ابھرتے لکھاری

جمعرات 21 اکتوبر 2021

Fazal Abbas

فضل عباس

یہ وقت اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ہے ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی سںنی جاۓ اور مانی جاۓ اپنی بات دنیا کے سامنے رکھنے کے کئی ذرائع ہیں ان میں سے ایک مؤثر ذریعہ اپنی تحاریر کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنا ہے
تحاریر آواز ہوتی ہیں اور ان میں لکھے الفاظ لکھاری کی زبان ہوتے ہیں الفاظ لکھاری کا تعارف بیان کرتے ہیں ابھی حالیہ دور میں حکام بالا تک آواز پہنچانے کے لیے اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے لکھاری کافی حد تک میدان میں اتر چکے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور دنیا کے سامنے انہیں متعارف کروانا سب کا فرض ہے میرا اس تحریر کا مقصد کچھ لکھاریوں کو آپ کے سامنے لانا ہے
حمزہ بن شکیل مستقل مزاج لکھاری ہیں ان کی تحریروں میں مستقل مزاجی جھلکتی ہے مستقبل مزاجی کے ساتھ شائستہ انداز میں اپنی بات آگے پہنچانا بہت اچھے سے جانتے ہیں شاندار الفاظ کے ساتھ اپنی تحریروں کو مزین کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں ہر چیز کے مثبت پہلو کو پہلے رکھتے ہیں کیوں کہ منفی باتیں ایک حد تک نظر انداز کرنا ہوتی ہیں منفی پہلو کو نظر انداز کر کے مثبت پہلو اجاگر کرنا ہی ایک لکھاری کا مقصد ہونا چاہیے
ملک ضماد انتہائی آرام سے اپنی بات اور راۓ سب کے سامنے رکھنے کا فن جانتے ہیں اپنی تحاریر میں موتی پرونا انتہائی اچھے طریقے سے جانتے ہیں اپنی بات سے نہ ہٹنے کا فن انتہائی بہتر طریقے سے جانتے ہیں انتہائی بہترین طریقے سے اپنی تحاریر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں
ام سلمیٰ جتنا اچھا بولتی ہیں اتنا ہی اچھا لکھتی ہیں جس طرح بولتے ہوئے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے میں مہارت رکھتی ہیں بالکل ویسے ہی اپنی تحاریر کے ذریعے اپنی رائے سب کے سامنے رکھنے کا فن جانتی ہیں معاشرتی مسائل پر آپ کی تحاریر اپنی مثال آپ ہیں
حسن ساجد خاموش طبیعت کے ساتھ اپنے الفاظ کو اپنی تحریر کی زینت بناتے ہیں تحریر کے ذریعے اپنا پیغام سب کے سامنے رکھتے ہیں بات معاشرتی مسائل کی ہو یا روزمرہ کے مسائل کی  خوبصورت انداز میں تحریر کا حصہ بن جاتی ہے
حمزہ احمد صدیقی کافی عرصے سے اپنے الفاظ کو اپنی تحاریر کی زینت بناتے آۓ ہیں تحاریر کی خوبصورت بات یہی ہے کہ ان میں سادہ الفاظ موتی کی طرح جگمگا رہے ہوتے ہیں اپنی تحاریر میں سادہ الفاظ کے استعمال کے ساتھ عوام کی اکثریت تک اپنی آواز پہنچا دیتے ہیں اور اپنی رائے بغیر ڈھکے چھپے الفاظ کے سب کے سامنے رکھتے ہیں
امان الرحمٰن اپنی تحاریر میں چھپے جذبے سے جانے جاتے ہیں جہاں پاکستان کی بات ہو وہاں اپنی رائے کو اس کا حصہ بناتے ہیں اپنی راۓ سب کے سامنے لاتے ہیں اپنی راۓ دبنے نہیں دیتے
تحاریر کا اصل مقصد اپنی آواز کو زندہ رکھنا اور اپنے الفاظ کو نہ مرنے دینا ہے جب آپ اپنے الفاظ تحریر کی صورت میں اتار دیتے ہیں ان کا اثر کبھی ختم نہیں ہوتا کیوں کہ الفاظ اپنے اندر انمول طاقت رکھتے ہیں الفاظ نہ خود مٹتے ہیں نہ لکھنے والے کو مٹنے دیتے ہیں اس طرح آپ کی رائے دنیا کے سامنے ہوتے ہیں آپ کی رائے سے اتفاق کرنے والے بھی ہوتے ہیں اختلاف کرنے والے بھی اور ایسا ہی ہونا چاہیے جیسے آپ کو راۓ دینے کی آزادی ہے ویسے ان کو آزادی حاصل ہے کہ آپ کی رائے سے متفق ہوں یا اختلاف رکھیں آپ راۓ دینے کا اختیار رکھتے ہیں راۓ تھوپنے کا نہیں اس بات کو لازمی ذہن میں رکھیں
اس دنیا میں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینے کے لیے لازمی ہے کہ اپنی آواز بلند کریں اور اپنی رائے سے دنیا کو منور کریں اور دنیا پر چھوڑ دیں آپ کی رائے کیسی ہے اور کون اس سے اتفاق رکھتا ہے
اپنا نظریہ اپنی سوچ اور اپنی رائے سب کے سامنے رکھ کر جیئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :