روز بروز بدلتا سیاسی منظر نامہ

منگل 25 جنوری 2022

Fazal Abbas

فضل عباس

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے سیاست کی گیند کبھی کسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے تو کبھی کوئی اور لے جاتا ہے یہ آنکھ مچولی پاکستان کی سیاست کو دلچسپ بناتی ہے کوئی بھی کسی لمحہ خود کو فاتح قرار نہیں دے سکتا کیوں کہ ایک وقت کا فاتح اگلے لمحے شکست کا سامنا کرتا ہے اور اسی وقت فتح کا حقدار بھی ٹھہرتا ہے سیاست میں پیش آۓ ایسے ہی چند لمحات کو آج کی اس تحریر میں بیان کرتے ہیں
پاکستان کی حالیہ سیاست میں سب سے بڑا بھونچال تب آیا جب حزب اختلاف کی جماعتیں مل کر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں حزب اختلاف مطمئن تھی کہ وہ آسانی سے چیئرمین سینیٹ کو ہٹا لیں گی لیکن جو نتیجہ آیا وہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اکثریت کے باوجود حزب اختلاف ہار گئی حکومتی ممبران نے فتح کا جشن منایا یوں نمبرز کی الٹ پھیر نے سیاست کو دلچسپ بناۓ رکھا
لیکن یہ پہلی یا آخری دفعہ تو ہوا نہیں تھا سیاست نام ہی نہ ہارنے کا ہے حزب اختلاف نے وفاق سے سینیٹ کی نشست جیت کر اپنی فتح کا اعلان کیا اور کہا کہ وزیراعظم عمران خان اپنی اکثریت کھو چکے ہیں انہیں اپنے عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں لیکن یہ تو شروعات تھی اس کا جواب وزیراعظم عمران خان نے بھرپور انداز میں دیا اور اعلان کیا کہ وہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے اس اعلان نے ایک بار پھر سیاست کا میدان سجا دیا حزب اختلاف اپنی اور حکومتی ارکان اپنی کامیابی کی کوشش کرنے لگے جب قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی تو وزیراعظم فاتح ٹھہرے اور جشن کا آغاز ہوا مایوسی نے حزب اختلاف کی طرف رخ کیا وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لے کر پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ ابھرے
حکومت کے خلاف حزب اختلاف کا اتحاد کافی محنت کرتا رہا کہ کسی طرح وزیر اعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جائے یا حکومت گرا دی جاۓ لیکن دلچسپ صورت حال تب پیدا ہوئی جب وہ آپس میں ہی لڑ پڑے اور حزب اختلاف کی اہم جماعت پیپلز پارٹی کو اتحاد سے علیحدہ کر دیا
پاکستان میں سیاست کا یہی رواج ہے کہ اپنی ہار اور دوسرے کی جیت کبھی نہ مانو یہی ہوا جب حکومت نے نیب قوانین میں ترامیم منظور کروانی تھی کیوں کہ سینیٹ میں حزب اختلاف کی اکثریت ہے اس لیے حکومت نے جوائنٹ سیشن کا سہارا لیا اور ساری ترامیم ایک ساتھ منظور کی اس پر حزب اختلاف کی جانب سے حکومت اور اسپیکر پر بے انتہا تنقید ہوئی اور ترامیم واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا لیکن پاکستان میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ مخالف کا مطالبہ منظور کیا جاۓ
روایت کے برعکس اس دفعہ گلگت اور کشمیر کے انتخابات میں کافی گہما گہمی رہی تمام بڑی جماعتوں کے راہنماؤں نے الیکشن کمپین میں حصہ لیا اور اپنی اپنی جماعت کی کامیابی کے لیے سر توڑ کوشش کی گلگت میں جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو تحریک انصاف اپنے اتحاد کے ساتھ فاتح ٹھہری اور آزاد امیدواروں کی شمولیت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اپوزیشن نے اسے اپنی کامیابی کہا ان کے مطابق تحریک انصاف اپنی مقبولیت کھو چکی ہے اس لیے اسے حکومت بنانے کے لیے آزاد امیدواروں کا سہارا لینا پڑا
جب کہ کشمیر الیکشن میں ایک حیران کن نتیجہ سامنے آیا تحریک انصاف کی فتح تو یقینی تھی لیکن دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کا آنا حیران کن تھا اس نتیجہ نے مسلم لیگ ن کے لیے کافی الجھنیں پیدا کیں ساتھ ہی آصفہ بھٹو کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اس بات کا واضح امکان پیدا ہوا کہ مستقبل میں وہ بلاول بھٹو کی جگہ پیپلز پارٹی کی قیادت کریں گی ان دونوں انتخابات میں تحریک انصاف کی فتح نے عمران خان کا یقین مستحکم کیا
حالیہ سیاست کا حیران کن لمحہ اس وقت آیا جب تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ہار گئی اس میں اہم شکست پشاور کی میئر شپ تھی اس شکست نے تحریک انصاف کو ہلا کر رکھ دیا اس شکست پر وزیر اعظم عمران خان نے خود نوٹس لیا اور تحریک انصاف کی ساری تنظیم سازی معطل کر کے نئے سرے سے ترتیب دینے کا اعلان کیا اس شکست پر اپوزیشن نے بھرپور بیان بازی کی لیکن بیان بازی سے آگے نہ بڑھ سکے
منی بجٹ کی منظوری کے وقت حزب اختلاف نے پھر سر توڑ کوشش کی لیکن حکومتی اتحاد ایک بار پھر بازی لے گیا یہ ہے پاکستان کی سیاست جہاں کبھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کبھی کوئی جماعت تو کبھی کوئی جماعت لیکن یہ بات واضح ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی مدت پوری کرنے والے پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :