات کی عکاسی کرتی ہے کہ معاشرے کو کیسا  نظر آنا چاہئے؟ اس سلسلے میں حکومتی اور سیاسی سوچ اور بصیرت، سماجی  اداروں اور سماجی کارکنوں  کی سوچ سے مختلف بھی ہو سکتی ہے، جس پر گفت و شنید اور افہام  و تفہیم کے دروازے کسی بھی مہذب معاشرے میں ہمیشہ کھلے  رہنے چاہئیں۔


 دیگر پالیسیز کی طرح سوشل پالیسی کا بھی ایک جامع فریم ورک ہوتا ہے حکومت کے پاس یہ اختیار ہوتا  ہے کہ وہ اپنی سوچ اور بصیرت کو قانون اور پالیسی کی شکل میں لاگو کر سکتی ہیں، لیکن  جمہوری حکومتیں عموماً  اتفاقِ رائے سے کسی حکمتِ عملی کو  اختیار کرنے پر ترجیح دیتی ہیں۔سماجی پالیسی کوئی جامد ضابطہ یا لائحہ عمل نہیں ہے اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ برسرِ اقتدار حکومت کو  ایک رواں سماجی پالیسی توپچھلی حکومت سے ورثہ میں ملتی ہے لیکن برسرِ اقتدار حکومت اپنے  منشور، سیاسی فلسفہ اور اندازِ فکر، موجودہ  اقتصادی صورتِ حال اور عام ضرورتوں کے مطابق  اس پالیسی میں رد وبدل کر سکتی ہے اور کرتی ہے۔
سوشل ویلفئر یعنی سماجی بہبود کی پالیسی کیسی ہونی چاہئے اور اسے ہماری سوسائٹی میں کیا کردار ادا کرنا چاہئے،  اس کے بارے  میں ریسرچر، سرکاری اہلکار، تعلیمی ماہرین، سیاسی جماعتیں اور  سوشل ویلفئر کے کارکنوں (ایکٹیوسٹ) میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ ایک بڑی سوسائٹی میں کسی پالیسی پر سب کا اتفاقِ رائے ایک مشکل بات ہے۔ تاہم زیادہ تر لوگ اس پر اتفا ق کرتے ہیں کہ اچھی سوشل ویلفئرپالیسی غریبوں کو غریبی سے چھٹکارا دلانے، اور وہ لو گ جو غریبی کی لائین سے اوپر ہیں، انہیں غربت سے بچانے کے لئے معاون ثابت ہونی چاہئے۔
تاریخی جائزہ۔ غریبوں کے قوانین
غریبوں کے لئے یہ وہ قوانین ہیں جو  برٹش پارلیمنٹ نے ایلزبتھ دور میں بنائے اور ان کا اطلاق کیا تھا۔

اس کے تحت  ان علاقوں میں جہا ں  امراء  رہتے  ہیں بھیک مانگنا قابلِ سزا جرم تھا۔ یہ قوانین کچھ اس طرح تھے
۔ کسی بھی شخص  کے لئے سرکار کی طرف عوامی امداد ایک آخری سہارا ور ذریعہ ہونا  چاہئے اور اسے اس وقت دیاجانا چاہئے جب کسی فرد پر اسکے دوست، رشتہ دار، بنک، مذہبی تنظیم اور دیگر فلاحی اداروں کی طرف سے امدادکے تمام دروازے بند ہو چکے  اور اسکے تمام اساسے بھی فروخت ہو چکے ہوں۔


۔ عوامی امداد صرف حقیقی مستحق لوگوں کو ملنی چاہئے جو خود  روزگار کمانے کی استطاعت نہیں رکھتے جیسے بوڑھے لوگ، معذور اور یتیم وغیرہ
۔ عوامی امداد مشروط ہونی چاہئے۔ یعنی وہ لوگ جو یہ امدا دلے رہے ہیں وہ  اس کے عوض  معاشرے  کے لئے کچھ نہ کچھ خدمات  انجام دیں۔ مثلاً وہ  غریب والدین جو  خود روزگار کمانے کی استطاعت نہیں رکھتے اور عوامی امداد لیتے ہیں، وہ اس کے عوض بچوں کی دیکھ بھال کریں نہ کہ انہیں تنہا چھوڑ دیں۔


۔عوامی امداد کم از کم اجرت سے کم ہونی چاہئے تاکہ لوگوں کی حکومت  پر تکیہ کرنے کی عادت کی حوصلہ شکنی ہو
وراثتی نو آبادیاتی نظام  نے غرباء کے لئے مستحق اور غیر مستحق کی تفریق پیدا کی اور ساتھ ہی ساتھ  ان کے لئے ترتیب دئے جانے والی فلاحی پروگراموں میں سزا کا عمل اور خصوصی جانچ پڑتال کی سوچ بھی شامل کر دی، جو کہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔

اس  فلسفہ کے مطابق جو لوگ جسمانی طور پر کام کرنے کے قابل ہیں انہیں قانوناًکام کرنے پر مجبور کیا جائے۔ جولوگ جسمانی طور سے معذور ہیں صرف وہی اصل مستحق ہیں۔
موجودہ سماجی بہبود کی پالیسیز کا تعلق براہ ر است انیسویں صدی کی تحریکوں سے ہے۔
چیرٹی سوسائٹی موومنٹ جو 1877میں امریکہ میں شروع ہوئی اور سٹلمنٹ ہاؤس موومنٹ انگلینڈ میں 1884میں شروع ہوئی۔

گو کہ دونوں صنعتی ترقی اور  شہری  آبادی  Urbanizationکی پیداوار تھیں، لیکن غربت کے معاملے میں  دونوں کی سوچ الگ الگ تھی۔
چئیرٹی  موومنٹ:  ان کاخیال تھا کہ ایک منطقی  اورمربوط  نجی خیراتی سسٹم  لوگوں کی غربت کے معاملے میں سہارا دے سکتا ہے۔ کمیونٹی کے  اچھے لوگ اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کس کی مدد کی جائے اور کس کی نہیں۔
 سیٹلمنٹ ہاؤس:ان کا خیال تھا کہ غربت، غریب کا قصور نہیں ہے بلکہ اسے غریب بنانے میں سسٹم کا ہاتھ ہے۔

ہمیں غریب کی مدد کرنے کے بجائے سسٹم کو بہتر بنانا چاہئے جو  غریبی  پیدا کرتا ہے۔
سوشل ویلفئر اور اقتصادی ماڈل
سوشل ویلفئر پروگرامز کا اقتصادیات سے گہرا تعلق ہے کیونکہ اس طرح کے مالی اعانت کے پروگرام  کے لئے رقم مختص کرنا  سیاسی سوچ اور اقتصادی ماڈل کے تحت ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں دو ماڈل بہت مشہور ہوئے ایک تو Laiseesz-Faire  اور دوسرا کینسین ماڈل۔


Laiseesz-Faire  ماڈل
اس کا مطلب ہے تنہا چھوڑ دو۔  اس  فلسفہ کے مطابق  مارکیٹ کو آزاد اور تنہا چھوڑ دینا چاہئے۔  بندشوں اور حد سے زیادہ قوانین کی وجہ سے نہ تو کاروبار ترقی کرتے ہیں اور نہ ہی پیداوار میں اضافہ ہوتاہے۔ سوشل ویلفیر پروگرام کم سے کم ہونے  چاہئیں اور معذور اور ضروت مندوں کے لئے ہونے چاہئیں۔
اس ماڈل میں ایک نہ ختم ہونے والا اقتصادی  ترقی کا فلسفہ ہے۔

زیادہ سے زیادہ مصنوعات کی تیاری اور ان کا استعمال تاکہ زیادہ سے زیادہ آسامیاں پیدا  ہوں، منافع میں اضافہ ہو، تنخواہوں میں اضافہ ہو، حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ لیکن ا س پیداواری منافع کے اہداف کو  ہمیشہ کے لئے جاری رکھنا آسان نہیں رہا۔
انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ترقی کی رفتار  تیز سے تیزتر ہوتی گئی، اور پیداوا ر میں اضافہ کو  آمدنی سے جوڑنے کی  وجہ سے عام آدمی بھی اس کا ساتھ دینے پر مجبور ہو گیا، لیکن پیداوار  کی لاگت کم کرنے کے لئے اسے ہر طرح سے جکڑ دیا گیا۔

عارضی جاب، پارٹ تائم جاب اور کنٹریکٹ وغیرہ پر کام ہونے لگا۔ جس سے لوگوں کی آمدنی اور قوتِ خرید میں کمی  ہونے لگی۔
 تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، ٹیکنالوجی میں تبدیلی، آٹومیشن، ڈؤن سائزنگ، مرجر (انظمام) سستی مزدوری کی تلاش میں دوسرے ملکوں  میں کام کرانے (آوٹ سورسنگ)  کی حکمتِ عملی کی وجہ  سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔
پیداوار بڑھاتو لیں لیکن کھپت یعنی مارکیٹ لوگوں کی قوتِ خرید سے وابسطہ ہے اور اس کی بہرحال ایک حد ہے۔

لوگوں کی  قوتِ خرید بڑھانے کے لئے کریڈٹ کارڈ کا اجراء کیا گیا۔ جو نقد خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے کریڈٹ کے نام پر لوگوں کو ایڈوانس میں مال بیچا گیا۔ لیکن بہرحا ل  اس کی بھی ایک حد ہے۔  پروڈکشن  کی زیادتی کساد بازرای (رسیشن) کی شکل میں ظاہر ہو تی چلی آئی ہے۔
کینیسن ماڈل
جان مینارڈکینسنKeynesian ایک برطانوی ماہرِ اقتصادیات تھا(1941-1883)۔

  اس کا اقتصادی فلسفہ 1930 کے گریٹ ڈپریشن کے وقت استعمال ہوا۔ اس کا کہناہے کہ حکومت کو بے روزگاری سے لڑنے کے لئے پالیسی بنانی چاہئے اور اس میں اہم کردار ادا کرنا چاہئیے اور لوگوں کی آمدنی برقرار رکھنی چاہئے۔
کینیشن کے مطابق بے روزگاری زیادہ پیداوار کا نتیجہ ہے۔ پچھلی پیداوار ظہور میں آ چکی ہے اور وہ فروخت نہیں ہو گی۔
 خریدار کے پاس اب خریداری کی سکت نہیں کیونکہ وہ بے روزگار ہو چکا ہے۔

کینیشن کا خیال تھا کہ مانگ (ڈیمانڈ) کی سطح اس طرح برقرا رکھی جائے کہ مکمل روزگار کی صورت پیدا ہو۔
کنیشن کا  خیال تھا کہ بے روزگاری کی وجہ سے بچت کی سطح کم ہو جاتی ہے کیونکہ عام آدمی اپنی بچتوں کو کیش کر کے استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بچت نہ ہونے کی صورت میں کوئی سرمایہ دار ی نہیں ہوتی۔بغیر سرمایہ داری کے کوئی روزگار نہیں ہوتا۔

بغیر روزگار کے کوئی اخراجات نہیں کرے گا۔ بغیر خرچ کے زیادہ پیداوار کی خریداری نہیں ہو گی
کینسن کا فلسفہ آمدنی کی دوبارہ تقسیم پر تھا۔  اس کا کہنا تھا لوگوں کی قوتِ خرید بڑھانے کے لئے حکومت کو انکم سیکیوریٹی پروگرام  پر زیادہ زور دینا  چاہئے، اور ان پروگرام کے تحت  لوگوں کو نقد رقوم کی تقسیم کرنی چاہئے۔ اس رقم سے لوگ  سامان خریدیں گے، خدمات پر خرچ کریں گے اور اس طرح  معیشت کا پہیہ رواں رہے گا۔


 سوشل ویلفیئر سسٹم  اور سیاسی فلسفہ
             کنزرویٹیویعنی  دائیں بازو  کی سوچ ہے کہ سماجی پروگراموں کی بہتات مارکیٹ کی حائل ہوتی  ہے اور دولت کی پیداوار میں رکاوٹ  پیدا کرتی ہے۔سماجی پروگرا م عموماً  فیاضانہ ہوتے ہیں  اور عوامی ٹیکس سے جمع کی ہوئی رقم پر بوجھ بن جاتے ہیں، اس لئے سماجی اور فلاحی پروگرام کم سے کم ہونے چاہئیں۔


حکومت کی طرف سے سماجی اعانت صرف حقیقی ضرورت مندوں کو دینی چاہئے اور کم سے کم عرصے کے لئے دینی چاہئے
لوگوں کو تن آسان بنانے سے پر ہیز کرنا چاہئے اور ہر ایک کو کام کرنے کے لئے مجبور کرنا چاہئے۔
دائیں بازو والے اعانت کی سطح کم سے کم رکھتے ہیں تاکہ لوگ نوکری ڈھونڈنے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں۔ان کا فلسفہ ہے کہ ویلفیر حاصل کرنے والے ویلفئر پر رہتے رہیں گے جب تک انہیں کام کرنے پر مجبور نہیں کر دیا جائے۔


 سوشل ڈیموکریٹ  کے فلسفہ  کے حساب سے  سماجی عدم مساوات انسانی قابلیت کے زیاں اور وسائل کی ناہموار تقسیم کا باعث بنتی ہے۔ ایک غیر مساوی  سماج میں میں ذات پات، رنگ و نسل اور جنس، افلاس اور  غربت جیسے مسائیل جنم لیتے ہیں، جب کہ سماجی انصاف قانونِ فطرت ہے۔
 لوگوں کی آمدنی کا تحفظ ہونا چاہئے۔ان کے خیال میں حکومتی وسائیل کو کمیونٹی کی فلاح بہبود اور باہمی تعاون کے لئے استعمال کرنا چاہئے، تاکہ سوسائٹی میں مساوات، سماجی انصاف اور جمہوریت کو فروغ دیا جا سکے۔


سوشل ڈیمو کریٹس، کنزرویٹیو  کے اس نظریہ کی مخالفت کرتے ہیں کہ غریبی انسان کی اپنی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ سوشل ڈیمو کریٹس عمومی طور سے ایک ایسی حکومت کے حامی ہیں جو سماجی، اقتصادی اور دیگر معاملات میں ایک نمایاں کردار  انجام دے تاکہ مزدوروں، کارکنوں، صارفین اور چھوٹے کاروبار کا تحفظ ہو
سینٹر یعنی  لبرل سوچ۔ سینٹر اور  بائیں بازو  والے اعانت کی سطح بلند رکھتے ہیں  تاکہ غربت سے بچا جائے اور غریبی کا مقابلہ کیا جاسکے۔

وہ مالی اعانت کے سلسلے میں ایک  بہت بڑے گروپ کی ضروریات کو نظر میں رکھتے ہیں مثلاً سنگل مدر، سینئرز، ورکنگ پوور، ٹیں ایجرز، طلباء وغیرہ
بائیں بازو کا یہ بھی خیال ہے کہ عام طور سے ویلفیر حاصل کرنے والوں کو زبردستی ویلفیر سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ اس کے مقابلے میں ویلفیر والوں کو اس  سے آزادی دلانے میں لوگوں کی مدد کرنی چاہئے۔
کیا پاکستان میں فلاح و بہبود کی پالیسی موجود ہیں؟  اگر ہیں تو ان  میں بہتری کی کیا گنجائش موجود ہے؟ ہم اگلے مضمون میں ان  پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ انشااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :