خوشی اور انسان

جمعہ 4 فروری 2022

Fazal Abbas

فضل عباس

انسان کی زندگی کا خطرناک اور اہم فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی خوشی اپنی ذات سے منسلک کرتا ہے یا اپنی خوشی کے لیے دوسروں کی جانب دیکھتا ہے یہ بات تو واضح ہے کہ اگر وہ اپنی خوشی کسی بھی دوسرے شخص سے منسلک کرے گا تو وہ ہمیشہ اس میں ناکام ہو گا کیوں کہ یہ خوشی نہیں ملتی چند روز آپ کے لیے کوئی میسر ہوتا ہےکہ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنی خوشی اس سے منسلک کر لو اس طرح آپ نہ صرف خود پر ظلم کرتے ہیں بلکہ سامنے والے سے توقعات باندھ کر اس پر بھی ظلم کرتے ہیں اس دنیا میں کوئی بھی شخص دوسرے کو خوشی دینے کے لیے نہیں ہوتا سب کو اپنی خوشی سے غرض ہوتی ہے کسی شخص سے کوئی منسلک ہوتا ہے اور اپنی خوشی اس سے جوڑ دیتا ہے تو یہ خوشی جوڑنے والے کی غلطی ہے نا کہ دوسرے شخص کی اسے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ کسی کی خوشی اس سے جڑی ہے وہ اپنی دنیا میں اپنی زندگی جیتا ہے
انسان نا چاہتے ہوئے بھی وہ عمل سر انجام دیتا ہے جو اس کی خوشی کو محدود مگر دلچسپ بناتا جاتا ہے انسان نئے رشتے بناتا ہے ایسے رشتے جہاں نا چاہتے ہوئے بھی انسان سب کر گزرتا ہے انسان خود سے جھوٹ بولتا ہے کہ نہیں میرا اس شخص سے کوئی ایسا رشتہ نہیں میرا اس شخص سے اس طرح کا کوئی واسطہ نہیں لیکن وہ غلط ہوتا ہے وہ اپنی خوشی اس رشتہ سے منسلک کر چکا ہوتا وہ اس رشتہ کو عزیز بنا چکا ہوتا ہے اتنا عزیز کہ اگر گمان میں بھی آئے کہ یہ رشتہ ٹوٹ جاۓ گا تو انسان خود کو توڑنا شروع کرتا ہے تب تک توڑتا ہے جب تک وہ گمان ٹوٹ جاۓ وہ رشتہ لوٹ آۓ
خوشی کو قید کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے کسی رشتہ سے باندھ دو اور انسان اس میں ماہر ہے انسان خوشی کو رشتہ سے باندھ دیتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ بس مجھے یہی خوشی ملے مجھے اور خوشی چاہیے ہی نہیں میں اپنی زندگی کو اس خوشی سے سنواروں گا جو خوشی اس رشتہ سے ملتی ہے باقی خوشی اس کے لیے معنی نہیں رکھتی وہ کھو چکا ہوتا ان یادوں میں جو اس رشتہ سے اسے ملتی اس کے چھوٹے چھوٹے پہلو سے وہ خوشیاں تلاش کرتا اس کی برائیوں کو نظر انداز کر کے پیار میں تبدیل کرتا اور اسے بھی اپنی خوشی بناتا یہی خوبصورتی ہوتی جب اچھائیوں کے ساتھ برائیاں بھی خوشی دینے لگے کیوں کہ وہ اپنی خوشیاں ایک ہی رشتے سے منسلک کر چکا ہوتا ان محدود خوشیوں میں اضافہ کرنے کے لیے وہ دونوں طرح کی خوبیوں (مثبت/منفی) کو اپنی خوشی بنا لیتا ہے
انسان کب اپنی خوشی قید کر بیٹھتا ہے اس کا اسے پتا بھی نہیں چلتا وہ بس اپنی دھن میں مگن ہوتا ہے سب کچھ ہو جاتا ہے دراصل اسے پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے لیکن وہ حقیقت سے منہ موڑ لیتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے کبوتر بلی کے سامنے انسان فطرتاً لاچار ہے جتنا بہادر بنے جتنا تجربہ کار بنے جتنا علم رکھتا ہو جب وہ اپنی خوشی قید کر بیٹھتا ہے تو اس کی کمزوری اس کے علم،تجربہ اور ذہانت کو مات دے چکی ہوتی ہے اسے اس کا بھی پتا نہیں چلتا کیوں کہ اس ناز ہوتا ہے خود پر کہ میں خود کے متعلق سب سے زیادہ جانتا ہوں میری فطرت میری طاقت ہے جو کہ کمزوری میں بدل چکی ہوتی ہے
اپنی خوشی کو دوسرے سے منسلک کرنا صحیح ہے یا غلط یہ تو دو چیزوں پر انحصار کرتا ہے ایک تو وہ شخص جس کے لیے وہ اپنے آپ کو بھول چکا ہوتا ہے دوسری قسمت جس میں سب لکھ دیا جا چکا ہوتا ہے لیکن ان دونوں چیزوں پر انسان کا اختیار ہوتا ہے اسے اپنے آپ پر کبھی بھی اختیار نہیں کھونا چاہیے اپنے اوپر اختیار کسی دوسرے کو نہیں دینا چاہیے چاہے وہ جتنا اچھا کیوں نہ ہو زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں کہ انسان کو اپنا اختیار خود پر استعمال کرنا پڑتا ہے خود کو سمجھانا پڑتا ہے کہ بس یہاں تک سب تھا آگے اس میں سے کچھ نہیں ہو گا تو رک جا یہیں تک تیری آزادی تھی خوشی پہلے قید ہے اب جذبات کی باری ان جذبات کو بھی قید کرنا ہو گا جن کے نہ سنبھلنے سے خوشی قید ہوئی انہوں نے ظلم کیا خوشی قید کر ڈالی ان کو بھی قید میں جانا ہو گا تا کہ خوشی کو رہائی ملے ایسے حالات میں اگر انسان کا اختیار کسی دوسرے کے پاس ہو تو وہ لاوارث بن جاتا ہے وہ نا خود خوش رہتا ہے نا وہ جن کی خوشی ان سے جڑتی ہے انہیں تو نہیں پتا ہوتا نا کہ اس کی خوشی قید ہے انہیں اپنی خوشی چاہیے ہوتی ہے ان کی خوشی بھی قید میں کھو جاتی ہے وہ بھی خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :