ٹورنٹو کا حاجی۔حج کو روانگی ۔ قسط ۔ 3

جمعہ 15 اکتوبر 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

ہماری فلائٹ زیورخ اور ریاض سے ہوتی ہوئی جدہ جانی تھی۔ٹورنٹو سے جہاز اڑنے تک معمہ حل نہ ہو سکا کہ احرام کہاں سے باندھنا ہے۔زیورخ ائیرپورٹ سے یا ریاض سے۔ کچھ کا خیال تھا کے ریاض پر جب جہاز رکے گا تو اس وقت اتر کر احرام باندھ لیں گے، کچھ کا خیال تھا کہ ہمیں احرام زیورخ ائیرپورٹ سے ہی باندھ لینا چاہئے۔ ہم اس چکر میں نہیں پڑے کہ کہاں سے احرام باندھا جائے، ہم نے سارا معاملہ اپنے کوارڈینیٹرمسٹر ماروا پر چھوڑا ہوا تھا کہ وہی رہبر ہیں، جہاں سے وہ کہیں گے ہم وہاں سے احرام باندھ لیں گے۔


جہاز زیورخ ائیرپورٹ پر رکا ہم سب اترے توکوارڈینیٹر نے کہا کہ ٹرانزٹ لاؤنج میں ایک خالی گوشہ دیکھ کر سب وہاں بیٹھ جائیں تاکہ آگے کی ہدایات دی جا سکیں۔ ہم سب نے ایسا ہی کیا۔

(جاری ہے)

یہاں سے ہماری فلائٹ تقریباً 5 گھنٹے بعد تھی۔ ہمیں یہ بتایا گہ کہ ریاض پر جہاز رکے گا تو لیکن ہم لوگ ائر پورٹ پر اتر نہیں سکیں گے۔ جو لوگ ریاض پر احرام باندھنا چاہیں ان کی مرضی لیکن ظاہر ہے کہ وضو وغیرہ سب جہاز کے اندر ہی کرنا پڑے گا۔

اس لئے بہتر یہ ہے احرام یہاں سے ہی باندھ لیا جائے۔اسکے بعد ہمارے کوارڈینیٹر صاحب نے وہیں پر احرام باندھنے کا عملی مظاہرہ کیا اور اس سے متعلق کچھ گر کی باتیں بھی بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر احرام صحیح طریقے سے نہ باندھا گیا تو چلنے میں دشواری ہو سکتی ہے، لمبے قدم نہیں اٹھائے جا سکتے وغیرہ وغیرہ۔
اب زیورخ پر ہم ٹرانزٹ میں تھے اور وہاں حاجیوں کے لئے کوئی الگ سے اہتمام تو تھا نہیں، ساری انٹرنیشنل خلقت آ جارہی تھی، احرام والے تو بالکل جدا مخلوق نظر آتے، شائد یہ وجہ تھی کہ اگلے تین گھنٹوں میں کوئی بھی "با احرام' شخص نظر نہیں۔

غالباً سب ایک دوسرے کا انتظار کر رہے تھے۔ اسکے بعد ہمارے ایک باریش مگر بہت زندہ دل ساتھی احرام میں آتے دکھائی دئے۔ وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر سیدھے اپنے بیگ کی طرف آئے اور جاء نماز نکال کر نفل کے لئے کھڑے ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی اور لوگوں نے بھی ہمت پکڑی۔ اگلے ادھے گھنٹے میں کئی لوگ احرام میں آ چکے تھے، میں بھی اپنا احرام سنبھال کر واش روم چلا۔

اب ایک انٹر نیشنل ائرپورٹ پر وضو کرنا، پاؤں دھونا اور چھوٹے سے واش روم میں احرام باندھا بھی ایک بڑا چیلنج تھا لیکن جیسے تیسے یہ مرحلہ بھی حل ہوا اور باہر آکر ہم نے نفل پڑھے اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ خیرخیریت سے تمام مراحل طے کرائے۔
فلائٹ زیورخ سے اڑ کر ریاض کی طرف محو پرواز تھی۔ ا سے ریاض میں رکنا تھا لیکن مسافروں کو اترنا نہیں تھا۔

کچھ وقفے کے بعد اسے جدہ کے لئے روانہ ہو جانا تھا۔ ابھی ریاض ہی بہت دور تھا اسلئے ایر ہوسٹس نے مشروبات تقسیم کرنے شروع کر دئے۔ میں نے بھی یہ سوچ کر کافی لے لی کہ جدہ پر 4 سے 8 گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ میں سیٹ کے سامنے ٹرے کھول کر کافی رکھ ہی رہاتھا کہ ذرا سی بد احتیاطی سے کافی کا کپ الٹ گیا۔ کافی کو گرنے سے بچاتے بچاتے تمام کافی،ٹرے کے کناروں سے ہوتی ہوئی احرام کو ہر طرف سے اچھی طرح بھگو گئی۔

کافی کا گہرا رنگ اور سفید احرام دھبا چھٹائے نہ چھٹے۔بڑے بڑے دھبے ہر طرف اس طرح بن گئے تھے کہ دیکھنے والے اسے کچھ بھی معنیٰ پہنا سکتے تھے اور غالباً پہنا رہے ہونگے
جدہ اترنے کے بعد ان لوگوں نے ہمیں حاجیوں کے ٹرانزٹ لاؤنج میں بٹھا دیا۔ میں۔ نے سے سب سے پہلے واش روم کا رخ کیا تاکہ احرام کا کچھ کیا جا سکے۔ واش روم کا وہی حال تھا جو کہ اس حجوم کے ساتھ ہونا چاہئے تھا۔

واش روم کے اندر ٹخنوں تک پانی تھا، اب کر لیں آپ اپنے احرام کا بندوبست پانی سے دھونے کے بعد بھی دھبوں کی آب و تاب میں کوئی فرق نہیں، بلکہ لگتا تھا کہ اور نمایاں ہو گئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوا کہ احرام کو دوسری طرح سے باندھنے سے دھبے ذرا چھپ گئے۔
مکہ میں قیام
جدہ ائیرپورٹ پر کسٹم اور امیگریشن اندازے سے بہت پہلے ہو گیا۔

اور ہم لوگ سامان کے ساتھ بس کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ یہاں سے مکہ تک کا سفر اندازاً دو گھنٹے کا تھا۔ لیکن یہ سب ا سوقت تھا جب بس آجائے اور ہم اس میں سوار ہو جائیں، اور راستہ میں بھی کوئی مسئلہ نہ ہو۔ بہر حال بس آئی اور ہم مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ اندازہ تھا کہ اگر حالات سازگار رہے تو انشاللہ فجر کی نماز حرم شریف میں پڑھیں گے۔ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے چیک پوسٹ پر بس روکی گئی۔

ایک نوجوان اندر آیا اور لوگوں کی گنتی کر کے چلا گیا، تھوڑی دیر کے بعد ایک اور آیا اور دوبارہ گنتی کر کے چلا گیا۔ ا سکے بعد ہمار ے ڈرائیو صاحب بس سے اتر ے،ا س لڑکے سے بات کی، پھر ہاتھ لہرائے اور گفتگو میں کچھ گرمی آنے لگی، وہ لڑکا پیر پٹک کر دوسری طرف چلا گیا۔ چونکہ سار ی گفتگو عربی میں تھی اسلئے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور لڑائی کس بات پر ہے؟ ایک صاحب نے کہا کہ یہ ایک عام اندازِ گفتگو ہے، آپ لوگ زیادہ پریشان نہ ہوں۔

بہرحال یہ سلسلہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ خدا خدا کر کے مسئلہ حل ہوا۔ یہاں ہم سب لوگوں کو سرکار کی طرف سے ہاتھ میں پہننے کے لئے ایک کڑا سا دیا گیا۔ یہ شناختی کارڈ تھا جو ہم لوگوں کو ہر وقت ساتھ رکھنا تھا کیونکہ ہمارے پاسپورٹ تو حج آپریٹر کے پاس تھے
بس چلی تو اندازہ تھا کہ زیادہ وقت نہیں لگے اور ہم لوگ فجر کی نماز انشااللہ حرم شریف میں
پڑھیں گے۔

ہم لوگ فجر سے پہلے ہی مکہ پہنچ تو گئے۔ لیکن بس جہاں سے جائے راستہ بند۔
معلوم یہ ہوا کی فجر بلکہ تمام نمازوں سے پہلے حرم شریف کے آس پاس ٹریفک روک دیا جاتا ہے تاکہ نمازیوں کو تکلیف نہ ہو۔ بعد میں احساس ہوا کہ ٹریفک ر وکنا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ لاکھوں لوگ اس زمانہ میں حج کے لئے آرہے ہوتے ہیں اور سب کے سب ایک وقت میں حرم شرف تک نہیں پہنچ پاتے ا س لئے نماز کے وقت فٹ پاتھ اور سڑک پر ہی صفیں بندھ جاتی ہیں۔


جب حرم شریف تک پہنچنے کی تمام امیدیں ختم ہو گئیں تو بس ایک نزدیکی مسجد پر روک لی گئی تاکہ نمازَ فجر ادا کی جا سکے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم پیدل ہی حرم شریف چلے جائیں لیکن ہمارے گروپ لیڈر نے کہا کہ اس طرح سب تتر بتر ہو جائیں گے اور سب سے رابطہ رکھنا ایک مسئلہ ہو گا۔ بات بہت معقول تھی، ا سلئے اس پر کسی نے بھی اصرار نہیں کیا۔
نماز سے فارغ ہو کر ہم لوگ دوبارہ بس میں بیٹھے اس دفعہ منزل ہوٹل تھا جہاں ہم لوگوں کے ٹھیرنے کا بندوبست تھا۔

ہمارے لئے ہدایات یہ تھیں کہ ہوٹل پہنچ کرناشتے کے لئے۔ سیدھے ڈاینئگ ہال کا رخ کریں۔ ناشتے سے فارغ ہو کر اپنے کمرہ کے نمبر کا پتہ کریں۔ سامان شناخت کر یں اور اپنے سامان کو پورٹر سے کہہ کر کمرے میں پہنچوا لیں۔ ظہر کی نمازکے لئے جلد سے جلد نہا دھو کر حرم کا رخ کریں۔ کیونکہ رش کی وجہ سے اندر جگہ ملنی مشکل ہوتی ہے۔ ظہر پڑھ کرآرام کر لیں۔

عصر اور مغرب کے بیچ میں پہلے عمرہ کا طواف اور پھر سعی کر لیں۔ ہوٹل کے اندر ہی فرسٹ فلور پر مسجد بھی ہے۔ عصر کے وقت سارا گروپ وہیں جمع ہو جائے تاکہ سب ایک گروپ کی صورت میں طواف کے لئے جائیں۔ پروگرام بہت معقول تھا۔ لوگ کافی تھکے ہوئے تھے، ا سلئے جمعہ کے بعدتھوڑا سا آرام اور عصر کے بعد طواف کا آئڈیا بہت مناسب تھا۔
بس الشہداء ہوٹل پر رکی تو ہمارے گروپ لیڈر نے کہا کہ آپ لوگ سامان کی فکر نہ کریں سیدھے ڈائننگ روم کا رخ کریں۔

اپنے آئی ڈی کارڈ دکھا کر آپ اندر جا کر ناشتہ کر سکتے ہیں۔ واپسی پر اپنا سامان لیں اور روم نمبر پتہ کر لیں پھر آپ عصر تک ہماری طرف سے آزاد ہیں
ڈائیگ روم میں پہنچے تو زبردست بوفے کا انتظام تھا۔ درجنوں قسم کا ناشتہ کا سامان تھا، ڈبل روٹی، کیک، بسکٹ، جام جیلی، دہی، کارن فلیکس، فروٹ ، جوس، چائے اور کافی وغیرہ۔ وہیں پر تازہ آملیٹ بھی بنائے جا ئے رہے تھے۔

ایک منٹ کے لئے یہ محسوس ہوا کہ ہم حج پر نہیں بلکہ کسی تفریحی دورے پر ہیں۔ حج کا تقدس مجروح سا ہوتا دکھائی۔ احرام میں ملبوس ہوتے ہوئے اس طرح کے لوازمات کچھ مناسب نہیں لگ رہے تھے، بلکہ ایک طرح کا احساسِ جرم ہو رہا تھا۔ بہرحال اب حاضر میں حجت کیا۔ اپنے آس پاس دیکھا، سب ہی لوگوں کو ناشتے کے کیو میں لگا پایا اللہ کا نام لے کر ہم بھی اسی کیو میں کھڑے ہوگئے، اور ڈشوں کا جائزہ لینے لگے۔

اب یہاں تو سب کچھ حلا ل ہو گا کینیڈا جیسا معاملہ تو ہے نہیں ہے ہر کھانے کی چیز کی پہلے جانچ پڑتال ہوتی ہے۔
ناشتے کے دوران ہی ہم نے اپنے ایک معمرساتھی جو پہلے بھی کئی حج کر چکے تھے، ایک دوسرے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ جو کچھ مل رہا ہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور کھاؤ۔ لیکن اس سے اپنا دل نہ لگاؤ اور کسی صورت بھی تمہاری توجہ اپنے مقصد سے نہیں ہٹنی چاہئے۔

ا س وقت اچھا کھانا مل رہا ہے، کھاؤ لیکن دوسرے وقت دال روٹی ملے تو اسی صبر شکر سے کھاؤ جس طرح اب کھا رہے ہو۔ ان کی یہ بات دل کو بہت لگی اور احساسِ جرم کچھ کم ہونے لگا جو اس افراط کو دیکھ کر ہو رہاتھا۔
ناشتے کے بعد سامان اور کمرے کی فکر ہوئی۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ ناشتے کے بعد ساتویں منزل کے استقبالیہ کمرے میں آجائیں۔ وہاں سے مزید ہدایت ملیں گی۔


یہاں مرد اور عورتوں کے لئے الگ الگ کمروں کا انتظام تھا اور ایک ایک کمرے میں چار چار لوگوں کو ٹھیرانے کا بندوبست تھا۔میں جب کمرہ میں سامان لے کر پہنچا تو کمرہ خالی تھا۔ میں نے ایک کنارے والے والے بیڈپر سامان رکھ دیا اور ہٹا کر اس طرح سوٹ کیس رکھ دیا کے کسی کو آنے جانے میں تکلیف نہ ہو۔تھوڑی دیر میں دیگر افراد بھی آگئے۔ ان میں سے دو توپاکستانی تھے اور ایک صاحب کا تعلق گیانا سے تھا لیکن وہ بھی بہت اچھی اردو بولتے تھے۔


پہلا عمرہ
عصر کے وقت  ہوٹل کی مسجد میں سب لوگ جمع ہوئے اور پھر حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ گو کہ ابھی حج میں 5 دن باقی تھے، لیکن  ہر طرف زبردست حجوم تھا۔ جب میں پہلے دو دفعہ عمرے کے لئے آیا تھا تو اتنا زبردست کبھی نہیں دیکھا تھا، ظاہر کہ یہ حج کا زمانہ تھا اور ا س بار 40 لاکھ سے زیادہ حاجی متوقع تھے۔
پچھلی دفعہ کے تجربہ کو  سامنے رکھتے ہوئے میں نے بیگم سے یہ طے کر لیا تھا کہ اگر  طواف کے دوران بچھڑ جائیں تو سبز بتی جہاں سے طواف شروع کیا جاتا ہے، وہاں  آ جائیں۔

پچھلی دفعہ یہ ٹیکنیک کامیاب رہی تھی۔
حرم شریف میں اپنے گروپ لیڈر کی قیادت میں طواف شروع ہو ا، لیکن لگ رہا تھا کہ لمحہ  بہ لمحہ حجوم بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ مغرب کا وقت قریب آتا جا تھا اور نمازیوں نے صفیں  بنانی شروع کر دی تھیں اور اس مناسبت سے طواف کے لئے جگہ کم سے کم ہوتی جارہی تھی۔ پانچواں چکر شروع ہوا، تو مغرب کا وقت بہت قریب آچکا تھا۔

ہمارا خیال  تھاکہ پانچواں چکر ختم کر کے وہیں کہیں مغرب کی نما زکے لئے بیٹھ جائیں گے اور  مغرب کے بعد دوبارہ طواف شروع کر دیں گے۔ ابھی تک گروپ کے سب لوگ کسی نہ کسی طرح ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ لیکن  اپنا پانچواں چکر شروع کرتے ہی جیسے ہی ہم اس جگہ پہنچے، جہاں سے لوگ صفا والے علاقے کی طرف جاتے ہیں وہاں ایک زبردست حجوم سے واسطہ پڑ گیا۔  اس جگہ تین طرح کے لوگ تھے ایک ہماری طرح جو طواف کر رہے تھے، دوسرے وہ جو طواف ختم کر کے صفا کی طرف جارہے تھے، اورتیسرے وہ لوگ جو صفا کی طرف سے آرہے تھے اور حرم شریف کے صحن میں نماز مغرب کے لئے صف بنانا چاہ رہے تھے۔

اس کشمکش میں  معاملہ الجھتا چلا گیا۔
اب صورتِ حال کچھ اس طرح کی ہو گئی تھی کہ ہر شخص زور لگا رہا تھا اور کو شش کر رہا تھا کہ کسی طرح حجوم سے نکل جائے کیونکہ کچلے جانے کے امکانات بہت روشن ہو گئے تھے۔ اس افرا تفری میں ہمارے گروپ لیڈر کہا ں گئے،  بیگم کہاں چلی گئیں کچھ پتہ نہیں؟ اسی اثنا میں مغرب کی اذان شروع ہو گئی، لوگ صفیں بنانے کے چکر میں پڑ گئے۔

ہرطرف رش ہی رش تھا، ہمیں قدم جمانے کی جگہ کون دیتا؟ نماز شروع ہو گئی، میں کسی نہ کسی طرح دو صفوں کی بیچ میں بمشکل اس طرح کھڑا ہو پایا تھا کہ کم ازکم چار لوگوں کی نماز میں خلل پڑ رہا تھا اور انہیں سجدے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ نماز ختم ہوتے ہی  میں نے ان تمام حضرات سے دست بستہ تکلیف دہی کی معافی مانگی۔ سب نے خوش دلی سے معذرت قبول کی۔ ہر ایک کو صورت حال کا بخوبی احساس تھا۔

لوگوں کی کشادہ دلی اور ہمدردی کے جذبے سے دلی مسرت ہوئی اور یہی حج کی صحیح سپرٹ بھی ہے۔ میں نے خود کو بھی ا س بات کا احساس دلایا کہ مجھے بھی یہی سپرٹ دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم کرنی ہے، اور بھائی چارہ کی فضا قائم رکھنی ہے۔ نماز ختم ہونے کے بعد میں  تھوڑی دیر اپنی جگہ ساکت رہا اور انتظار کرتا رہا ہے کہ ذرا ہلنے جلنے کی گنجائش بن جائے، اور کچھ دیر کے بعد ایسا ہی ہوا۔


بعد کے تجربوں سے بھی یہ بات سامنے آئی کہ یوں تو ماشااللہ حرم شریف میں ہر وقت ہی رش رہتا ہے اور لوگ ہمہ وقت طواف میں مصروف  رہتے ہیں اور خاص طور سے عصر اور مغرب کے درمیان صحن میں  سب سے زیادہ حجوم ہوتاہے، اسلئے اگر بہت ضروری نہ ہو تو اس وقت طواف نہ کرے اور اگر کرنا ہی ہے تو پہلی منزل یا دوسری منزل سے طواف کرے۔ پہل منزل کے لئے ایک راستہ باہر سے ہے۔

یہ ایک طرح کا ریمپ ہے جو سیدھا پہلی منزل پر لے آتا ہے۔  یہاں سے طواف کا دائرہ تو لمبا ہو جاتا ہے لیکن طواف کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ لیکن یہاں طواف کرتے وقت آپ کوا س بات کا خصوصی خیال رکھنا ہوگا کہ یہاں  وہیل چئیر والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ وہیل چئیر زیادہ تر کرایہ کی ہوتی ہیں اور ان کو چلانے والے عموماً کم عمرمقامی لڑکے ہوتے ہیں۔

اور اپنی عمرکی مناسبت سے یہ لڑکے ان وہیل چیرز کو کافی تیز چلاتے  ہیں اور اس بات کا بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں کسی کو ٹکر مار کر زخمی نہ کر دیں۔ ہمارے ایک ساتھی کے ساتھ ہو چکا ہے۔ کسی وہیل چئیر والے نے ان کی بیگم کے پاؤں پر پہیہ گزار دیاتھا۔ یہ تو شکر ہے کہ زیادہ چوٹ نہیں لگی تھی لیکن پھر بھی دو تین روز تکلیف میں مبتلا رہیں۔
ایک تیسرا آپشن یہ ہوتا ہے کہ آپ طواف  دوسری منزل سے کریں۔

یہاں تک پہنچنے کے لئے آپ کو  لفٹ یا ایلیویٹرز استعمال کرنے ہوتے ہیں۔یہ بالکل کھلا علاقہ ہے، اورا س پر کوئی چھت وغیرہ نہیں ہے۔ یہاں بھی طواف کے لئے ذرا لمبا چکر لگانا پڑتا ہے، اور  سورج ڈھلنے کے بعد ہی اسکے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ خاص کر رات کے وقت یہاں کھلی فضاء میں عبادت کا لطف ہی اور ہے۔خیر جب ذرا  رش تھوڑا کم ہو ا تو میں نے سوچا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔

بیگم کو تلاش کروں یاباقی طواف مکمل کروں۔  سبز لائٹ یوں تو زیادہ دور نہین لگ رہی تھی، لیکن ا س  تک پہنچنے میں کافی وقت لگ سکتا تھا، اور یہ صاف نظر آرہا تھا کہ وہاں شرطےکسی کو ٹھیرنے بھی نہیں دے رہے تھے۔
موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اس بات کے امکانات کم ہی تھے کہ ہم ایک دوسرے کو ڈھونڈ پائیں گے، ا سلئے میں نے اسی بات کو ترجیح دی کہ پہلے ارکان پورے کئے جائیں، پھر تو سب کو واپس ہوٹل ہی جانا ہے۔ وہیں  مل جائیں گے۔رش کم تو ہو گیا تھا، لیکن بہرحال رش رش ہوتا ہے۔ میں نے باقی چکر بھی آہستہ آہستہ پورے کر لئے اور پھر سعی کے لئے چلا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :