تھراپی کیا ہے؟

بدھ 18 اگست 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

لوگ کسی سائکو تھراپسٹ یا مینٹل ہیلتھ کونسلر سے اس وقت رابطہ کرتے ہیں جب وہ کسی ایسی پریشانی سے گزر رہے ہوں جس کا حل ان کی حد ودسے باہر ہو، عدالت یا ان کے ڈاکٹر نے انہیں مشورہ دیا ہو۔ ریسرچ کے مطابق مندرجہ ذیل عوامل کی وجہ سے لوگ ذہنی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں اور تھراپسٹ سے رابطہ کرتے ہیں
۔خراب صحت، حادثہ، عمرر سیدگی
۔

معاشی مسائیل۔ نوکری کو چھوٹ جانایابزنس میں گھاٹا
۔گھریلو پریشانی۔ طلاق، بچوں کے مسائیل
۔کسی قریبی عزیز یا چاہنے والی کی موت
۔قانونی اور دیگر مسائیل کا سامنا وغیرہ
یوں تو تھراپی کا لغوی ترجمہ علاج معالجہ ہے لیکن نفس مضمون کی ضرورت کے پیشِ نظر اس تحریر میں لفظ تھراپی ہی استعمال کیا جائے گا۔
تھراپسٹ ایسے سند یافتہ پیشہ ورکو کہتے ہیں جو لوگوں کی ذہنی، جذباتی،نفسیاتی الجھنوں اور پریشانیوں کاجائزہ لیتا، ان سے نبٹنے کی صلاح دیتا اور حل تجویز کرتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ سب کچھ گفتگو اور بات چیت کر ذریعے ہوتاہے۔ کسی طرح کی دوائیں تجویز کرناتھراپسٹ کے دائرہ اختیار سے میں نہیں آتا۔ دوائین تجویز کرنا  کلینکل تھراپسٹ کا کا م ہے جو بالکل ایک الگ شعبہ ہے
پچھلی د ودہائیوں میں تھیراپی کی حکمتِ عملی میں کئی انقلابی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور اب کلنیکل تھراپی کے ساتھ سوشل تھراپی اور روحانی کونسلنگ کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔

ذہنی پریشانیوں کا علاج سوشل تھراپی کے ذریعے ممکن ہے جب کہ دماغی بیماریوں کاعلاج  کلنیکل ہے جس میں دواؤں کا بھی استعمال ہوتا ہے
انسانوں کی اتنی اقسام ہیں اور وہ اتنے مختلف ماحول میں رہ رہے ہوتے ہیں اور ایسے منفرد چیلینجز کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں کہ کہ کسی ایک حکمتِ عملی کو تمام لوگوں پر آزمایا نہیں جا سکتا۔ اس وقت تھراپی کے شعبے میں ۲۱ سے ۵۱ سے زیادہ کامیاب حکمتِ عملی استعمال کی جا رہی ہیں، ہر ایک کا اپنا  اپنا مقام ہے۔

کون سی حکمتِ عملی کب استعمال کر نی ہے اس کا زیادہ تر انحصار تھراپیسٹ کے اپنے تجربے اور کلائنٹ کے مسئلے کے تناظر میں ہوتا ہے۔ہر تھراپی کی اپنی افادیت ہوتی ہے اور آپ کسی تھراپی کو غلط یا صحیح قرار نہیں دے سکتے۔عام طور سے کوئی بھی تھراپسٹ کلائینٹ کی شخصیت اور مسئلہ کے حساب سے ایک سے زیادہ حکمت عملی استعمال کرتا ہے۔
کسی بھی تھراپسٹ کا پاس کوئی ایسا تیر بہدف نسخہ نہیں ہوتا جس کی مدد سے وہ محدود وقت میں کسی کلائنٹ کی شخصیت کو پوری طرح سمجھ لے اور چٹکی بجاتے ہی اس کے مسائیل حل کر دے۔

یوں بھی  تھیراپیسٹ کا کام کلائنٹ کی شخصیت کو تبدیل کر نا نہیں اسکی شخصیت کو بہتر بنانے میں مدد کرنا ہے۔
تھراپی کا سب سے پہلا ماڈل سگمنڈفرائیڈ کی تحقیق پر مبنی ہے اور اس کا زیادہ زور کلائنٹ کے ما ضی سے جڑے ہوئے واقعات پر ہے۔ اس کے بعد کے تھراپی ماڈل مثلاً رئیلیٹی تھراپی، کلائنٹ سینٹرڈ تھراپی، وجودیت کی تھیوری  وغیرہ ماضی کے واقعات کو توجہ تو دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ موجودہ حالات اور انسان کے سوچنے کے انداز کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں ۔


 زیادہ  تر تھراپسٹ کا خیال ہے کہ ما ضی کے صرف ان واقعات پر توجہ دینی چاہیے جن کا اثر موجودہ حالت پر اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کا یہ بھی مقصد نہیں ہے کہ ماضی پر بالکل ہی توجہ نہ دی جائے۔تاہم یہ احتیاط ضروری ہے کہ ماضی کو کھوجتے ہوئے اتنی دور نہ نکل جائیں کہ کلائنٹ کا حال نظر انداز ہو جائے اور اس کے موجودہ مسا ئیل پس منظر میں چلے جائیں۔


سی بی ٹی کیا ہے؟
سی ٹی بی Cognitive Behaviour Therapy کا مخفف ہے۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس تھراپی کی بنیاد  دو الفاظ
Cognition یعنی سوچ، غورو فکر
Behaviour یعنی روئے پر ہے۔
سی بی ٹی ایک ایسا نفسیاتی طریقہ علاج ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم اپنے، دوسروں اور دنیاکے بارے میں کس طرح سوچتے ہیں اور ان کیلئے کیا رویہ رکھتے ہیں؟سی بی ٹی آپ کو اپنی سوچ اور رویہ تبدیل کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔


 کسی بھی شخص پریشانی کی وجہ اس کا ماضی، اس کی شخصیت کی تشکیل، اس کے سوچنے کا عمل اور اس کے اطراف کے عوامل ہوسکتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ہم پر اطراف کے سماجی عوامل اور ماحول بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے اور ہمارارویہ اس کا عکاس ہوتا ہے، لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے پاس اپنے رویہ کو بدلنے کی بہت زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔

خاص طور سے سی بی ٹی کا زور اس بات پر ہے کہ اگر انسان اپنی سوچ اور برتاؤ بدل لے تو وہ  اپنے مسائیل خود حل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔انسان کی سوچ، جذبات اور ردِ عمل آپس میں اس طرح جڑی ہوئے ہیں بلکہ گتھم گتھا ہیں کہ کسی ایک میں تبدیلی کا اثر دوسرے پربراہ را ست اثر پذیر ہوتا ہے۔تھراپی کے  دیگرماڈل کی طرح سی ٹی بی بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ ہمیں و دوسروں کو موردِ الزام ٹھیرانے کے بجائے اپنی ذمہ داری خودقبول کرنی چاہئے۔


سی بی ٹی ایک نفسیاتی تعلیمی ماڈل بھی ہے جو ہمیں اس بات کی تعلیم بھی دیتا ہے کہ ہمیں کیسے سوچنا چاہئے، سمجھنا چاہئے اور اسے کس طرح استعمال کرنا چاہئے۔البرٹ بونڈرا کی تحقیق کے مطابق سی ٹی بی تھیوری اس بات کی تائید کرتی ہے کہ جذبات اور برتاؤ میں بہت گہرا تعلق موجود ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک میں بھی تبدیل لاتا ہے تو دوسرے میں تبدیلی ناگزیر ہے۔


سی ٹی بی کا مرکزی خیال ہے کہ برتاؤ اچھا ہو یا برا، اسے سماجی ماحول جہاں وہ جنم لے رہا ہو، الگ نہیں کیا جا سکتا۔اس میں سکول، گھرانہ اور یار دوست سب ہی شامل ہیں۔ کسی بھی شخص کا بنیادی نظریاتی سسٹم اس کی شخصیت کی  تباہی کی اصل وجہ ہوتا ہے۔اس کی ذات اور دماغ میں چلتے رہنے والے ڈائیلاگ (سیلف ٹاک)اس کے برتاؤ میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔


ہم اپنی زندگی میں ہر لمحے چھوٹے بڑے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی کے فیصلے ہم ایک لگے بندھے طریقے سے بغیر سوچے سمجھے کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہمارا ذہن تربیت  یافتہ ہے اور اسے پتہ ہے کہ کس صورتِ حال میں کیا کرنا ہے۔ لیکن کچھ فیصلے گھمبیر اور روزمرہ سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ اس میں ہمیں واقعی سوچنا پڑتا ہے۔ ہماری یہ سوچ ہمارے فیصلوں پر اثرا نداز ہوتی ہے۔

  ہماری سوچ کا ا نحصار کئی باتوں پر ہوتا ہے مثلاً ہماری تعلیم وتربیت۔، ہمارے بچپن کے تجربات ہمارے اطراف میں ہونے والے واقعات جوہمارے  ذہن میں جگہ پکڑ چکے ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ
ہم کس طرح سوچتے ہیں، یہ بھی ایک دلچسپ موضوع ہے۔ہماری سوچ زیادہ تر خود کار اور رواں ہوتی ہے۔ ہمارے ذہن میں تواتر سے ایک کے بعد ایک خیال آتا رہتا ہے۔اکثر ہماری سوچ بے ہنگم، بے تریب اور بے سرو پا ہوتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہمارے ذہن میں ایک دن میں ۵۱ ہزار سے لے کر ۰۵ ہزار بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ خیالات گزرتے ہیں۔ ہم زیادہ تر
 ان سوچوں یا خیالات پر نہ تو کوئی سوال کرتے ہی اور نہ ہی ان کو پرکھنے یا ٹسٹ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اس ہی طرح کے بے پرکھے خیالات پر مبنی ہماری یہ سوچ رفتہ رفتہ ایک نقطہ نظر میں تبدیل ہو جاتی ہے ایک ایسا نظریہ جو وقت کے ساتھ اپنی جگہ پختہ ہو جاتاہے اور اس میں تبدیلی کی بہت کم گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔

چونکہ ہم اس پر کبھی کوئی سوال نہیں اٹھاتے تو اس نقطہ نظرکو خود بھی صحیح اور جائز سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ہم سے اتفاق کریں اور ہم اسے بعض اوقات اپنی انا کا مسئلہ بھی بنا لیتے ہیں۔
سی بی ٹی کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ کوئی ہونے والا واقعہ نہیں ہے جو ہمیں متاثرکرتا ہے بلکہ جو بات ہمیں زیادہ متاثر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس واقعہ کو کس طرح دیکھتے ہیں اور موجودہ صورتِ حال میں اس کی کیا تشریح کرتے ہیں۔

مثال کے طور آپ کا کوئی شناسا یا پڑوسی راستے میں آپ کو دیکھے بغیر گزر گیا۔آپ اس واقعہ کی مختلف انداز میں توجیہ کر سکتے ہیں مثلا آپ سوچ سکتے ہیں کہ
۔ پڑوسی نے آپ کو نظراندازکیا ہے۔
۔ وہ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آپ  اس کے مقابلے میں کم حیثیت ہیں
 ۔ وہ آپ کو ایک بورنگ شخصیت سمجھتا ہے
یہ تمام باتیں آپ کے دل میں غصہ پیدا کر سکتی ہے۔

اس کے مقابلے میں ایک صحت مندانہ ردعمل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ سوچیں کہ اس نے آپ کو دیکھا ہی نہیں۔
اس طریقہ علاج میں تھراپسٹ کلائینٹ کے ساتھ۰۱سے۲۱ نشستیں (بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ) کرتا ہے، اسکے موجودہ مسائیل پرتوجہ مرکوزکرتا ہے اور کلائینٹ کو پہلے سے مختلف اور مشبت انداز میں سوچنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
تھراپسٹ اور کلائنٹ کے درمیان ایک خلوص اور یگانگت اور احترام کا رشتہ ہوتا ہے اور ان حدود کا پوری طرح احترام کرنا چاہئے۔

اس کے علاوہ کلائنٹ کی بات خاموشی سے سنی جائے اور کوئی فیصلہ صادر نہ کیا جائے۔ رنگ، نسل، زبان، عمر، صنف اور دیگر وعامل کی بنا پر کلائنٹ سے کوئی تخصیص نہ برتی جائے۔
چونکہ  سی ٹی بی ایک ایسا تعلیمی ماڈل ہے جس کی بنیاد خود شناسی پر ہے تو آپ تھوڑی سے ٹرینیگ سے خود اپنے تھراپسٹ بن سکتے ہیں کیونکہ آپ کو خود سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :