عمران خان کا پیار اور مشکل حالات

ہفتہ 6 نومبر 2021

Fazal Abbas

فضل عباس

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو مشکلات سے گھبرا جاتے ہیں اور آسان راستہ تلاش کرتے ہیں اس کوشش میں اپنا اصل اور حقیقی مقصد کھو دیتے ہیں دوسرا وہ لوگ ہوتے ہیں جو مشکلات سے ٹکرانے کا ہنر جانتے ہیں جن کی راہ میں جب مشکل آتی ہے تو وہ اس سے گھبراتے نہیں بلکہ ٹکراتے ہیں یہ مشکلات کو ہرانا جانتے ہیں بڑے مقاصد حاصل کرنا ایسے ہی لوگوں کا کام ہے جو مشکلات کو اپنا حریف سمجھ کر اس سے لڑنا جانتے ہوں ہمارے وزیر اعظم پاکستان عمران خان بھی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے مشکلات سے گھبرانے کی بجائے مشکلات کو اپنا حریف سمجھ کر انہیں ہرانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب ہوۓ آج ایسے ہی چند واقعات بیان کرتے ہیں
عمران خان کا کرکٹ کیریئر مشکلات سے بھرا پڑا ہے ایک عام سے آل راؤنڈر سے دنیا کا بہترین آل راؤنڈر بننا اور ساتھ ساتھ دنیا کا بہترین کپتان بننا عمران خان کے لیے فقط آسان نا تھا عمران خان ڈیبیو کرنے کے بعد ٹیم سے باہر ہو گئے تھے واپسی آسان نہ تھی اس لیے باہر رہ کر محنت کی اپنی کمزوریوں کو شکست دی اپنے کھیل کو مثبت انداز میں آگے بڑھایا اور بالآخر ٹیم میں واپس آ گئے یہاں سے عمران خان کے عظیم کرکٹر بننے کا آغاز ہوتا ہے عمران خان دن رات محنت کر کے خود کو بہتر سے بہترین بناتے ہیں عمران خان کے علاوہ شاید ہی کوئی فاسٹ باؤلر ایسا ہو جس کی رفتار میں وقت کے ساتھ کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہو عمران خان ایک عام سے آل راؤنڈر سے ایک عظیم آل راؤنڈر بنے باؤلنگ بیٹنگ دونوں میں خود کو منوایا کپتانی کرکٹ میں ایک انتہائی مشکل عہدہ ہوتا ہے یہ کرکٹر کو عظیم بھی بنا سکتا ہے اور ایک دم گرا بھی سکتا ہے عمران خان کپتانی کے میدان میں بھی کامیاب رہے عمران خان سخت فیصلے کر کے مشکلات کو ہرانے کا ہنر جانتے ہیں عمران خان نے بطور کپتان اپنے ماموں زاد بھائی ماجد خان جو انتہائی زبردست کرکٹر تھے مگر فارم اور فٹنس وقت کے ساتھ کھو چکے تھے کو ٹیم سے ڈراپ کر کے سب کو پیغام دیا کہ صرف میرٹ چلنا ہے دوست اور رشتہ دار بس گھر تک ٹیم پاکستان میں وہی کھیلے گا جو خود کو اس قابل منواۓ گا اسی عظم کے ساتھ عمران خان بڑھتا گیا 1987ء میں آسٹریلیا سے سیمی فائنل ہارنے پر عمران خان نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا لیکن ابھی کہاں اس وقت کے صدر پاکستان کے کہنے پر عمران خان نے ریٹائرمنٹ واپس لے لی اور پاکستان کی قیادت دوبارہ سنبھالی 1992ء میں عمران خان کی قیادت میں ٹیم پاکستان آسٹریلیا پہنچتی ہے لیکن اہم کھلاڑی وقار یونس اور سعید انور کے بغیر وہ دونوں انجری کے باعث باہر ہو چکے تھے اب نوجوان ٹیم میدان میں تھی ابتدا میں ناکامیاں ملی لیکن مشکل سے لڑنے والا عمران خان اپنی ٹیم کو بتاتا رہا کہ یہ ورلڈ کپ ہم نے جیتنا ہے بالآخر ہم کامیابی کی راہ پر گامزن ہوۓ اور ہم نے ورلڈ کپ جیت لیا عمران خان مشکلات کو ہرا کر کامیاب ٹھہرے
ورلڈ کپ کے ساتھ ساتھ عمران خان نے ایک اور مقصد اپنے زہن میں رکھا اور وہ مقصد شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر اور اسے غریبوں کے لیے مفت چلانا تھا دنیا کے ماہرین اس مقصد کو ناکام قرار دے چکے تھے لیکن عمران خان لگا رہا پوری دنیا گھومی لیکن اپنے مقصد کو حاصل کر لیا آج شوکت خانم کینسر ہسپتال دنیا کا بہترین کینسر ہسپتال ہے جہاں غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے یہ کامیابی بھی مشکل کو ہرا کر ہی عمران خان نے حاصل کی
سیاست کا میدان عمران خان کے لیے مشکلات کا پہاڑ تھا لیکن بات وہی مشکل حالات عمران خان کا پیار ہیں عمران خان نے کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی بجائے اپنی جماعت بنائی دو خاندانی سیاسی جماعتوں کے سامنے اپنی سیاسی جماعت قطعاً آسان نہیں تھا اور یہی ہوا پہلا الیکشن عمران خان خود بھی ہار گئے اور جماعت بھی ہار گئی اگلے الیکشن میں عمران خان نے اپنی نشست جیت لی یوں ایک نشست ہی صحیح مگر تحریک انصاف کی نمائندگی قومی اسمبلی میں آ گئی 2008ء میں الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا اب زیادہ محنت کی ضرورت تھی اب کی بار 2013ء میں عمران خان اور تحریک انصاف نے نسبتاً ایک بڑی فتح حاصل کی ووٹ کے حساب سے تحریک انصاف پاکستان کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری یعنی عمران خان مشکلات کو ہرانے کے بعد دو خاندانوں کے بیچ میں آ گئے لیکن اب اگلے خاندان کو کیسے ہٹایا جائے یہاں پھر مشکل سے لڑنا تھا اور عمران خان اس مشکل سے لڑے اور فتح حاصل کی اور 2018ء میں تحریک انصاف الیکشن جیتی اور عمران خان وزیراعظم بنے مشکلات ابھی بھی کم نہیں ہوئیں لیکن عمران خان ابھی بھی مشکلات سے لڑ رہا ہے اور انشاء اللہ پہلے کی طرح عمران خان اس بار بھی مشکلات کو شکست دے گا اور پاکستان کو عظیم ملک بناۓ گا
مشکلات سے لڑ کر کامیابی حاصل کرنے کی اس خوبی کی وجہ سے عمران خان کے بہت زیادہ چاہنے والے ہیں جو کسی نہ کسی صورت عمران خان کو سپورٹ کرتے رہتے ہیں میں بھی اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس سے عمران خان کے اچھے کاموں کی حمایت کرتا رہا ساتھ ساتھ جو کام اچھا نہیں تھا اس پر تنقید کی اور ابھی بھی کرتا رہوں گا ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانا منافقت ہوتی ہے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ بولنا ہر شخص کا نصب العین ہونا چاہیے یہی انسان کو عظیم بناتا ہے 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :