دیکھے وہ جو دیدہ بینا ہو

منگل 9 نومبر 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

دُور حاضر میں زماں و مکان کے ساتھ ساتھ حالات و واقعات میں تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں اِسی طرح گُذشتہ نِصف دھائی سے صحافیوں کے لئے استعمال ہونے یا یوں کہیے واٹس ایپ گروپس کی بدولت شعّبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لئے بغض و عناد یا پسند و ناپسند کے باعث  نت نئے نام بھی وجود میں آگئے۔ جن میں جعلی صحافی، بھّتہ خور صحافی، پیدا گیر صحافی، نام نِہاد صحافی، بلیک میلر صحافی، کاپی پیسٹ صحافی (جس کا کام ادھر ادھر سے خبریں اٹھاکر چاہئے ملکی ہوں یا غیر ملکی بس اپنا نام چپکا کر آگے بڑھا دینا ہے)
وغیرہ وغیرہ۔

ہر ایک نے اپنی اپنی دکانیں بنائیں ہوئی ہیں۔ جن کو واٹس ایپ نیوز گروپس یا سوشل میڈیا کا نام دیا جاتا ہے، ہر چھوٹا بڑا مختلف ناموں سے گروپس بنا کر ایڈمن  کی سِیٹ پر براجمان ہے۔

(جاری ہے)

جو شکرے کی نگاہ سے ہر ممبر کو دیکھتا ہے۔ اور کبھی کبھی ناگوار گزرنے والی پوسٹ یا  کسی کے فرمائشی پروگرام  کے تحت کسی بھی ممبر کو بلاضرورت گروپ سے نکال بھی سکتا ہے۔

یا یوں کہیے کے ایک ایڈمن کی مثال کی تھانے دار کی سی تھی ہوتی ہے جب چاہئے اپنی ایڈمن کی کرسی کا جائز و نا جائز فائدہ اُٹھا لے ۔ بہرحال بات ہو رہی تھی صحافیوں کو دیئے جانے والے نئے نئے اور عجیب و غریب ناموں کی ۔۔۔ 2021 کے آخری مہینوں میں جہاں فیس بک کے نام کی  تبدیلی کا بھی سُنا وہیں صحافیوں کے لئے خواں وہ ڈمی اخبارات سے وابستہ ہوں، پرنٹ میڈیا سے  یا بڑے سیٹلائٹ چینلز سے۔

۔ ہر فرد یا ادارے کی اپنی اہمیت ہے اس بات سے قطعہ نظر کہ کون کس ادارے سے ہے اپنے مدعے پر واپس آتے ہیں کہ صحافیوں کو دیئے جانے والے نام یا القابات دُور حاظر میں تھوڑے تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں یا یوں کہیئے ان ناموں نے اِرتقائی عمل طے کرتے ہوئے اپنے اندر مذید الفاظ سمو یا ان ناموں کی مذید برانچیں وجود میں آگئیں ہیں نئے نام  "کل وقتی صحافی" "پارٹ ٹائم صحافی"، "پولیس والا صحافی"، "سیاسی صحافی" بھی وجود میں آچکے ہیں۔

ان میں سب سے اہم کردار "پولیس والا صحافی" کا ہے جو چھوٹی سی چھوٹی خبروں  بھی ایسے بنا کر پیش کرتا ہے جن کے الفاظ کچھ یوں ہوتے ہیں۔ "دبنگ کاروائی" "شاندار/بہترین کارروائی "تابڑ توڑ کارروائی"
بس یوں کہیے کے اگر موقع لگے تو خبر کچھ اس طرح سے بھی بنا لیں "پلنگ توڑ کارروائی" بہرحال نئے وجود میں آنے والے پولیس صحافی اپنے علاقے میں آنے والے ہر تھانیدار کی دست بوسی موقع لگے تو قدم بوسی کے لئے تیار رہتے ہیں جیسے ہی نیا تھانیدار آیا اپنی حاظری کو یقینی بنانے کے لئے پہنچ جاتے ہیں جہاں گُذشتہ  ایس ایچ او کی برائیاں اور علاقہ میں ہونے والے جرائم و ناپسند افراد کی لسٹ دینے کے ساتھ ساتھ اپنے تعاون کا مکمل یقین بھی دلاتے ہیں تاکہ مستقبل بعید میں اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھا کر ہر جائز و ناجائز کام کروا سکیں۔

اس ضمن میں سرکاری افسران کے ساتھ تصاویر کھنچوا کر مختلف سوشل میڈیا پر چپکا کر سرکاری افسران سے اپنے تعلقات ظاہر کرکے دوسروں کو مرغوب کرنا ہوتا ہے۔ پولیس صحافی اپنے علاقے میں اور خاص کر جس تھانے دار سے بن جائے اس علاقے ہونے والے ہر جرائم کی پردہ پوشی کرنا اپنے فرائض منصبی میں سب سے اہم سمجھتا ہے۔ اور اگر کوئی دوسرا اس علاقے میں بڑھتے ہوئے جرائم اور تھانہ کی حدود میں ہونے والی غیرقانونی معاملات کو اجاگر کرے تو تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے آیا ہمارے علاقہ یا پسندیدہ ایس ایچ او کے خلاف کسی نے خبر کیوں چلائی۔

۔وغیرہ وغیرہ۔۔
اب ذکر کرتے ہیں سیاسی صحافی کا۔۔ جس کا معاملہ بھی کچھ پولیس صحافی کی طرح ہی ہوتا ہے اس کے گھر کے باورچی خانے  کا چُولہا بھی ان ہی سیاسی افراد خواں وہ لینڈ گریبرز ہوں یا کسی دوسرے منظم جرائم میں مرتکب ان کی تعریفوں پل باندھ دیئے جاتے ہیں سادہ الفاظ میں چمچہ گیری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔۔ بہرحال صحافی کے لئے استعمال ہونے والے نت نئے اور عجیب و غریب ناموں کا اکیسویں صدی میں  کانٹ چھانٹ جاری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والوں وقتوں میں کون سے نئے ایڈیشن آتے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :