صحافت اور پاکستان میں صحافت

پیر 6 دسمبر 2021

Fazal Abbas

فضل عباس

صحافت کو کسی بھی ملک میں ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے صحافت عوام کو باخبر رکھنے میں اولین درجہ رکھتی ہے صحافی چاہے تو عوام صحیح اور بر وقت خبریں حاصل کر سکتی ہے اور اگر وہی صحافی چاہے تو عوام جھوٹی خبروں کا شکار ہو جاۓ اس طرح صحافت عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے
ایک صحافی کا کام خبر حاصل کرنے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کیے بغیر عوام تک پہنچانا ہوتا ہے یعنی وہ اس میں کسی قسم کا ایسا اضافہ یا کمی نہیں کر سکتا جس سے عوام کے سامنے سچ چھپ جائے صحافت نام ہے جھوٹ روکنے کا
 اگر کوئی صحافی جھوٹ پھیلاتا ہے تو اسے پتا ہونا چاہیے کہ وہ صحافت نہیں کر رہا بلکہ جھوٹ کی ترویج کر رہا ہے اور یہ اس کے پیشہ کے منافی ہے
صحافی کا کام اپنی خبر کو اپنی مرضی اور خواہش سے بالاتر رکھنا ہوتا ہے اگر خبر میں خواہش شامل ہو جاۓ تو خبر دم توڑ جاتی ہے خواہش حاوی ہو جاتی ہے اور خواہش کا خبر پر حاوی ہونا صحافت کی موت ہوتا ہے صحافت کی موت صحافی کی صلاحیتوں کی موت ہوتی ہے اس طرح صحافت اور صحافی دونوں معیار سے گر جاتے ہیں
دنیا بھر میں جتنے بھی نامور صحافتی ادارے ہیں ان کی پہچان یہی ہے کہ وہاں موجود صحافی خبر کو خواہش سے زیادہ فوقیت دیتے ہیں ان کے لیے خبر زیادہ اہم ہوتی ہے اور یہی جذبہ ان کے کام کو عظیم بنا دیتا ہے اور وہ بغیر ہچکچاہٹ کے آگے بڑھتے ہیں اور دنیا بھر میں اپنا لوہا منواتے ہیں
ساتھ ہی دنیا میں کچھ صحافی"ڈیپ پاکٹس" کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ صحافی بد دیانتی کی اعلیٰ مثال ہوتے ہیں وہ خبر پر ذاتی خواہشات کو فوقیت دیتے ہیں امراء اور کرپٹ سیاست دان ان کا استعمال کر کے من پسند خبریں اور تجزیہ حاصل کرتے ہیں اس ضمن میں استعمال ہونے والے لوگوں کو صحافی کا نام نہیں دیا جا سکتا ایسے لوگ صحافت کے نام پر دھبہ ہوتے ہیں
جب بات پاکستان میں صحافت کی ہو تو یہاں کئی دوسرے شعبوں کی طرح صحافت بھی زوال ترین ہے یہاں صحافت بڑے بڑے لوگوں کی لونڈی بن چکی ہے صحافت بک رہی ہے ایسی بھی ویڈیوز سامنے آئیں کہ پروگرام کے بیچ میں اینکرز کو کالز آرہی ہیں کہ ملک صاحب (ایک مشہور بزنس ٹائیکون) سے ایسے سوال نہ کریں جن کا جواب ان کے پاس ہو اس کے علاوہ ایسی کال ریکارڈنگز بھی لیک ہو چکی ہیں جن میں صحافی حضرات مشہور سیاستدانوں سے ہدایت لے رہے ہوتے ہیں پاکستان میں صحافیوں کے سب سے مشہور گروہ کو لفافہ گروپ یا واٹس ایپ گروپ کہا جاتا ہے یہ ایسا گروپ ہے جو لفافہ لے کر واٹس ایپ پر چند لوگوں (کرپٹ سیاست دانوں) سے ہدایت لیتے ہیں اور جیسا ان کا ایجنڈا ہو اسے میڈیا میں لاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں اسے لوگوں کے ذہن میں رچا بسا دیں لیکن وہی چند ایک ایسے بھی صحافی ہیں جو اپنی روزی اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈال کر لوگوں تک حقیقی خبریں پہنچاتے ہیں اور درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے صحافت کی لاج باقی ہے یہی وہ لوگ ہیں جو صحافت کا فخر ہیں ان میں سے کئی لوگ اپنی جانیں پیش کر چکے ہیں ان کے خون سے صحافت سیراب ہوئی ہے یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کا صحافت پر یقین باقی ہے
اس ساری گفتگو کا یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہر شعبے کی طرح صحافت میں بھی اچھے برے دونوں طرح کے لوگ ہیں یہاں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں اور یہی پر حق اور سچ کے لیے ڈٹ جانے والے بھی موجود ہیں لیکن اس شعبہ میں بہتری کے لیے نوجوان نسل کو آگے آنا ہو گا وہی اس شعبے میں تبدیلی لا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :