ٹورنٹو کا حاجی۔ آخری قسط

منگل 26 اکتوبر 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

نو ذی الحج کو  منیٰ سے عرفات کے لئے روانگی تھی۔ہم لوگ فجر پڑھنے کے بعد میدانِ عرفات روانگی کے لئے تیار تھے۔ چونکہ کم سے کم سامان ساتھ لے کر جانے کی ہدایات تھیں، اس لئے میں نے صرف اشد ضرورت کاسمان اپنے یونیورسل بیگ  میں رکھ لیا تھا۔ ایک سلیپنگ بیگ اور چھتری، اگلے دو دن کے لئے یہی رختِ سفر تھا۔ یہ اس بات کی بھی علامت تھا کہ سامانِ حیات کتنا مختصر ہو سکتا ہے (اگر ہم چاہیں)۔

سامان سے تو بے فکری ہو گئی لیکن عرفات کی اہمیت، اس کا دبدبہ اور خوف اپنی جگہ تھا۔ جیسا کہ سب کو پتہ ہے، عرفات کی حاضری حج کا ہم ترین رکن ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر کوئی شخص  زراسی دیر کو بھی میدانِ عرفات میں حاضر ہو گیا تو اس کے حج کاا یک اہم رکن پورا ہو گیا۔ لیکن اگر کوئی شخص حج کے دیگر اراکین احسن طریقے سے پورے کرتا رہا لیکن بدقسمتی سے عرفات کی حاضری سے محروم رہا تو اس کا حج مکمل نہیں ہوا۔

(جاری ہے)


گو کا اس بار بھی بسیں حسبِ معمول تاخیر سے آئیں لیکن اس دفعہ لوگوں نے ہمیشہ کی طرح ان پر دھاوا نہیں بولا، شائید اب وہ اس کے عادی ہو گئے تھے یا پھر عرفات کی سعادت تھی۔
میدان عرفات ایک چٹیل میدان تھا ہمیں جہاں بسوں نے اتارا  وہاں سے  ذرا فاصلے پر جبلِ رحمت صاف دکھائی دے رہا تھا۔میدانِ عرفات میں صرف دھوپ اور دھول مٹی تھی۔ زائرین کے لئے یہاں  بھی خیمہ لگائے گئےتھے۔

خیمہ کیا آپ انہیں آپ انہیں کھلا شامیانہ کہہ سکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کئی شامیانوں کو ملا کربڑے شامیانہ بنا دئے گئے تھے جن میں  قناتیں نہیں تھیں۔ مردانہ اور زنانہ شامیانے الگ الگ تھے۔
 اگرمیدانِ عرفات میں کہیں دھوپ سے ذرا سی امان تھی تو انہیں شامیانوں میں تھی۔ لیکن شامیانوں میں بھی جہاں جہاں جوڑ تھے وہا ں سے  حاجیوں کے سروں پرزبردست دھوپ آ رہی تھی۔

ریتیلی زمین پر دریاں بچھی تھیں۔ میں نے  اسی دری پر اپنا سلیپنگ بیگ کھول کر دوہرا کر کے بچھا لیا تاکہ کم سے کم جگہ گھیرے۔ جوں جوں سورج کا رخ بدل رہا تھا، شامیانہ میں در آنے والی دھوپ کا رخ بھی بدل رہا تھا۔ وہ لوگ جو پہلے دھوپ کی تمازت سے بچے ہوئے تھے، اب دھوپ کا سامنا کر رہے تھے۔ جیسے جیسے سورج چڑھنا شروع ہوا دھوپ کی تمازت بڑھنے لگی۔

میدانِ عرفات کے متعلق جو کچھ پڑھا تھا اور سنا تھا وہ حقیقی انداز میں سامنے آنے لگا۔زائرین کا ایک بڑی تعداد دھوپ، گرمی، دھول اورمٹی سے بچنے کی جدو جہد میں مصروف تھی۔ لیکن ان سختیوں کے باوجود مضبوط ایمان والے اپنے نوافل اور تسبیحوں میں مصروف تھے۔رہے نام اللہ کا۔ ان با ایمان لوگوں کو دیکھ کر رشک آتا تھا اور حوصلہ بڑھتا تھا۔
گو کہ ہمیں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا جبلِ رحمت پر جانا اور اس پر چڑھنا حج کا رکن نہیں ہے اور نہ ہی اس پر چڑھنے کا کوئی ایکسٹرا ثواب ہے لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ  پہاڑی تک جاناچاہ رہے تھے کہ ان میں سے زیادہ تر کا مقصد اس تاریخی مقام کو قریب سے دیکھنا تھا۔

وہاں تک جانے کے لئے ایک پکی سڑک بنی  ہوئی تھی جس پرزائرین کاایک سیل رواں محو سفر تھا۔ میرے حساب سے یک طرفہ  پیدل سفر تقریباً ّ آدھے گھنٹے کا تھا۔ جبل رحمت پر موجود زائرین اپنے احرام کی وجہ سے دور  سے پہچانے جاتے تھے۔
 منیٰ کی طرح یہاں بھی کوئی مرکزی عبات گاہ نہیں ہے۔گو کہ حضرت ابراہیم کی بنائی ہوئی مسجدِ نمریٰ یہاں ہے لیکن اسے بھی مرکزی عبادت گاہ کا درجہ حاصل نہیں ہے جہاں جا کر نماز پڑھنا لازم ہو۔

بلکہ اس مسجد کا ایک حصہ عرفات کے حددود کے باہر سمجھا جاتا ہے۔
ہمیں یہاں ظہر اور عصر کی نماز ملا کر با جماعت پڑھائی گئی اور اس کے بعد لنچ باکس تقسیم کر دئے گئے۔حسبِ معمول پانی کی بوتلوں اور پھلوں کی افراط تھی اور آج ان کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ تھی۔گرمی بڑھتی جا رہی تھی یہاں تک کہ ہمارے ایک ساتھی  تقریباً بے ہوش چلے تھے۔جیسا میں نے پہلے لکھا تھا، ان کی طبیعت شروع سے ہی خراب تھی۔

وہ  آکسیجن کا سلینڈر اپنے ساتھ لائے تھے اور دن کا بیشتر وقت وہ آکسیجن ماسک لگائے رہتے تھے۔ ہمیں ان کی ہمت دیکھ کر رشک آتا تھا اور دل سے دعا نکلتی تھی کہ اللہ خیر خیریت سے ان کا حج مکمل کرائے۔اس وقت کی ان کی طبیعت لمحہ بہ لمحہ بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ صاف  لگ رہا تھا کہ یہاں کی حدت اور گرمی اپنا اثر دکھا رہی ہے۔  انکی خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے ا یمبولینس بلائی گئی جو انہیں لے کر  ایمرجنسی ہسپتال روانہ ہو گئی۔


روایات اور ہماری تعلیمات کے مطابق  عرفات کے میدان میں صدقِ دل سے مانگی ہوئی تمام دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ اعقاد ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے۔میں نے چلنے سے  پہلے دعاؤں کی ایک  مکمل لسٹ بنا لی تھی، وہ تمام دعائیں جو مجھے اپنے لئے اور اپنے گھرانے کے لئے خدا کے حضور پیش کرنی  تھیں اور وہ دعائیں بھی جو دوست احباب نے چلتے وقت ہمیں کہیں تھیں۔

اللہ کے کرم سے یہ دعائیں سولہ صفحات پر  مشعمل تھیں۔ سوالی کے پاس اور ہے ہی کی سوائے اپنے رب سے گزارش کرنے کے اور عرضیاں پیش کرنے کے۔ یہ ساراسفر تو تھا اس بات کی خاطر۔باقی تو سب بہلاوا تھا اپنے لئے اور دوسروں کے لئے بھی۔
میری قیمت ہے تیرے شہر میں ارزاں ہونا
یوں تو ٖحرم شریف سے لے کر منیٰ تک جہاں بھی موقع ملتا ان دعاؤں کی فہرست نکال کر  عرضیاں گزارے بیٹھ جاتا تھا اور یہ تو پھر میدانِ عرفات تھا۔


شامینہ کے اندر کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں آپ  سکون اور اطمینان کے ساتھ دعائیں مانگ سکیں، اسلئے میں نے سوچاکہ شامیانہ کے باہر قسمت آزمائی جائے۔ باہر کی صورتِ حال
کوئی  دیوار نہ سایہ نہ  شجر کچھ بھی نہیں
کافی دور پرایک اور شامیانہ کی آڑ میں تھوڑاسا  سایہ نظر آیا تو میں نے اسی کو غنیمت جانا اور دعاؤں کی پوٹلی کھول لی، نیت اور قبولیت کا حال تو وہی جانتا ہے۔


مزدلفہ کی رات
عرفات سے غروب، آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لئے روانگی شروع ہو جاتی ہے۔ عرفات میں نمازِ مغرب پڑھنے کا حکم نہیں ہے۔ نماز، مغرب مزدلفہ میں ہی ہو گی۔ اور رات بھی یہیں بسر کرنی ہے۔بسیں آ چکی تھیں، جب ہم مزدلفہ پہنچے تو میدان پورا خالی تھا۔  میدان  کے  کنارے فاصلے  فاصلے سے واش روم کی قطاریں تھی، اور بس باقی کھلا میدان تھا، جہاں  قافلے کے قافلے چلے آرہے تھے۔

بجلی کے کھمبے بھی کافے فاصلے پر تھے۔ اسی میدان سے ہم لوگوں کو جمرات کے لئے کنکریاں بھی جمع کرنی تھیں۔
ہمارے لیڈر نے کہا کہ خواتین وحضرات اس طرح الگ الگ ٹھیریں کہ بیچ میں خالی  جگہ نہ رہے۔ خالی جگہ ہو گی تو  وہاں کوئی اور گروپ آ گیا تو پھر مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لوگوں نے حسب ہدایت اپنے سلیپنگ بیگ اور بچھونے، جس کے پاس جو کچھ تھا بچھانا شروع کر دیا۔

کچھ لوگ واش روم کی طرف چلے کہ نماز کی تیاری کرنی تھی۔  جب لوگ سیٹ  ہو گئے تو مغرب اور عشاء کی نماز ملا کر پڑھی گئی کہ یہی حکم ہے۔ نماز کے بعد کھانے کے ڈبے تقسیم  ہو گئے۔
دیکھتے دیکھتے ہمارے اطراف کی ساری جگہ بھر گئی۔ ہمارے برابر ایک گروپ آ کر ٹھیرنے کی تیاریا ں کر رہا تھا۔ کسی نے کہا جھنڈا پیر کا گروپ ہے، اور دیکھنے سے واقعی  ایسا ہی لگ رہا تھا۔

اس گروپ نے آتے ہی  سب سے پہلے ایک اونچا سا جھنڈا لہرایا۔ یہ  پاکستان کے کسی دیہی علاقے کے لوگ لگ رہے تھے اور کچھ پیری مریدی کا سا سلسلہ تھا۔ جب سارے مریدین سیٹ ہو گئے تو  ان میں بریانی تقسیم کی جانے لگی۔ تازہ بریانی کو خوشبو سے ہمارے ایک ساتھ بے چین  ہونے لگے۔وہ انگریزی طرز کے ناشتے سے اوبھ چکے تھے۔ کہنے لگے  میں بھی اسی گروپ میں جا کر شامل ہو جاتا ہوں۔

کم ازکم بریانی تو کھانے کو ملے گی۔ ایک دوسر ے ساتھی نے کہا کہ ایسی غلطی بھی نہ کرنا۔ پیری مریدی کا سلسلہ ہے سب ایک دوسرے کوپہچانتے ہیں، پکڑے جاؤ گے۔ کہنے لگے کہ اگر پکڑا گیا تو کہہ دونگا  کہ نیا مرید ہوں، ابھی بیعت کے لئے حاظر ہوا ہوں۔
دن بھر کی مشقت سے لوگ کافی تھکے ہوئے تھے۔ خیال یہی تھا کہ تھوڑی دیر کمر سیدھی کر لیں، پھر اٹھ کر نفل وغیرہ پڑھ لیں گے۔

لائٹ تو ہے نہیں اسلئے کچھ  پڑھنے کا تو سوال ہے نہیں۔ دو گھنٹے کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔میں اپنے سامان اور بستر کی پوزیشن کااندازہ ذہن میں رکھتے ہوئے ہوئے واش روم کی طرف روانہ ہوا۔ مجھے اندازہ تھا کہ واپسی کے لئے نشانیاں ضرور رکھنی ہیں ورنہ بھٹک سکتے ہیں۔ وضو کر کے نکلا تو سامنے چائے کا سٹال تھا۔ میں نے اسے نظر انداز کیا۔ میرا خیال تھا کہ کچھ نفل پڑھ لوں پھر آکر چائے لیتا ہوں۔

اپنی  نشانیوں کے طفیل میں آسانی سے واپس  آ گیا۔
کچھ ہی نفل پڑھے تھے  کہ میں نے دیکھا کہ  ذرا فاصلے پر بیگم اور ان کی ایک دوست کبھی ادھر جا رہی ہیں کبھی ادھر جا رہی ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ راستہ بھٹک گئی ہیں۔میں نے دل میں سوچا کہ عجب خواتین ہیں اتنا سا راستہ یاد نہیں رہا۔میں نے اپنی جگہ کھڑے ہو کر ہاتھ ہلائے اشارے کئے اور بمشکل تمام ان کی توجہ مبذل کر ا سکا۔


رات ڈھل رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ اب تھوڑا بریک لیتے ہیں اور چائے پیتے ہیں۔ چائے لے کر پلٹا تو مجھے لگا کچھ مسئلہ ہے۔ شائید میں راستہ بھول رہاہوں۔تھوڑی دیر ادھر ادھر کوشش کرنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ میں اپنا راستہ کھو چکا ہوں۔ شائید یہ اس وقتی غرور کی سزا ہے جو میں نے خواتین کو بھٹکتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا۔ آدھا گھنتا گزرا، ایک گھنٹہ گزر گیا۔

مجھے اس بات کی فکر تھی کہ اگر اس چکر میں فجر ہو گئی، ایک دفعہ واپسی کا اعلان ہو گیا تو  تو پھر تو شائید ہی کچھ ہو سکے۔میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ کوئی سبیل نکال دے۔ میں واپس جا کر اسی چائے والے پاس کھڑا ہو گیا۔ شائید دعا کی قبولیت کا وقت تھا۔  ہمار ے گروپ کے ایک دو لوگ چائے لے کر واپس ہورہے تھے۔ میں خاموشی سے ان کے پیچھے لگ گیا اور یوں میں اپنے گروپ میں واپس ہو سکا۔

مجھے اپنے غرور کی سزا اسی وقت مل گئی۔واپس پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد منیٰ روانگی کا اعلان ہو گیا۔ سامان مختصر تھا، اسلئے  روانگی میں زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔
منیٰ پہنچے تو بس سے اترتے ہوئے ایک صاحب نے کہا "Home sweet home"  واقعی لگ رہا تھا کہ کسی لمبے سفر سے گھر واپس آئے ہیں۔ ہمارا خیال تھا  کہ ہماری غیر موجودگی میں ہر طرف کچھ نہ کچھ صفائی ستھرائی ہو گئی ہو گی، گلیوں میں کیمپوں میں، خیموں کے اندر اورعوامی واش روم پہلے سے بہتر حالت میں ہونگے، لیکن ہمیں یہ دیکھ کر دھچکا سالگا کہ صفائی کی ابترحالت جو چھوڑ کر گئے تھے، اس میں کوئی مثبت  تبدیلی نہیں ہوئی۔

ایک عام خیال یہ تھا کہ شائد صفائی والا عملہ بھی ہم لوگوں کے ساتھ ہی چلا گیا ہو گا، تو صفائی کون کرتا۔
جمرات
شیطانوں کو کنکریا ں مارنا حج کا ایک اہم رکن ہے۔منیٰ واپس آئے تو حج کا تیسرا دن تھا۔ہمیں بتایا گیا کہ تھوڑی دیر میں جمرات کے لے روانا ہونا ہے۔ہم لوگوں نے تینوں شیطانوں کو مارنے کے لئے کنکریا ں پہلے ہی  مزدلفہ  سے جمع کر لی تھیں۔

ہم نے یہی سن رکھا  تھا کہ اس جگہ سب سے زیادہ بھگدڑ ہوتی ہے اور کافی لوگ کچلے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی سنا تھا کہ اب انتظام بہت بہتر ہو گیا ہے۔ لیکن پھر بھی خوف سا تھا کہ انتظام کتنا بہتر ہو گیا ہو گا، بھگدڑ اور کچلے جانے کا احتما ل تو اب بھی ہو گا۔
ہمارا خیمہ منیٰ کے آخری سرے  پر تھا بلکہ وہاں ایک بورڈ بھی لگاتھا کہ منٰی یہاں ختم ہوتا ہے۔

ہمارے گروپ لیڈر کے حساب سے  جمرات تک یک طرفہ پچاس منٹ  پیدل کا راستہ تھا، میرے حساب سے ایک گھنٹہ کا اور آہستہ چلنے والی خواتین اور معمر حضرات کے لئے ڈیڑھ گھنٹے کا۔ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ نارتھ امریکن زائرین کے کیمپ  منیٰ میں سب سے آخر میں تھے جب کہ پاکستان کے زائرین کے کیمپ جمرات سے بہت نزدیک تھے
 ہم لوگ اپنے گروپ لیڈر کی سرکردگی میں جمرات کے لئے نکلے۔

ہمارے گروپ میں تقریباً اسی لوگ تھے۔ لوگوں کو بچھڑنے سے بچانے کے لئے  ایک شخص گروہ کا جھنڈا لے کر آگے چل رہا  تھا اور ایک پیچھے۔ گروپ لیڈر کی طرف سے سخت تاکید تھی کہ تمام لوگ ان دونوں جھنڈوں کے بیچ میں ہی رہیں،ورنہ  بچھڑنے کا قوی امکان ہے۔ ایک ہجوم تھا جو جمرات جا رہا تھا۔ راستے کشادہ تھے لیکن پھر  ہجوم کی وجہ سے تنگ لگ رہے تھے۔  سٹک پر چلتے چلتے دو لمبی سرنگیں بھی آئیں جن سے نکلتے  کے بعد ہم نے  اپنا سفر جاری رکھا۔

ایک گھنٹہ چلنے کے بعد کافی دور پر ایک بہت بڑی بلڈنگ سی نظر آئی جس کی شکل ایک  پل کی طرح تھی، جو ایک نصف قطر میں یہاں سے وہاں تک پھیلا ہو اتھا۔ پتہ یہ چلا کہ ہجوم کو پھیلانے اور تقسیم کرنے کے لئے یہ ریمپ بنائے گئے ہیں تاکہ لوگ دونوں طرف سے  کافی فاصلے
 سے داخل ہوں، ایک کے بعد ایک تینوں شیطانوں کو کنکریاں ماریں اور واپس آنے کے بجائے آگے کے راستے سے باہر نکل جائیں۔

ان انتظامات کی وجہ سے زائرین کا سفر طویل ضرورہو گیا، لیکن  بھگدڑ اور کچلے جانے کے امکانا ت تقریباً صفر ہو گئے ہیں۔ سعودی حکومت نے یہ بہت اہم کام سر انجام دیا ہے۔
جمرات کی  تینوں نشانیوں کو بلند کر دیا گیا ہے اور اس پر چھت ڈال دی گئی ہے۔ اس طرح سے  اس بلڈنگ نے ایک بہت بڑے ہال کی شکل اختیار کر لی ہے۔ہم لوگوں  نے ایک ترتیب سے  تینوں شیطانوں کو کنکریاں ماری اور اسی ترتیب سے باہر نکل گئے۔


جمرات  سے فارغ ہو کر باہر نکلے اور واپسی کا سفر شروع کرنے سے پہلے  یہ طے ہوا کہ جو لوگ  ہجامت بنوانا چاہتے ہیں وہ یہیں رک جائیں اور  حجامت بنوا کر اکھٹے واپس آجائیں۔خواتین اور دیگر افراد جو واپس جانا چاہتے ہیں وہ اپنا واپسی کا سفر جاری رکھیں۔ میں  نے سوچا کہ جتنی جلدی حجامت بنا لی جائے اتنا اچھا ہے حج کا ایک  اہم رکن پورا ہو جائے گا  اور  پھر غسل کرکے کپڑے تبدیل کر لئے جائیں گے۔

اپنے روزمرہ کے کپڑے پہننے کا  بھی  تصور بھی بہت دل خوش کن تھا۔
میں نے بیگم سے حجامت کے لئے اندازہ سے بیس ریال لے لئے(چار سال پہلے عمرہ کے وقت حجامت کا ریٹ پانچ ریال تھا) ۔ہمیں  یہ مشورہ ملا تھا کا حجام سے اصرارکیاجائے کہ نئے بلیڈ سے حجامت کرے۔ کسی صورت میں استعمال  شدہ بلیڈ سے حجامت  نہ بنوائی جائے وغیرہ وغیرہ۔
 منیٰ جانے والا گروپ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا، اور میں  نے ان لوگوں کو ڈھونڈنا شروع کیا جو حجامت کے لئے رک رہے تھے۔

میرا خیال تھا کہ میں فوراً ہی گروپ کے جھنڈے کی مدد سے ان کا سراغ لگا لونگا۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔  بیس منٹ میں اپنے گروپ کی کھوج کرتا رہا لیکن ناکامی کے بعد میں نے سوچا کہ گرمی میں سورج کی تمازت میں اضافہ ہورہا کیوں نہ میں پہلے حجامت سے فارغ ہولوں، ہو سکتا ہے حجاموں کی دکان پر ہی کسی گروپ ممبر سے مڈ بھیڑ ہو جائے۔
یہ سوچ کر میں ادھر روانہ ہو جہاں میرے خیال میں  بال تراشے جا رہے تھے۔

وہاں پہنچا تو  طلبگاروں کا ایک ہجوم تھا اور پھر پتہ یہ چلا کہ یہ ہجوم تو صرف پیسے دے کر پرچی کٹوانے والوں کا ہے، حجامت کی باری تو بعد میں آئے گی۔ حجامت کا ہدیہ کیا ہے ؟ پتہ چلا بیس ریال۔ میں نے سوچا کہ اگر میں نے بیس ریال  حجامت کے دے دئے تو میرے پاس تو پانی کی بوتل تک خریدنے کے پیسے نہیں ہونگے، جب کہ مجھے کیمپ تک پہنچنے میں اور راستہ ڈھونڈنے میں پتہ نہیں کتنا وقت لگ  جائے؟
میں نے اندر جھانکا تو  انداہ ہوا کہ  ہر قسم کے نو سکھئے زائرین پر کھلے عام طبع آزمائی کر رہے تھے۔

یہ سب دیکھ اور سوچ کر میں نے بال ترشوانے کا رادہ ملتوی کر  دیا اور کیمپ کے راستہ کی تلاش میں روانہ ہو گیا۔ گرمی بڑھ رہی تھی میں نے پانی کی ایک بوتل خرید لی اوراگے روانہ ہو گیا۔ ایک دو جگہ میں نے راستہ میں کھڑے پولیس والوں  کو  اپنا بیج دکھا کر راستہ پوچھا لیکن انہوں  نے معذوری ظاہر  کی تو میں اللہ کا نام لے کر آگے چل پڑا۔ ایک جگہ میں تقریباً مایوس ہو کر  بیٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ مجھے ایک  گروپ نظر آیا جس میں کسی نے کینیڈا کا جھنڈا پکڑ رکھا تھا۔

میں  لپک کر ان کے پاس  پہنچا اور پوچھا کہ وہ کہا ں قیام پذیر ہیں۔ پتہ چلاوہ  ہمارے کیمپ کے پاس ہی مقیم ہیں۔ میں نے ان سے استدعا کی کہ میں ان کیساتھ ہی چلا چلوں اگر وہ ا س ہی راستے پر جارہے ہیں۔ وہ کیمپ کی طرف ہی جارہے تھے اور یوں میں واپس اپنے کیمپ میں  پہنچ سکا۔
واپس تو پہنچ گیا لیکن حجامت کا مسئلہ  اپنی جگہ تھا، اور اسکے بغیر نہ غسل کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی احرام سے آزادی حاصل ہو سکتی تھی۔

اتنی دیر میں میں نے دیکھ کہ دو حضرات خود ہی ایک دورسے کی آڑی ترچھی حجامت بنا کر  ہنستے مسکراتے چلے آرہے ہیں۔ اجی ہمیں کون سا  مقابلہ حسن میں شریک ہونا ہے۔ یہ تو فرض ہے جو پورا ہو گیا۔ یہ دونوں سمارٹ حضرات اپنے ساتھ استرے لائے تھے اور اسی سے یہ کار خیر انجام دیا تھا۔ مجھے انہوں نے اطلاع دی کہ جہاں مرکزی واش روم ہیں وہا ں کچھ  لوگ ہدیہ لے کر یہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔

یہ اہم اطلاع ملتے ہی میں  باہر کی طرف لپکا۔ مرکزی واش روم  کے آس پاس  کئی اجنبی صورتیں نظر آئیں جومجھ جیسے آسان شکار  کی تلاش میں تھیں۔ اشاروں  کی زبان سے دونوں پارٹیوں نے معاملات طے کئے اور ہم سر جھکا کر بیٹھ گئے، نیا بلیڈ یا پرانابلیڈ، یہ پوچھنے کا کس کو ہوش تھا۔ فراغ البال ہونے کے بعد ھدیہ پیش کیا، پھرتی سے غسل کیا، شلوار قمیض پہنا اور احرام کو وہاں ایک بڑے ڈبہ میں ڈال دیا جو خصوصی طور سے  اسی مقصد کے لئے رکھا گیا تھا۔

دل کو ایک گونہ سکون حاصل ہوا کے حج کے اہم ارکان پورے ہو گئے۔اللہ جانتا ہے کہ شائید اس میں یہ اطمینان بھی شامل تھا کہ ہم اب آرام سے شلوار قمیض میں گھوم سکتے ہیں۔ رب کا شکرلازم ہے کہ اس نے اپنی رحمتوں سے ہم جیسوں  سے بھی یہ عظیم فرض بہت آرام سے پورا کرایا۔
طواف زیارت  
ہم لوگ  جب جمرات سے  پہلے دن واپس آئے تو لوگوان میں یہ بحث چل رہی تھی کہ طواف زیارت  الگ سے کیا جائے گا یہ الوداعی طواف کے ساتھ ایک ایکسٹرا سعی کے ساتھ قابل قبول ہے۔

یونس صاحب تو جاچکے تھے اور کوارڈینیٹرصاحب کی رائے یہ تھی کہ طواف زیارت، الوداعی طواف کے ساتھ ملا کر کیا جا سکتا ہے لیکن جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہیں وہ چاہیں تو ذاتی طور پر طواف زیارت کے لئے جا سکتے ہیں۔
میں نے  دو تین حضرات سے رائے لی، خود میرا بھی یہ خیال تھا کہ الگ سے طواف زیارت  کرنے میں تھوڑی سی طوالت تو ہو گی اور کچھ خرچہ بھی ہو جائے گا لیکن دل سے یہ خدشہ جاتا رہے گا کہ کوئی رکن ادائیگی سے رہ گیا۔

بیگم سے مشورہ کیا تو ان کی بھی یہی رائے تھی
میں نے شام میں باہر نکل کر ٹرانسپورٹ کا  پتہ کیا تو معلوم یہ ہوا کہ  تھوڑی دور پربس سٹیند ہے اور وہاں سے حرم شریف کے لئے مسلسل بسیں چلتی ہیں کرایہ چالیس ریال کے قریب ہے۔ ہم دوسری صبح فجر کے بعد ناشتہ ا نتظار کئے  بغیر حرم شریف کے لئے نکل گئے۔بس آسانی سے مل گئی، فاصلہ بھی زیادہ نہ تھا  اور ٹریفیک بھی مقابلتاً کم تھا اس لئے ہم جلد ہی حرم شریف کے سامنے کھڑے تھے۔

یوں تو  یہ علاقہ ہمارا دیکھ بھالا تھا  لیکن لگ رہا تھا کہ چار سال میں بہت زیادہ تبدیلیاں آگئی ہیں۔  سب سے پہلے دیسی ناشتہ کیا چائے پی اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے چل پڑے۔سب سے پہلے مسجدِ عایشہ گئے کہ وہاں سے میقات کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ مسجداعائشہ کے لئے ہر وقت سواری مل جاتی ہے۔
وہاں سے احرام باندھا اور واپس حرم شریف طواف زیارت کے لئے  پہنچ گئے۔

حجوم کافی تھا لیکن حج  سے پہلے ہمیں جو تجربہ ہوا اس  کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔
طواف زیارت کی  ادائیگی کے بعد واپسی کا مسئلہ ذرا ٹیڑھا  سا لگ رہاتھا۔ یہ تو پتہ تھا کہ جہاں آتے وقت بس نے  اترا تھا وہ ون وے تھا،اس لئے بسیں کہیں اور سے ہی ملیں گے۔  پتہ کرتے ہوئے جہاں پہنچے وہاں ہر طرح کی سوار ہر جگہ کے لئے دستیاب تھی۔  بسیں بھی تھیں، ٹیکسیاں بھی تھیں، پک اپ بھی تھے، چھوٹے ٹرک بھی تھے غرضیکہ ہر قسم کی سواری میں ہر طرح کی خلقت کو ٹھونسا جا رہا تھا۔

  کچھ کراچی سے بھی بد تر حال لگ رہا تھا۔ بہرحا ل ایک ٹیکسی والے سے بات کی۔  ٹیکسی کیا تھی ایک پرانے وقت کی شیورلیٹ امپالا  ویگن تھی، جس کے پچھلے حصے میں جہاں سامان رکھنے کی جگہ تھی کچھ گھاس پھونس پھیل ہوئی تھی، لگ رہا تھا کہ قربانی کے جانوروں کی باربرداری کے لئے بھی یہ ویگن استعمال ہوتی رہی۔بڑی مشکل سے سمجھا  پائے کہ منیٰ جانا ہے۔

ریٹ وہی تھا چالیس دینار۔  تھوڑی دیر میں جب اور مسافر بھی آ گئے اور سیٹیں بھر گئیں تو ہمارا خیال  تھا کہ ویگن چل پڑے  گی۔ لیکن  ڈرائیور کا "چھوٹا " مستقل آوازیں لگا رہا  تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ ایک چار لوگوں کا گروپ لے آیا  اور اس نے   پچھلے حصے میں گھاس پھونس پر ایک خستہ حال دری بچھ کر انہیں   'آرام' سے بٹھا دیا۔ اس کا ارادہ تو ابھی اور سواریاں بٹھانے کا تھا لیکن پچھلی ٹیکسی والے کی دکانداری خراب ہو رہی تھی اس لئے ا سے اپنی گاڑی بڑھانی پڑی۔
تیسرے روز ہم لوگ  جمرات سے آنے کے بعد  واپس مکہ آگئے، طوافِ الودع کیا اور مکہ کے لئے اس سکون کے ساتھ روانہ  کے اللہ تعالیٰ نے  اپنی کرم  سے حج کے تمام اراکین سہولت سے پورے کرائے، قبول کرنے والا بھی وہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :